• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بِریف آنسرز ٹو دی بِگ کوئسچنز (بڑے سوالات کے مختصر جوابات) حالیہ دور کے عظیم برطانوی سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کی اس کتاب کا نام ہے، جو ان کی وفات کے 7ماہ بعد اکتوبر 2018ء میں منظرِعام پر آئی۔

Brief Answers To The Big Questions کا آغاز اس سوال سے ہوتا ہے کہ ہمیں سوالات کیوں پوچھنے چاہئیں۔ انسانی ذہن ایک مشین کی طرح ہے، جس میں لاتعداد خیالات آتے رہتے ہیں، جنھیں دماغی خبط یا خلل سمجھ کر نظر انداز کرنے کے بجائے انہیں کھوجنا ضروری ہے۔ آج کا انسان ٹیکنالوجی کے عروج کو چھو رہا ہےاور نصف صدی پہلے تک جو سائنس فِکشن تصورات ہم اسٹار ٹریک یا اسٹار وارز میں دیکھا کرتے تھے، وہ آج حقیقت کا روپ دھارے ہمارے سامنے موجود ہیں اور بعید نہیں کہ مریخ پر انسانی کالونیاں اور خلائی مخلوق کے سراغ کے جو خیالات آج ہمیں دیوانے کا خواب معلوم ہوتے ہیں، وہ اگلے 50برس میں ممکنات میں ڈھل چکے ہوں۔

کتاب کے موضوعات

کتاب کا پہلا باب خدا کے وجود اور دوسرا باب کائنات کی ابتدا سے متعلق سوالات کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ کائنات ایسی کیوں ہے جیسی ہمیں نظر آتی ہے، کیا اس کی کوئی ابتدا تھی اور کیا یہ کسی انتہا کو پہنچے گی؟

ہیملٹ نے کہا تھا کہ اگر مجھے کسی چھوٹے سے خول میں بھی بند کردیا جائے تب بھی میں خود کو اس لامحدود خلا کا بادشاہ محسوس کروں گا۔ ہیملٹ کی طرح صدیوں سے انسان خود کو اس کائنات کا بادشاہ تصور کرتا آیا ہے۔ زمانۂ قدیم سے افریقی قبائل اور دیگر تہذیبوں میں اس طرح کے ماورائی قصے اور کہانیاں گردش کرتے رہے ہیں کہ خدا نے (جو ہر داستان میں ایک نئے روپ میں ہوتا ہے) کائنات کو محض انسان کے لیے تخلیق کیا ہے۔ یہ دونوں ابواب کسی حد تک ہاکنگ کی 2010ء میں شائع ہونے والی کتاب’دی گرینڈ ڈیزائن‘ کا خلاصہ معلوم ہوتے ہیں، جس میں انہوں نے خدا کے وجود اور کائنات کی تخلیق میں کسی ماورائی ہستی کے کردار پر تفصیل سے لکھا تھا۔

کتاب میں جس تیسرے اہم سوال پر روشنی ڈالی گئی ہے، اس نے فی زمانہ امریکی تحقیقاتی خلائی ادارے ناسا سے لے کر سائنس میں معمولی دلچسپی رکھنے والے افراد کے ذہن کو بھی گھن چکر بنا دیا ہے کہ آیا انسان ہی اس کائنات کی واحد ذہین مخلوق ہے یا پھر کہیں کسی اور سیارے، ڈوارف پلینٹ یا چاند پر خلائی مخلوقات آباد تھیں یا اب بھی آباد ہیں؟

اس مشکل ترین سوال کا جواب ہاکنگ نے طبیعات کے قوانین کی صورت میں دیا ہے کہ کائنات وقت کے ساتھ مسلسل بڑھ رہی ہے اور اس میں زندہ حیات کو ایک آرڈرڈ سسٹم کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے، جو اس میں پیدا ہونے والے کسی خلل کے خلاف مزاحمت اور خود کو از سرِ نو پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ انسان کو دوسرے انسانوں سے خطرات اس وقت بھی لاحق تھے، جب وہ غاروں میں رہا کرتا تھا مگر گزشتہ300برسوں میں انسان نے ٹیکنالوجی کے سفر میں جتنے سنگِ میل عبور کیے ہیں، اس کی وجہ سے زندگی سہل تو ہوئی مگر ساتھ ہی انسان ایک ایسے دو راہے پر آ کھڑا ہوا ہے کہ جہاں کوئی ایٹمی جنگ، ہولناک وائرس یا کرۂ ارض کے قدرتی ماحول میں بڑھتا عدم توازن کسی بھی وقت زمین سے زندگی کا نام و نشان مٹاسکتا ہے۔

