• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

IMF سے قرض کیلئے پاکستان کو سخت اقدامات کرنا پڑینگے، حفیظ پاشا

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیرخزانہ حفیظ پاشا نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے کیلئے پاکستان کو سخت اقدامات کرنا پڑیں گے، سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ پارلیمنٹ کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ہاتھوں مغوی بنادیا گیا ہے، حکومت کیلئے تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ شہباز شریف کو ہٹانا بہت مشکل ہوگا، میزبان شاہزیب خانزادہ نےتجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ معاشی حالات کریں گے، اگر معاشی حالات میں بہتری آگئی اور مستحکم بھی ہوئی تو تحریک انصاف کی حکومت کامیاب ہوسکتی ہے اور اگر معاشی چیلنجز پر قابو نہ پاسکی تو اس کے سیاسی مستقبل پر سوال اٹھ سکتے ہیں۔ سابق وزیرخزانہ حفیظ پاشا نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے بعد ادائیگیوں کے توازن کی صورتحال کا اندازہ ہوگا، پچھلے مہینے سعودی عرب اور یو اے ای سے ایک ایک ارب ڈالر ملا لیکن زرمبادلہ کے ذخائر میں صرف ایک ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، حکومت اسی رفتار سے چلی تو زرمبادلہ کے ذخائرپر دباؤ برقرار رہے گا، فزکل خسارہ دیکھیں تو معاملات کافی حد تک پریشان کن ہیں، چھ مہینے میں بجٹ خسارہ 1100ارب روپے تک پہنچ چکا ہے جو سال کے آخر تک 2700 ارب تک جاسکتا ہے۔ حفیظ پاشا کا کہنا تھا کہ حکومت کو بیرونی اور اندرونی کھاتوں دونوں اطراف ایک ساتھ فوکس کرنا پڑے گا، مالی خسارہ زیادہ بڑھ گیا تو درآمدات میں اضافہ ہوگا،اس وقت پاکستان کا مالی خسارہ تاریخ کا سب سے بڑا خسارہ ہے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بارہ ارب ڈالر لانے کیلئے آخری چھ مہینے میں ساٹھ فیصد کم کرنا ہوگا جو ممکن نہیں ہے، پاکستان کو آئی ایم ایف سے پچھلے پروگرام کے مقابلہ میں ڈھائی گنا زیادہ قرضہ چاہئے، آئی ایم ایف سے قرض لینے کیلئے پاکستان کو سخت اقدامات کرنا پڑیں گے، حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ بیٹھ کر مشکل پروگرام بنانا پڑے گا، مینجنگ ڈائریکٹر آئی ایم ایف نے بہت سخت ایکشن لینے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ حفیظ پاشا نے کہا کہ حکومت پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کو آگے بڑھانے کیلئے درکار اقدامات نہیں اٹھاسکی ہے، حکومت اپنا گزارہ اسٹیٹ بینک سے قرض لے کر کررہی ہے، اس وقت 3.8کھرب روپے اسٹیٹ بینک سے قرض لیے گئے ہیں جو پچھلے 70سال کے قرضوں سے زیادہ ہے، اس کے نتیجے میں افراط زر میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، حکومت نے اخراجات میں کمی لانے کے بجائے سبسڈیز بڑھادی ہیں، حکومت کی پالیسیوں سے لگتا نہیں کہ ہم معاشی استحکام کی طرف جارہے ہیں۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ پارلیمنٹ کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ہاتھوں مغوی بنادیا گیا ہے، حکومت اور اپوزیشن پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی کے مسئلہ پر دست و گریباں ہیں، اس معاملہ میں حکومت کا رویہ نامناسب ہے تو اپوزیشن نے بھی اچھے رویہ کا مظاہرہ نہیں کیا، شہباز شریف کو پی اے سی کا چیئرمین بناتے وقت بھی کچھ وفاقی وزراء اس فیصلے کی حمایت نہیں کررہے تھے، حکومت نے حکمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپوزیشن کو پی اے سی کی سربراہی دی تاکہ قانون سازی کا عمل بڑھے،یہ طے ہوا تھا کہ پی اے سی میں نواز حکومت سے متعلق کوئی پیرا آئے گا تو شہباز شریف اس وقت سربراہی نہیں کریں گے مگر انہوں نے اس پر عملدرآمد نہیں کیا، اسلام آباد ایئرپورٹ کے حوالے سے پی اے سی میں معاملہ آیا تو شہباز شریف ہی اسے سن رہے تھے۔

تازہ ترین