ملک محمد اسلم،اوباڑو
کسی بھی علاقے میں جرائم کی بیخ کنی اور مجرموں کی سرکوبی کے لیے محکمہ پولیس کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اہل کاروں کو بنیادی وسائل فراہم کیے جائیں تاکہ امن و امان کے قیام کے لیے اپنے فرائض ذہنی یکسوئی کے ساتھ انجام دے سکیں۔ لیکن اکثر علاقوں میں ایسا نہیں ہے اور وہاںمحکمہ پولیس کو ناگفتہ بہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی حالیہ مثال اوباڑو میں واقع پولیس چوکی کی ہے۔
سندھ کےدارالحکومت کراچی سے600 کلو میٹر کے فاصلے پر، سندھ اور پنجاب کے سنگم پر واقع ضلع گھوٹکی ہے،جسے پاکستان کے بالائی علاقوں کی طرف سے آنے والوں کے لیے پہلا جب کہ سندھ سے پنجاب میں داخل ہونے والوں کے لیے آخری ضلع کہا جاتا ہے۔ اس ضلع کا شہر اوباڑو سندھ کا آخری شہر کہلاتا ہے۔ اوباڑو سے مشرق میں پنجاب کا ضلع رحیم یارخان ،شمال میں دریا کے اُس پار گڈو ،کشمور جنوب میں ریگستان اور بھارت کا علاقہ جیسلمیر لگتا ہے۔
جنوبی پنجاب کے ضلع رحیم یارخان سے گزر کرصوبہ سندھ میں داخل ہونے والوں کے لیے دونوں صوبوں کی سرحد کے ساتھ سندھ کا پہلا شہر اوباڑو پڑتاہے ،جس کی پہلی پولیس چوکی کموں شہید یعنی سندھ کاسرحدی گیٹ ہے۔ ویسے تو سندھ کا پہلا شہر ہونے کی وجہ سےیہ پولیس چوکی تمام بنیادی سہولتوں سے مزین اور مثالی ہوناچاہئے تھی مگر اس کی صورتحال یہ ہے کہ 1992ء میں محکمہ پولیس نے لاکھوں روپے خرچ کر کے اس چوکی کے لیےدو منزلہ عمارت تعمیر کرائی ،مگر ناقص میٹریل یا مبینہ طور سے کمیشن و کک بیکس‘‘ کے باعث چند سال بعد ہی یہ عمارت بوسیدہ ہوگئی۔ اب چوکی کی عمارت اس قدرمخدوش ہو چکی ہے کہ پولیس اہل کاروں نے پہلی منزل کو تو استعمال کرنا ہی چھوڑ دیا ہے ، جب کہ دوسری منزل کی تمام دیواروں میں نہ صرف دراڑیں پڑ چکی ہیں بلکہ انتہائی خستہ حال ہو چکی ہیں۔ لاک اپ،چوکی انچارج کے دفتر کا کمرہ، اور محرروں کے کمرےشکستہ حالت میں ہیں۔ چھتوں کی اینٹیں ٹوٹ کر نیچے گررہی ہیںجس کی وجہ سے بڑے بڑے سوراخ نظر آتے ہیں۔ عمارت کی خستہ حالی دیکھ کر یہاں اپنے فرائض انجام دینے والے اہل کار خائف رہتے ہیں۔ یہ عمارت شکستہ حالی کے سبب کسی وقت بھی گر کر نا قابل تلافی جانی نقصان کا سبب بن سکتی ہے ۔ صوبے کے سرحدی شہر میں واقع یہ پولیس چوکی طویل عرصے سےسندھ حکومت اور پولیس کے اعلیٰ حکام کی توجہ کی منتظر ہے۔
قومی شاہ راہ پر سفر کرتے ہوئے یہاں سے گزرنے والے سندھ پنجاب کے مسافر وں کے ذہنوں پر خوش گوار تاثرات مرتب نہیں ہوتے۔ضلعی پولیس آفس کے ذرائع کے مطابق اس پولیس چوکی کو ناقابل استعمال قرار دیا جا چکا ہے اور حکام کو بھی متعدد بار اس کے لئے لکھا گیا ہے کہ مذکورہ عمارت کو فوراًمنہدم کر کے پولیس چوکی کو ازسرنو تعمیر کیا جائے۔ دوسری جانب اس انتہائی اہم نوعیت کی پولیس چوکی کے اہل کار خوف و ہراس کی حالت میں کام کرنے ک وجہ سے اپنے فرائض کی ادائیگی صحیح طور پرکرنے سے قاصر رہتے ہیں، جس کی وجہ سے سندھ میں ودسروے صوبوں سے جرائم پیشہ عناصر داخل ہوکر صوبے کے سرحدی علاقوں میں سکونت پذیر ہوجاتے ہیں۔ ان حالات کی وجہ سے شہید کموں پولیس چوکی کی طرح ضلع گھوٹکی کی امن و امان کی صورت حال بھی مخدوش اورغیر تسلی بخش ہوتی جارہی ہے۔ بڑھتی ہوئی چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں کے باعث ضلع کی عوام کا عرصہ حیات تنگ ہو گیا ہے۔ ڈاکو، چور دنددناتے پھر رہے ہیں یہاں تک کہ گھوٹکی، اوباڑو میں ایک ہی رات میں دونوں بڑے شہروں میں 17 دوکانوں کے تالے توڑ کر چور لوٹ مار کر کے فرار ہو گئے ، جن کا سراغ ابھی تک نہیں لگایا جا سکا۔
اسی طرح مویشی اور موٹر سائیکلوں کی بے تحاشا چوریوں کے باعث شہریوں کو متعدد بار احتجاج کرتے ہوئےقومی شاہراہ پر ٹائروں کو آگ لگا کر ٹریفک کو بلاک کرنا پڑا ہے لیکن پولیس ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود چوروں کو پکڑنے میں ناکام رہی یہی وجہ ہے جو ایس ایس پی گھوٹکی اسد اعجاز مہلی کو فوری عوامی احتجاج کے بعد ہٹایا گیا اور حال ہی میں نئے ایس ایس پی فرخ لنجار کو نیا ایس ایس پی گھوٹکی مقرر کیا گیا ہے مگرجب تک ضلع کے داخلی راستے پر قائم چوکی کی صورت حال بہتر نہیں ہوگی ، وہ بھی ضلع میں امن و امان کے قیام اور جرائم کے خاتمے میں ناکام رہیں گے۔