• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکی میں ایردوان دور سے قبل محکمہ پولیس پر برصغیر پاک و ہند کے محکمہ پولیس جیسی چھاپ لگی ہوئی تھی۔ ترک پولیس میں رشوت کا بازار گرم تھا اور جرائم کا دور دورہ تھا اور استنبول کو دنیا میں جرائم کے مرکز کی حیثیت حاصل تھی ۔ عوام پولیس کے رویے سے تنگ آنے کے ساتھ ساتھ پولیس اسٹیشن جانے سے کتراتے تھے ۔ ترک باشندے فوج میں بھرتی ہونے یا لازمی فوجی ٹریننگ حاصل کرنے کو تو اپنے لئے باعث فخر سمجھتے لیکن پولیس اسٹیشن بلائے جانے یا وہاں جانے کو اپنے لیے برا خیال کرتے تھے لیکن ایردوان نے بر سر اقتدار آنے کے بعد محکمہ پولیس کی طرف خصوصی توجہ دی ۔ ادارے کو عوام دوست اور پولیس اسٹیشنز کو شفاف بنا کر اور اس ادارے میں یونیورسٹی گریجویٹ کی بھرتی وٹریننگ دے کرمحکمہ پولیس کو نئے سرےسے منظم کیا۔ ایردوان حکومت نے محکمہ پولیس کو اس قدر مضبوط ، طاقتور شفاف، اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا کہ یہ محکمہ فوج سے بھی اعلیٰ پائے کے ادارے کا روپ اختیار کرگیا اور یہی وجہ ہے کہ 15جولائی 2016ء میں جب فوج کے ایک دھڑے اور دہشت گرد تنظیم " فیتو" نے مشترکہ طور پر صدر ایردوان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کی تو اس وقت ترکی کے محکمہ پولیس نے اس بغاوت کو ناکام بنا کر فوج پر اپنی برتری کی مہر ثبت کردی۔ موجودہ دور میں ترکی کا محکمہ پولیس دنیا کے جدید ترین پولیس کے اداروں میں شامل ہے اور دنیا بھر میں اس کی ساکھ کو تسلیم کیا جاتا ہے ۔ ماضی میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے ترکی کے محکمہ پولیس کی اعلیٰ کارکردگی سے متاثر ہو کر ملکی محکمہ پولیس کو تشکیل دینے کی کوشش کی لیکن پاکستان کا محکمہ پولیس اتنا فرسودہ، بے ایمان، رشوت خور، عوام دشمن بن چکا ہے جس کو تبدیل کرنا تقریباََ ناممکن ہوگیاہے۔ یہ محکمہ ایک ناسور اور کینسر کی طرح پورے پاکستان کی تباہی اور بربادی کا سب بنتا جا رہا ہے جسے اب جڑ سے اکھاڑ پھینک کر نئے سرے سے تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے عوام عمران خان کے تبدیلی والے نعرے سے متاثر ہوکر ان سے بہت سی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں ۔ جن میں سب سے اہم، محکمہ پولیس کو نئے سرے سے تشکیل دینے کا معاملہ ہے۔ امیدیں تب ہی پنپتی ہیں جب کوئی نہ کوئی کرن پھوٹتی نظر آرہی ہو۔ ساہیوال کے واقعہ نے پورے پاکستان کے عوام کو پولیس کے خلاف ایکشن لینے پر موجودہ حکومت کو مجبور کردیا ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں اندرونی امن و امان کے قیام کی ذمہ داری پولیس کےاداروں کی ہوتی ہے۔ جبکہ ملکی سرحدوں کی حفاظت فوج کے ذمہ ہوتی ہے ۔ہم سرحدوں کا تحفظ تو یقینی بناچکے ہیں لیکن اندرونی سلامتی سے غافل ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی پولیس دنیا کی کرپٹ ترین پولیس کی صف میں شامل ہو چکی ہے اوراس کا ماضی اور حال اس کی گواہی بھی دیتا ہے۔