ہاکنگ کہتے ہیں، عین ممکن ہے کہ ہم سے پہلے کسی اور سیارے پر موجود مخلوق بھی اسی طرح فنا ہوگئی ہو یا آج بھی کہیں ہم سے زیادہ ترقی یافتہ مخلوق بستی ہو۔ مگر ان کی تحقیق کا نچوڑ یہ ہے کہ زندگی مکمل تباہی کے بعد بھی از خود نمو کی صلاحیت رکھتی ہے۔

صدیوں سے انسان کی سماجی و معاشرتی زندگی میں یہ سوال ہلچل مچاتا رہا ہے کہ کیا مستقبل کے متعلق درست پیش گوئی ممکن ہے؟ اسٹیفن ہاکنگ نے اگلے باب میں بہت ہی اختصار کے ساتھ علمِ نجوم (ایسٹرالوجی) کی بحث میں پڑے بغیر کوانٹم اینڈ کلاسیکل فزکس کے قوانین کے مطابق اس کا سیدھا سا جواب یہ دیا ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ اگرچہ طبیعات کے قوانین کے ذریعے مستقبل کو جانا جاسکتا ہے مگر یہ اعداد و شمار انتہائی مشکل ہیں اور نتائج تب بھی غیر یقینی ہوں گے۔ طبیعات میں غیر یقینیت کا قانون اس امر پر بضد ہے کہ کسی شے یا جسم کے مقام یا رفتار سے متعلق درست پیشگوئی کی جاسکتی ہے مگر ہاکنگ کے مطابق یہ اصول بلیک ہولز پر لاگو نہیں کیا جاسکتا۔ کسی بلیک ہول میں انفرادیت (Singularity) ایک ایسا مقام ہے، جہاں اس کی کثافت لامتناہی ہوتی ہے اور صرف اس مقام پر ہی مستقبل سے متعلق پیشگوئی کی جاسکتی ہے۔

5ویں باب میں ہاکنگ نے نصف صدی سے زائد عرصے میں بلیک ہولز پر اپنی تحقیقات کا نچوڑ پیش کیا ہے کہ بلیک ہولز سائنس فکشن ناولوں اور فلموں میں پیش کیے جانے والے عام تصور سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور گنجلک ہیں اور اس میں چلی جانے والی کسی بھی شے کا سالم نکل آنا ممکن نہیں۔ لیکن اگر وہ بہت زیادہ ماس والا بلیک ہول ہو تو خلا باز بلیک ہول کے مقام ’ایونٹ ہورائیزن‘ سے سلامت نکل جائے گا مگر سنگولیرٹی پر بچ نکلنا پھر بھی ممکن نہیں ہوگا۔

لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی بلیک ہول سے زندہ نکلنا ممکن نہیں ہے تو وورم ہول (Wormhole) تک رسائی اور پھر دوسری کائنات میں داخلہ کیونکر ممکن ہوگا اور کیا ٹائم ٹریول اب بھی محض سائنس فکشن کا تصور ہے؟ ہاکنگ کے مطابق اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہوئے ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ آج کا سائنس فِکشن، مستقبل کی سائنس خصوصاً طبیعات و فلکیات میں نئی تحقیق اور پیش رفت کی منزل ہرگز نہیں ہے۔ اگر آئن اسٹائن کا بنیادی نظریۂ اضافت درست ہے اور کائنات کی انرجی ڈینسیٹی مثبت ہے تو وقت میں سفر کسی صورت ممکن نہیں مگر ہمیں مستقبل میں کسی نئے قانون اور بڑی پیش رفت کی توقع ضرور رکھنی چاہیے۔

لیکن اگر وقت میں سفر ممکن نہیں ہے تو اگلا سوال ذہن میں آتا ہے کہ خلا میں انسانی مستقبل کیا ہے اور مریخ یا کسی دوسرے سیارے پر انسانی آباد کاری ممکن ہوسکے گی؟ اسٹیفن ہاکنگ کے مطابق اگلے 50 برس میں ہم اپنے نظامِ شمسی میں کہیں بھی بآسانی آنے جانے کے قابل ہوں گے اور ممکن ہے اگلے ایک سو برس تک کسی نئے نظامِ شمسی پر کمندیں بھی ڈال چکے ہوں مگر یہ اسٹار ٹریک کی طرح تیز رفتار نہیں ہوگا اور ایک سفر کے لیے10برس درکار ہوں گے۔

کتاب کے آخری 2ابواب ہماری زندگیوں میں مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے اثرات اور انسانی مستقبل سے متعلق ہیں۔ اسٹیفن ہاکنگ ہمیشہ اس امر پر زور دیتے رہے کہ حد سے بڑھتا ہوا اس کااستعمال نہ صرف ہمارے سماجی و معاشرتی نظام کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ یہ آہستہ آہستہ ہمیں مفلوج اور مشینوں کا محتاج بنا رہا ہے اور اگر بروقت سمت درست نہیں کی گئی تو کچھ ہی عرصے میں انسانیت اس مقام پر کھڑی ہوگی، جس کے پار محض ہلاکت ہے۔

تازہ ترین