• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی معیشت بدترین بحران سے دوچار ہے اور یہ بحران اس وقت زیادہ شدت کے ساتھ موجود ہے، جب عالمی اور علاقائی سطح پر بڑی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور دنیا میں نئی صف بندیاں ہورہی ہیں۔ سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ان بدلتے ہوئے حالات میں معاشی بحران کی وجہ سے پاکستان اپنے آزادانہ فیصلے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ خارجی اور داخلی پالیسیوں کے حوالے سے سیاسی فیصلے کرنے سے زیادہ پاکستان اپنے معاشی بحران سے نمٹنے پر فوکس کرنے کے لیے مجبور ہوگا۔ ان حالات میں حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی قیادت کو ایک دوسرے پر تنقید کرنے کی بجائے قومی اتفاق رائے سے کوئی حکمت عملی وضع کرنی چاہئے۔

سیاسی فریقین کو کچھ تلخ حقائق تسلیم کرکے اپنا سیاسی بیانیہ وضع کرنا ہوگا۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے معاشی بحران کا سب سے بڑا سبب دہشت گردی اور بدامنی ہے، جو گزشتہ تین عشروں سے جاری ہے۔ اس عرصے میں پاکستان نے ترقی کے وہ مواقع ضائع کیے، جن سے بھارت، ملائیشیا، متحدہ عرب امارات، ایران، کویت اور دیگر ممالک نے فائدہ اٹھایا۔ پاکستان میں سرمایہ کاری اور ترقی کا ماحول ہی پیدا نہیں ہوا۔ اس کی وجہ سے ہمارے مالیاتی خسارے اور جاری حسابات کے خسارے میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔ ہم نے اسے پورا کرنے کے لیے بیرونی اور اندرونی قرضوں پر انحصار کیا۔ قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی نے ان خساروں میں مزید اضافہ کیا اور ہم مزید قرضے لیتے گئے۔ اب اس شیطانی چکر میں بہت بری طرح پھنس گئے ہیں۔ کرپشن اور مالی بدانتظامی نے اس چکر کو تیز کیا لیکن یہ بنیادی اسباب نہیں ہیں۔ ہمارے اردگرد جو اقتصادی طاقتیں ابھر کر سامنے آئیں، ان میں اقتصادی، خارجی، داخلی اور سیاسی پالیسیاں سیکورٹی ایشوز کے تابع نہیں تھیں۔ دوسری تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بھی پاکستان میں پالیسی سازی میں سیاسی قوتوں یا سویلین کا کردار فیصلہ کن دکھائی نہیں دے رہا۔

ان حقائق کے تناظر میں ایک اور حقیقت کا بھی ادراک کرنا چاہئے کہ اس وقت جو کچھ ہورہا ہے، اس میں سیاسی وژن کا فقدان ہے۔ پاکستان کی مجبوری یہ ہے کہ اسے اپنا مالیاتی اور جاری حسابات کا خسارہ کم کرنے کے لیے قرضے لینا ہیں۔ تحریک انصاف کے لوگ حکومت میں آنے سے پہلے یہ نعرہ لگاتے تھے کہ وہ قرضے نہیں لیں گے اور اب انہوں نے چھ ماہ میں ریکارڈ قرضے لیے ہیں۔ حکومت میں آنے سے پہلے ان کا سیاسی بیانیہ دراصل پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کے سیاسی اور معاشی مسائل سے متعلق ان کی غیر سیاسی اپروچ کا مظہر تھا اور آج وہ قرضے لینے کا جو سبب بیان کررہے ہیں، وہ بھی مکمل سیاسی اپروچ نہیں ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن کے لوگوں کو بھی اس بات کا احساس کرنا چاہئے کہ اس وقت حکومت میں تحریک انصاف کے علاوہ کوئی بھی دوسری سیاسی جماعت ہوتی تو اسے بھی اسی طرح کی صورت حال کا سامنا ہوتا۔ اگر اپوزیشن کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت میں تجربہ کار لوگوں کی کمی ہے تو پھر اپوزیشن والوں کو چاہئے کہ وہ تنقید برائے تنقید کی بجائے حکومت کو بہتر مشورے دیں۔

عالمی مالیاتی بینک (آئی ایم ایف) سے بیل آئوٹ پیکیج کے لئے معاہدے کی ممکنہ شرائط کے حوالے سے اپوزیشن کے رہنما جن خدشات کا اظہار کرتے ہیں، ان میں بھی بہت حد تک وزن ہے۔ ایک اہم شخصیت کے حالیہ دورۂ پاکستان کے حوالے سے جو باتیں ہورہی ہیں، وہ بھی سراسر غلط نہیں ہوں گی لیکن ان حالات میں تحریک انصاف کی حکومت کچھ بہتر شرائط کے دعویٰ کے ساتھ آئی ایم ایف سے ممکنہ معاہدے پر کامیابی کا جو تاثر دے رہی ہے، وہ بھی بہت حد تک درست ہوسکتا ہے اور سعودی عرب سے امداد یا قرضوں کے حصول کو حکومت کی طرف سے بڑی کامیابی قرار دینا بھی کچھ غلط نہیں ہے۔ مجبوری یہ ہے کہ پاکستان کو مزید قرضہ لینا ہے اور اس سے زیادہ مجبوری یہ ہے کہ پاکستان اپنی مرضی کے فیصلے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس سے زیادہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی قوتوں کا کردار صرف ظاہری ہے اور جو فیصلے ہورہے ہیں، ان میں سیاسی وژن کا فقدان ہے۔ بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات میں پاکستان دو کیمپس یا دو بلاکس کی کھینچا تانی میں الجھا ہوا دکھائی دیتا ہے، جس میں آگے جا کر مزید شدت پیدا ہوسکتی ہے۔ یہ کھینچا تانی چین اور امریکہ کے درمیان ہے۔ پاکستان اپنے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے دونوں سے مدد یا قرضہ لینا چاہتا ہے۔ قرضہ بہرحال قرضہ ہے۔ یہ مسائل کا مستقل حل نہیں ہے بلکہ یہ ازخود ایک مستقل مسئلہ ہے۔اس صورت حال میں سیاسی طور پر تقسیم یا سیاسی طور پر کمزور پاکستان جو بھی فیصلے کرے گا، وہ پہلے سے زیادہ اس کی مجبوریوں اور خصوصاً سیکورٹی ایشوز کے تابع ہوں گے۔ پاکستان کی قومی سیاسی قیادت کو حالات کی سنگینی کا ادراک کرنا چاہئے اور وسیع تر قومی مشاورت سے کوئی ایسی حکمت عملی وضع کرنا چاہئے کہ پاکستان معاشی بحران سے بھی نکل سکے اور بیرونی قوتوں کے ایجنڈوں کے جال میں مزید نہ پھنسے۔ نئی پالیسیوں کے لیے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر وسیع تر مباحثے اور مشاورت کی ضرورت ہے۔ معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے سیاسی رویہ بدلنا ہوگا۔ یہ صرف معاشی بحران نہیں بلکہ اس سے کئی بڑے بحران جڑے ہوئے ہیں۔

تازہ ترین