• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بُل فائٹنگ اسپین کا قومی کھیل ہے، آج کل پاکستانی سیاست میں طمطراق کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔ اس کھیل میں اب تک بے شمار بچھڑے، بیل اور سانڈ ہلاک ہو چکے ہیں، اس پر کسی نے کبھی صدائے احتجاج بلند نہیں کی، کبھی کبھی کوئی نیک دل پادری یا تحفظ حیوانات کا حامی مریل سی آواز انسانیت کے نام پر اٹھا دیتا ہے۔ گزشتہ سالوں میں کئی ایک قابل ذکر مٹاڈور (سانڈوں کے حریف) سانڈوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اس طرح کچلے گئے ہیں کہ لوگوں نے بل فائٹنگ کی مخالفت کرنا شروع کر دی اور مطالبہ کیا گیا کہ اسے ترک کر دیا جائے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ قومی نہیں موت کا کھیل ہے۔مٹاڈور.... مائیکل اسپائنو بہت ہی معروف شخصیت کا مالک رہا ہے۔ اسے بچھڑوں اور سانڈوں کے مقابلے میں خصوصی مقام حاصل رہا۔ عام طور پر وہ مقابلے میں اپنے حریف کو پچھاڑ دیتا تھا۔ بچھڑے اور مٹاڈور کے قدموں کے درمیان جو فاصلہ ہوتا ہے، اسے موت کا فاصلہ کہا جاتا ہے لیکن طاقت کا نشہ اور فتح کا خمار اپنے قدم اٹھائے چلا جاتا ہے۔یہ مٹاڈور ہر جگہ موجود ہے جو اپنے دماغ میں انسان دوستی، مساوات اور برابری کی سوچ کو جگہ دینے اور کمزوروں، مجبوروں اور مہقوروں کو قفسِ جبر سے آزاد کرنے کا سزاوار نہیں ہوتا، وہ اپنے سر پر ذاتی تفوق اور تفاخر کا طرہ سجائے رکھتا اور اپنے ہم نفسوں کو غلامی اور ذاتی اطاعت پر مجبور کرتا رہتا ہے۔ جس کسی نے بھی اس کی اس روش سے سرِمو انحراف کیا، اس کا کھلے عام ایسا حشر کیا گیا کہ دنیا یاد رکھے۔ وہ تن تنہا فیصلہ کرنے کا اذن چاہتا ہے اور جو کوئی اس کی فکری برتری کے زعم میں رکاوٹ بنتا ہے، اسے بے دردی سے جھٹک دیا جاتا ہے۔ یہ کوئی الف لیلوی داستان نہیں بلکہ ہماری سیاسی تاریخ کا روزمرہ ہے، لہٰذا مجھے قائد ِ انقلاب علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے دست راست اور پاکستان عوامی تحریک کے اہم ترین رہنما خرم نواز گنڈا پور کے اس انکشاف پر ذرہ برابر بھی اچنبھا نہیں ہوا کہ 2014ء کے ابتدائی مہینوں میں عمران خان، پرویز الٰہی، چوہدری شجاعت اور طاہر القادری نے ’’لندن پلان‘‘ میں حکومت گرانے کے لئے دھرنا پروگرام تشکیل دیا تھا۔