ساہیوال میں دہشت گردی کا روپ دیتے ہوئے عام شہریوں کے قتل کے واقعے نے پولیس کے چہرے کو مزید بدنما بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ موجودہ پولیس کسی بھی صورت پاکستان میں امن و امان کے قیام میں مددگار ثابت نہیں ہوسکتی اگر وہ چاہےاور اس مقصد کیلئے اپنی پوری رعنایاں صرف کردے تو بھی اس کے پاس اتنی صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ امن قائم کرسکے۔ یہ حال صرف پنجاب پولیس ہی کا نہیں ہے بلکہ پورے ملک کی پولیس کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ پولیس رشوت خوری اور بد عنوانی کی وجہ سے عوام کی نظروں سے گرچکی ہے اور عوام ان پولیس والوں سے چھٹکارا حاصل کرتے ہوئے کسی نئے محکمہ پولیس کی تشکیل کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ پولیس کے محکمے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے سب سے پہلے ترکی کی طرح یونیورسٹی گریجویٹس ہی کو بھرتی کرنے،شفاف بنانے ، جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنے، عوام دوست بنانے ، رواداری، اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرنے کی ٹریننگ دینے کی ضرورت ہے۔ نئی پولیس فورس کو تیار کرنے میں میرٹ کا پورا پورا خیال رکھنا ہوگا ۔ جدید طرز کی اس پولیس کی تنخواہیں و مراعات پاک فوج کے آفیسر جتنی ہونی چاہئیں تاکہ پولیس کے دل میں رشوت لینے کا خیال ہی نہ آئے۔ اس محکمے کو سیاست سے دور رکھا جائے اور وزرا ء تک کو ان کے معاملات میں دخل اندازی کا کوئی اختیار نہ دیا جائے۔ جب تک پاکستان کے کسی ایک شہر میں اس طرز کا محکمہ پولیس کام کرنا شروع نہیں کردیتا ، ا س وقت تک پاکستان کے حالات بہتر نہیں ہوسکتے ہیں۔ نئی پولیس کے تمام اہلکاروں کی ایک خاص مدت کیلئے ٹریننگ غیر ممالک میں کی جانی چاہیے اور ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد ہی ان کو کام پر مامور کیا جانا چاہیے۔ ایک شہر میں اس نظام کی کامیابی کے بعد آہستہ آہستہ اسے دیگر شہروں تک بھی پھیلایا جاسکتا ہے جس طرح ملک میں فوج کا محکمہ وفاقی حکومت کے تحت کام کرتا ہے بالکل اسی طرح پولیس کے اس نئے محکمے کو بھی وفاق کی نگرانی میں دیا جاسکتا ہے تاکہ صوبے اس نئے محکمے کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرسکیں اور یوں اس نئے محکمے کو سیاست کا شکار ہونے سے بچایا جا سکے۔ پولیس سسٹم متعارف کروانے کے بعد جدید طرز کے پولیس اسٹیشن بھی قائم کیے جانے چاہئیں،جہاں کیمرے نصب کرتے ہوئے ان کا رابطہ پولیس ہیڈ کوارٹر سے قائم کردیا جائے تا کہ چوبیس گھنٹے ان اسٹیشنز کی نگرانی ہوتی رہے۔ ابتدا میں ان پولیس اسٹیشنز میں پبلک کو مدعو کرتے ہوئے نئے پولیس سسٹم اور نئی پولیس کے بارے میں آگاہی فراہم کی جاسکتی ہے اور ان کے دلوں سے پولیس کے خوف کو دور کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان اس وقت تک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا جب تک ملک میں پولیس کے ادارے کی سمت درست نہیں کرلی جاتی ۔ وزیراعظم عمران خان ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مدعو کرنے اور ملک میں سیاحت کو فروغ دینے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں اور یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہوسکے گا جب ملک میں امن و امان قائم ہوگاجس کیلئے پولیس گردی کے ساتھ ساتھ بیورو کریسی کی رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا۔

جنابِ وزیراعظم صاحب اب ملک کااندرونی امن و استحکام جدید طرز کی پولیس بناکر ہی برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ اگرچہ اس پروجیکٹ پر بہت زیادہ اخراجات آئیں گے لیکن یقین کیجیے یہ اخراجات پولیس کی بد عنوانی کی وجہ سے حکومت تک نہ پہنچنے والے ٹیکس اور دیگر آمدنی کے مقابلے میں بہت کم ہوں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین