• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت نے جمعہ کے روز گزشتہ دورِ حکومت کے مالی سال 2017-18کیلئے جی ڈی پی کی شرح نمو 5اعشاریہ 8فیصد سے کم کر کے 5اعشاریہ 2فیصد کرتے ہوئے یہ جواز پیش کیا کہ معیشت کے بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ اور دیگر اسیکٹرز تنزلی دکھا رہے ہیں، جی ڈی پی کی شرح نمو میں کمی سے معاشی محاذ پر دورس اثرات مرتب ہوں گے۔ یقیناً حکومت بھی اس فیصلے کے مضمرات سے پوری طرح آگاہ ہو گی کہ اس سے بجٹ خسارے میں اضافے کا خدشہ ہے۔ متعلقہ افسران کے مطابق حکومت نے 8ماہ کے ڈیٹا کو عبوری بنیاد پر شرح نمو جانچنے کیلئے استعمال کیا جس میں بڑے پیمانے پر مینو فیکچرنگ کی شرح 6اعشاریہ 13فیصد دکھائی گئی تاہم مینوفیکچرنگ کی شرح 5اعشاریہ 1فیصد تک گر گئی ہے جس کا مجموعی جی ڈی پی شرح نمو پر منفی اثر مرتب ہو گا۔ گزشتہ ماہ جاری کردہ عالمی بینک کی رپورٹ میں بھی یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ 2019ء میں اگر ایک طرف جنوبی ایشیا کے پورے خطے کی مجموعی جی ڈی پی میں نمو کی شرح بڑھ کر 7.1فیصد تک پہنچ رہی ہے تو دوسری طرف انفرادی طور پر پاکستان کی اقتصادی ترقی کی یہ شرح گزشتہ سال کے مقابلے میں 5.8فیصد سے کم ہوکر 3.7فیصد ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اگر صورتِ حال پر فوری قابو نہ پایا گیا تو پاکستان کے اقتصادی حالات مزید بگڑ سکتے ہیں جبکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں جی ڈی پی کی شرح نمو کا مقررہ ہدف حاصل نہ ہونے کے حوالے سے انتباہ کیا تھا۔ جہاں ایک طرف سیاسی عدم استحکام، شرح سود، ٹیکسز اور ریگولیٹری ڈیوٹیز میں اضافے کے باعث صنعتی شعبے میں تنزلی ہوئی، وہیں بارشیں نہ ہونے یا وقت پر نہ ہونے کے باعث زرعی شعبے کی نمو بھی کم رہی۔ اگرچہ حکومت نے غیر پیداواری و ترقیاتی اخراجات کم کرنے، مختلف شعبہ جات میں سبسڈی اور ٹیکسوں میں جزوی ریلیف ختم کرنے جیسے ضروری اقدامات کئے ہیں مگر ضروری ہے کہ مرکزی بینک کی تجویز کردہ اسٹرکچرل ریفارمز کو بھی پالیسی سازی کے وقت مدنظر رکھا جائے اور معاشی استحکام کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی کی جائے تاکہ مقررہ اہداف کے حصول میں آسانی ہو۔

تازہ ترین