سیاست اور تاریخ کا ادنیٰ ترین طالب علم بھی بخوبی جانتا ہے کہ ہمارے ہاں اقتدار کی جتنی بھی جنگیں لڑی گئیں ان کا مرکزی نکتہ اختیارات کا کنٹرول اور برتری کی خواہش تھا۔ جب ایک ادارہ دوسرے ادارے کی برتری کو تسلیم نہیں کرتا تو پورا نظامِ حکومت ہی تلپٹ ہو جاتا ہے۔ منتخب آئینی حکمران جیلوں کی ہوا کھاتے ہیں اور ماتحت شب خون مار کے قوم کے فیصلے صادر کرنے لگ جاتے ہیں۔ کسی نہ کسی آئینی شق کا سہارا لے کر سیاستدانوں اور بیورو کریسی کو خوب رگیدا جاتا ہے۔ معاشرے میں کون سا ایسا فعل ہے جو بنیادی حقوق کے زمرے میں نہیں آتا لہٰذا وزیر اعظم سے لے کر ادنیٰ ملازم تک‘ ہر کوئی اس شق کا شکار ہے۔بلاشبہ احتساب کے کڑے قوانین سے معاشرہ بہتر بنایا جا سکتا ہے لیکن جب سیاسی اختلافات اداروں کے درمیان رسہ کشی کا باعث بن جائیں تو پھر سارا جمہوری کلچر کمزور ہو جاتا ہے۔ ملک میں سیاسی بدعنوانی کے حوالے سے ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ اس پر اتفاق رائے پیدا کرنا سہل نہیں رہا۔ صورتحال اس حد تک افسوسناک اور ذاتیات تک محدود ہو چکی ہے کہ دلیل اور اصول شرمندہ ہو کر منہ چھپائے پھرتے ہیں۔ یہ رویہ عام ہو چکا کہ جو کوئی بھی جمہوریت کے فروغ کی بات کرتے ہوئے رونما ہونے والے معاملات پر رائے ظاہر اور نشاندہی کرتا ہے کہ ملک میں بدعنوانی صرف سیاستدانوں کا ہی وتیرہ نہیں بلکہ وسیع تر معاشرتی، سماجی اور اخلاقی انحطاط کی وجہ سے کوئی بھی طبقہ اس برائی سے مبّرا نہیں تو اس ضمن میں متوان اور اصولی موقف رکھنے والوں کو دشنام طرازی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔مواصلاتی ترقی کے اس دور میں یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اسے دنیا میں قبولِ عام نصیب ہو سکتا ہے کہ کسی سماج میں طبقاتی تقسیم کو اس قدر راسخ کر دیا جائے کہ اس میں قابو آ جانے والے لوگوں کو نشانے پر دھر لیا جائے اور اس کی حفاظت کرنے والے سیاسی، سماجی اور مذہبی عناصر کو قوت عطا کی جائے۔ اسی طرح اگر دانشور طبقات جمہوریت کی سربلندی کے لئے آواز اٹھاتے ہیں اور اس حوالے سے موجودہ صورتحال کو سیاسی معاملات میں کسی کی مداخلت سمجھتے ہوئے ایک خاص رائے کا اظہار کرتے ہیں یا نواز شریف، آصف علی زرداری سمیت کسی بھی سیاستدان کی جدوجہد اور سیاسی نظریہ کی حمایت کرتے ہیں تو ان کے نقطۂ نظر سے بلاشبہ اختلاف کیا جا سکتا ہے، اس کے خلاف دلائل بھی دیئے جا سکتے ہیں لیکن اسے معاشرہ میں بدعنوانی کے فروغ کی مہم قرار دینے کی کوشش قرار دینا ہرگز درست نہیں ہو سکتا۔

سوشل میڈیا، الیکٹرونک چینلز اور پرنٹ میڈیا پر سرگرم بعض سرفروش کچھ سوچے سمجھے بغیر جمہوریت کے احیاء اور عوام کے حقِ حکمرانی کے لئے اٹھنے والی ہر آواز کو لفافہ صحافت قرار دے کر مطعون کرنے کے جہاد میں سرگرداں ہیں۔ حالیہ سیاسی تناظر میں یہ رویہ افسوسناک ہی نہیں جمہوریت کش بھی ہے۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اس مزاج کو فروغ دینے کے لئے موجودہ وزیراعظم اور برسر اقتدار جماعت نے بنیادی کردار ادا کیا۔ حکومت میں ہوتے ہوئے اس کے وزیر، مشیر اپنے آپ کو اب بھی کنٹینر سیاست کا شعلہ بیاں مقرر گردانتے ہیں۔ نواز شریف سمیت قریباً تمام سیاستدانوں کے خلاف عائد کئے گئے الزامات کی فہرست ازسر نو گنوانے میں دیر نہیں کی جاتی کہ بالآخر خودمختار عدالتیں اور ملک کا بالادست قانون پورے شریف خاندان اور ان کے ہمنوائوں کو اڈیالہ جیل میں بند کر کے ہی دم لے گا۔ دوسرے لیڈروں کی کردار کشی کے ذریعے اقتدار تک پہنچنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اس حکمتِ عملی کو مستقبل کی سیاست کا رہنما اصول بنا لیا جائے۔

بل فائٹنگ کا سیاسی کھیل ابھی جاری ہے، اقتدار اور مقبولیت کے سانڈ پر موجودہ مائیکل اسپائنو سوار ہے البتہ اس کی رکابیں اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہیں!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین