اپنے آمرانہ دور اقتدار میں جنرل (ر) پرویز مشرف نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے عوامی منشاء اور تائید کے بغیر اپنے تئیں پیش رفت کرنے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے اس حوالے سے 2002ء میں کٹھمنڈو میں ہونے والی سارک کانفرنس کے دوران انتہائی غیر متوقع طور پر اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی سے اُن کی نشست پر جاکر ہینڈ شیک کرکے شرکاء کو حیران کردیا تھا۔ پھر آگرہ کانفرنس میں انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ بات چیت کی۔ نیویارک میں اسی حوالے سے من موہن سنگھ سے بھی رابطے کیے۔ اکتوبر 2004ء میں اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل (ر) پرویز مشرف نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پہلی مرتبہ اپنے فارمولے کی تفصیلات پیش کیں،انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے استصواب رائے اور کنٹرول لائن کو مستقل سرحد بنائے جانے کو ناممکن قرار دیتے ہوئے حل کے لیے ایک نیا حل پیش کردیا ۔ جس کے مطابق پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو جغرافیائی، لسانی اور مذہبی بنیادوں پر سات حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ دونوں ممالک کو طے کرنا ہے کہ کونسے حصے دونوں ممالک کے پاس ہوں اور کونسے حصے کو خودمختاری دی جا سکتی ہے۔خودمختار حصے کو اقوام متحدہ کے زیرانتظام کیا جا سکتا ہے یا پھر یہ دونوں ممالک کے مشترکہ کنٹرول میں بھی رہ سکتا ہے۔صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنے فارمولے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے دو حصے ہیں جو ان کے مطابق آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات پر مشتمل ہیں۔بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے پانچ حصے ہیں جن میں وادی کشمیر بھی شامل ہے جو کہ خالصتاً کشمیری ہیں۔ دوسرا علاقہ جموں کا ہے جس کے دو حصے ہیں ایک مسلمانوں اور دوسرا ہندؤوں کا ہے۔ تیسرا لداخ، چوتھا دراز کارگل اور پانچواں لیہ کا حصہ بھارت کے زیرانتظام ہے۔لداخ بدھ مذہب والوں کا ہے جبکہ کارگل شیعہ مسلمانوں کا اکثریتی علاقہ ہے۔ اُن کا کہنا تھاکہ ان سات علاقوں میں سے بھارت اور پاکستان کو طے کرنا ہے کہ ان حصوں کی تقسیم مذہبی بنیاد پر ہونی چاہیے یا لسانی یا جغرافیائی بنیادوں پر۔
ان تجاویز پر پاکستان میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا تاہم کم وبیش تمام ہی طبقات نے اس فارمولے کی شدید الفاظ میں نہ صرف مخالفت بلکہ مذمت بھی کی۔ جماعت اسلامی کے راہنماؤں نے تو اسے کشمیر کاز سے غداری سے تعبیر کیا۔ البتہ بھارت میں جنرل (ر) پرویز مشرف کو خاصی پذیرائی ہوئی۔ اس فارمولے کے حوالے سے بعض تجزیہ نگاروں اور مبصرین کے ساتھ ساتھ سیاسی شخصیات بالخصوص کشمیری راہنماؤں کا بھی یہ کہنا تھا کہ کشمیر کاز کو جتنا نقصان پرویز مشرف نے پہنچایا اس سے یہ مسئلہ ایک بار پھر کشمیریوں کے خلاف سرد خانے کی طرف چلا گیا۔