• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عمران خان گزشہ ایک سال سے سو نامی برپا کرنے کے لئے اپنا دن رات ایک کئے ہوئے تھے لیکن اس کی جگہ اب طوفانِ نوح اس کی جگہ لینے والا ہے۔ عمران خان کو اب یہ خود فیصلہ کرنا ہے کہ آیا وہ اس کشتی ِ نوح میں سوار ہو جائیں یا پھر اس طوفان کے تھمنے کا انتظار کریں۔اس طوفانِ نے عمران خان کیلئے گو مگو کی صورتِ حال پیدا کردی ہے۔ اگر وہ اس کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو پھر ان کو سب کچھ مولانا طاہر القادری کے حوالے کرنا ہوگا اور ان کی اپنی حیثیت ثانوی بن کر رہ جائے گی جو کسی بھی صورت ان کو قابلِ قبول نہ ہوگی اور دوسری اہم بات درمیان میں ایم کیو ایم کا موجود ہونا،جس کی مخالفت سے انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز کیا تھا اوراس انہوں نے شہرت بھی حاصل کی تھی یہ الگ بات ہے کہ وہ اب ایم کیو ایم کو اپنا حریف نہیں سمجھتے اب ایم کیو ایم بھی اسی کشتی میں سوار ہوگی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ کو اقتدار کے اتنا قریب سمجھنے والے عمران خان آخری لمحے میں اس صورتِ حال سے اپنے آپ کو کیسے بچا پاتے ہیں؟
کیا مولانا طاہر القادری کو لانے میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے؟ حالانکہ اس سے قبل اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی در پردہ اور پھر کھلے عام بڑی حمایت کرتی رہی ہے ۔شاید اسٹیبلشمنٹ نے اب عمران خان کو آپے سے باہر ہونے سے روکنے کیلئے سونامی کے مقابلے میں طوفانِ نوح برپا کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ بظاہر اسٹیبلشمنٹ کو ان حالات میں کنیڈا ا ور یورپ کے مختلف ممالک میں امریکی نظریات کے مطابق پروان چڑھنے والا ایک ایساکردار مل گیا جس کا امریکہ طویل عرصے سے منتظر تھا۔ اس سے پہلے امریکہ نے ترکی کے فتح اللہ گْلین حوجہ (حوجہ یا خواجہ سے مراد پیش امام، مولوی مولانا یا ٹیچر کے ہیں )کو بھی ایسی ہی تعلیم دلوا کر ترکی میں سیکو لر حلقوں کے سامنے لا کھڑا کیاگیا تھا۔ فتح اللہ گْلین حوجہ جوکہ ترکی کے مشرقی علاقے ارضِ روم کے ایک دیہات کی ایک چھوٹی سی مسجد کے امام تھے کی نگرانی میں قائم کردہ تنظیم نے ( جسے گْلین جماعت یا تحریکِ گْلین کے نام سے یا دکیا جاتا ہے ) پورے ترکی میں جدید اسلامی اسکولوں اور ہوسٹلوں کا جال بچھایا جہاں طلبا ء اور طالبات کو بڑے منظم طریقے سے مذہبی، اخلاقی، اسلامی معاشرتی آداب کی تعلیم دی جانے لگی۔ ان اداروں میں زیر تعلیم طلبا اور طالبات گْلین حوجہ کے ایسے پیرو کار بن چکے ہیں جس کا ترکی میں اس سے پہلے تک کوئی تصور بھی ہیں کیا جاسکتا تھا۔ گْلین حوجہ اور ان کی تحریک نے امریکہ کے زیر سایہ دنیا بھر میں ترک اسکولوں کا جال بچھانا شروع کردیا اور اس وقت دنیا میں ایک غیر ملکی تنظیم ہونے کے ناتے سب سے زیادہ اسکول اور ہوسٹل اسی گْلین جماعت کے تحت کام کررہے ہیں۔ امریکہ نے اس تنظیم اور ادارے کے ذریعے ترکی کے مذہبی حلقوں کے ساتھ ساتھ لبرل حلقوں تک ( جن میں کٹر قسم کے سیکولر حلقے شامل نہیں ہیں) رسائی حاصل کررکھی ہے۔اس تحریک کی سب سے اہم خصوصیت اس کے اراکین کا مکمل طور پر منظم ہونا، صبر و تحمل کا مالک ہونا ، انتہا پسندی سے بہت دور، اسلام کی صحیح روح روادری اور اعلیٰ ظرفی کامظاہرہ کرنا، فرقہ واریت سے بالکل اجتناب کرنا اور اسلامی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم اور معاشرتی آداب سے مکمل طور پر واقف ہونا ہے۔ اب یہ تحریک ترکی بھر کے تمام اداروں پر اپنی مکمل گرفت قائم کرچکی ہے جس میں پولیس کا محکمہ سر فہرست ہے۔ (یہ وہی پولیس کا محکمہ ہے جس نے ایردوان حکومت کا تختہ الٹنے کی کوششوں میں مصروف فوج کی ان کاروائیوں کا وقت سے بہت پہلے پتہ لگا کرایردوان حکومت کو گْلین حوجہ کے اور بھی قریب کردیا تھا اور اس وقت سے ایردوان حکومت بغیر کسی خطرے کے اپنے اقتدار کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ) متحدہ امریکہ نے گْلین تحریک کے ذریعے ترکی میں فوج کوحکومت کے تابع بناکر ایردوان حکومت کو سکھ کا سانس لینے کا موقع فراہم کیا۔ ترکی میں اس تجربے کے کامیاب ہونے کے بعد اب امریکہ نے اپنے اس تجربے کو پاکستان میں دہرانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن امریکہ نے اس میں معمولی سے تبدیلی بھی کی اس کی بڑی وجہ ترکی میں خواندگی کی شرح کا صد فیصد ہونا جبکہ پاکستان میں اس شرح کا چالیس فیصد سے بھی کم ہونا ہے۔ خواندہ افراد کو اسلامی روح کے منافی تعلیمات پر یقین کروانا ناممکن سی بات ہے جبکہ ان پڑھ اور کم پڑھے لکھے لوگوں کو آسانی سے مائل کیاجاسکتا ہے ۔ اسی چیز کو امریکہ نے مدِ نظر رکھتے ہوئے ایسی شخصیت کوپاکستان کے لئے منتخب کیاجو عوام کے دلوں میں جگہ بناسکے اور پھر انتہا پسند نظریات کے حامل طالبان کو نیچا دکھا سکے۔ لیکن امریکہ یہاں پر ایک غلطی کرچکا ہے۔ اس نے مولانا طاہر القادری کو ایک سال یا پھر چھ ماہ قبل پاکستان بھیجنے کی بجائے انتخابات سے صرف چند ماہ قبل بھیجا ہے جس سے امریکہ وہ نتائج حاصل نہیں کرسکے گا جن کی کہ اسے توقع ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ نے یہ غلطی جان بوجھ کر کی ہے یا اس کے پیچھے بھی کوئی اور پلان موجود ہے؟
مولانا طاہر القادری کامینارِ پاکستان پر خطاب عوام کی خواہشات کے عین مطابق تھا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں پاکستان میں امن کے قیام اور کرپشن کو دور کرنے کی ضرورورت پر زور دیا ہے جو کہ ان کے حقائق پسند ہونے کی واضح عکاسی کرتا ہے لیکن وہ اپنے اس خطاب میں یہ بات بھول گے ہیں کہ ملک میں اگر امن قائم کرنا ہے تو سب سے پہلے پورے ملک کو اسلحہ سے پاک کرنا ہوگا اور جب تک پورا ملک اسلحہ سے پاک نہیں ہو جائے گا ملک میں امن وامان کا قیام نا ممکن ہے۔ اس وقت پاکستان کے مختلف شہروں میں ہتھیاروں کی بھرمار ہے جن میں پشاور، کراچی کوئٹہ سر فہرست ہیں ۔اگر مولانا طاہر القادری واقعی پاکستان میں امن قائم کرنے آئے ہیں اور ملک کے نظام کو تبدیل کرنے کے خواہاں ہیں تو یہ ان کے لئے سنہری موقع ہے کہ وہ اپنے امن مارچ کا رخ اسلام آباد کی بجائے کراچی کی جانب کریں۔ اگر کچھ حاصل کرنا ہے تو پھر خدارا سب سے پہلے ملک کے اکنامی حب کراچی میں امن قائم کرتے ہوئے اپنے مخلص ہونے کا ثبوت فراہم کریں۔ مولانا طاہر القادری اس لحاظ سے بڑے خوش قسمت ہیں کہ ایم کیو ایم کے رہنما االطاف حسین نے ان کو مکمل تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ اس کی بڑی وجہ ان کی پنچاب تک رسائی حاصل کر نے کی کوشش اور جستجو بھی ہوسکتی ہے۔ الطاف حسین اور مولانا طاہر القادری کے درمیان ٹیلی فونک مذاکرات سے تو صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ ان دونوں جماعتوں کے درمیان نیا اتحاد بننے والا ہے۔ اگر یہ اتحاد بن جاتا ہے تو بلا شبہ اس سے مولانا طاہر القادری سے زیادہ فائدہ ایم کیو ایم ہی کو حاصل ہو گا کیونکہ ان کے توسط سے ایم کیو ایم کے دروازے پنجاب کے لئے کھل جائیں گے ا ور سیاسی اتحاد ہونے کی صورت میں شائد ایم کیو ایم کو پنجاب سے چند ایک سیٹیں بھی حاصل ہو جائیں ۔ اب اس جماعت کوڈاکٹر طاہر القادری کے تعاون اور اتحاد کی اپیل کو مسترد نہیں کرنا چاہئے اور انہیں ہر صورت میں گلے لگا ئے رکھنا چاہیے۔ اس سے ایم کیو ایم کو ایک قومی جماعت ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہو جائے گا۔ اب دیکھتے ہیں کہ یہ اتحاد پروان چڑھتا ہے یا نہیں ۔ اس اتحاد کے پروان چڑھنے سے نہ صرف کراچی میں امن قائم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ پورے پاکستان میں امن کے قیام کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
تازہ ترین