اگلے روز قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر الٰہی بخش سومرو کے صاحبزادے کے انتقال پر تعزیت کرنے گیا تو وہاں وزیر تجارت مخدوم امین فہیم بھی آگئے، فاتحہ کے بعد ایک دم انہوں نے علامہ طاہر القادری کی آمد پر مجھ سے سوال داغ ڈالا کہ یہ کیا ہورہا ہے اور ان کے پیچھے کون ہیں، میں نے کہا کہ الیکشن کے التوا کا معاملہ ہے تو اس کے مستفیض آپ کی پارٹی ہے آئی ایس آئی کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ ڈاکٹر طاہر القادری کو آپ کی حکومت ختم کرنے کے لئے دے، ویسے یہ ہو سکتا ہے کہ بریلوی سنی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر دہشت گردی کو کمزور کرسکتے ہیں، البتہ ڈاکٹر طاہر القادری نے جو بات کہی وہ کوئی غلط نہیں ہے، اُن کا ہر ہر جملہ عوام کے دل کی آواز ہے، الٰہی بخش سومرو سخت اچھنبے میں پڑ گئے کہ تعزیت کے موقع پر ایسی گفتگو! اُن کے جانے کے بعد انہوں نے کہا کہ مخدوم امین فہیم آپ کے پیچھے کیوں پڑ گئے، میں نے سوچا کہ ماضی میں رہتے ہیں کیونکہ میں نے خود محترمہ بے نظیر بھٹو کی درخواست پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل آصف نواز کے درمیان ملاقات کرائی تھی۔
جہاں تک طاہر القادری کی بات ہے وہ وقت کی آواز ہے، اِس قلمکار نے جنوری 2009ء میں یہ تصور پیش کردیا تھا کہ پی پی پی کی حکومت نے تباہی مچا دی ہے اور وہ پاکستان کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی اس لئے ایسی عبوری حکومت لائی جائے جو ٹیکنوکریٹ پر مشتمل ہو جو ملک کو سنبھالے اور یہ بات اپنی کتاب Pakistan most Bullied Nation But Resilient میں بھی لکھ دی ہے۔ جس طرح ڈاکٹر ایک مرض کی تشخیص کرتا ہے اسی طرح ایک سیاسی سائنسدان قوم کو درپیش مسائل کو روبہ بحث لا کر اس کا حل پیش کرتا ہے چنانچہ ہم نے جنوری 2009ء میں پی پی پی حکومت سے امید ٹوٹ جانے کے بعد قومی حکومت کا تصور پیش کیا تھا پھر 24 مئی 2010ء بحران دربحران ۔ نکلنے کا راستہ کے عنوان سے اور27/اگست 2010ء میں ”مارشل لاء سے قومی حکومت اچھی“ کے عنوان سے روزنامہ ”جنگ“ میں اپنے کالموں کے ذریعہ اِس تصور کا اعادہ کیا۔ وجہ یہ تھی کہ پاکستان میں جمہوریت نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی اور نہ ہے کیونکہ جمہوریت حزب اختلاف اور حزب اقتدار سے مل کر بنتی ہے، یہاں تو سب اقتدار میں ہیں اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے اور اپوزیشن اپنا کردار ادا نہیں کررہی ہے تو ایسی صورت میں ایسی حکومت کی ضرورت محسوس ہوتی تھی جو قوم کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرسکے۔ ہم نے میاں نوازشریف کو کئی مضامین میں اُن کی ذمہ داری یاد دلائی کبھی صوفی نواز شریف کہہ کر، کبھی ادا کر رسم شبیری یا نواز شریف عملی قدم اٹھانے میں پھر ناکام اور بہت سے کالموں میں ان کو یاد دلایا کہ وہ اپوزیشن لیڈر ہیں اور انہیں کیا کرنا چاہئے۔
اس کے علاوہ اگر ہماری بات مان لی جاتی اور اُس تصور کو اس وقت قبول کرلیا جاتا اور اس پر عملدرآمد ہوجاتا تو جنوری2011ء میں ریمنڈڈیوس کا واقعہ نہ ہوتا اور نہ ہی 2 مئی2011ء کو ایبٹ آباد کا یا پھر سلالہ پر امریکی حملے ہوتے۔ اب بھی صورتحال خطرناک ہے اگر اسی ”مک مکا“ نظام کو چلنے دیا تو پاکستان کو سخت خفت اٹھانا پڑے گی اور اُس کی بقا اور سلامتی کو خطرات لاحق روز بروز شدید سے شدید تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ 28 دسمبر 2012ء کو پاکستان کے سیکریٹری دفاع نے واضح طور پر کہا ہے کہ امریکہ و برطانیہ ہمارے ایٹمی پروگرام کے خلاف ہیں اور یہ کہ سی آئی اے پاکستان میں آپریشنز کے لئے غیرملکی ایجنسیاں استعمال کرتی ہے، اِن کے بیان سے ہمارے ان خدشات کی تصدیق ہوجاتی اور خطرات بڑھ جاتے ہیں کہ امریکہ پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے محروم کرنا چاہتا ہے اور موجودہ حکومت کو ایٹمی پاکستان سے ذرا دلچسپی نہیں، وہ اس کے بدلے میں لاڑکانہ کی میونسپلٹی بھی قبول کرسکتے ہیں۔ اس لئے اگر ڈاکٹر طاہر القادری اسلام آباد میں دھرنا دیتے ہیں تو یہ ایک اچھا قدم ہے اور وقت کی ضرورت ہے ورنہ ہم ایٹمی صلاحیت سے محروم ہوجائیں گے اور اس لئے بھی کہ قوم لٹ رہی ہے، رسوا ہورہی ہے، جان و مال محفوظ نہیں ہے اور یہ خرابی بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔کبھی نہ کبھی رُک کر اس خرابی کو روکنا پڑے گا، ایسی صورت میں جب میاں نواز شریف اپوزیشن کا کردار ادا کرنے سے پانچ سال تک عاجز رہے اور پی پی پی نے ایک شہزادے کو میدان عمل میں اتارا ہے تو کہاں کی جمہوریت اور کہاں پاکستان کی سلامتی کا تحفظ ہوسکے گا۔ یہ بھی درست ہے کہ پاکستان پر حملے کا خطرہ نہیں ہے اس لئے ہم یہ چاہتے تھے کہ پاکستان میں ایک دفعہ یہ فیصلہ ہوجائے کہ پاکستان پر کون حکمرانی کرے گا اور اسی لئے فوج نے اپنے آپ کو پیچھے ہٹا لیا کہ وہ حکمرانی کے لئے اپنے کو اہل نہیں سمجھتی، اُن کا فیصلہ درست ہے تو ایسی صورت میں عوام کو کوئی قدم اٹھانا پڑے گا تاکہ اندرونی خطرات سے نمٹا جائے جو بیرونی طاقتوں کی شہ پر پیدا ہوگئے ہیں۔ عمران خان نے جب اسی قسم کا نعرہ لگایا تو عوام اُن کے ساتھ آنا شروع ہوئے اور ڈاکٹر طاہر القادری نے لانگ یا شارٹ مارچ دھرنے کا اعلان کیا تو عوام اُن کو مسیحا سمجھنے لگے ہیں کوئی بعید نہیں کہ عوام اُن کا ساتھ دے ہی دیں۔ اگر نہ بھی دیں تو بہرحال پاکستان کو ایک مسیحا یا مسیحاؤں کے گروہ کی ضرورت پڑے گی جو ملک کی نیّا کو منجدھار سے پار لگا دے۔ موجودہ حکومت میں میاں نوازشریف آزمائے جاچکے انہوں نے وقت پر اپنا کردار ادا نہیں کیا تو عوام کسی اور مسیحا کی تلاش میں نکل پڑے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے دستور کی62 اور 63 شقوں پر عملدرآمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے، ہماری نظر میں درست ہے وہ پاکستان کو موجودہ مفاد پرستانہ سیٹ اپ سے نجات دلانا چاہتے ہیں، جو درست ہے۔ انہوں نے غیرجمہوری، جاگیردارانہ، غیرمنصفانہ نظام پر سخت تنقید کی ہے اور پاکستان کے وجود کو خطرات لاحق ہونے کا ذکر کیا جو صحیح ہے اور عدلیہ کی تعریف کی جو ہر پاکستانی سمجھتا ہے کہ عدلیہ پاکستانیوں کو انصاف بہم پہنچانے کی کوشش کررہی ہے جبکہ زمیندار اور جاگیردار اس کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں۔