• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتخابی حلقہ بندیاں عمومی طور پر مردم شماری کی تکمیل کے بعد کی جاتی ہیں لیکن غیر معمولی حالات کی نشاندہی کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی روشنی میں نئی حلقہ بندیاں کی جانی ہیں۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 13دسمبر کو اس بات کا فیصلہ کیا کہ کراچی میں نئی حلقہ بندیاں کی جائیں گی۔ اس فیصلے پر کراچی کی اکثریتی جماعت جسے85 فیصد عوام کی اکثریت حاصل ہے، اس نے تخفظات کا اظہار کیا ہے۔ اس کے نقطہ نظر کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان حالات کا جائزہ لیں جن حالات میں یہ فیصلہ سامنے آیا ہے۔ بنیادی طور پر 1988ء میں جب حلقہ بندیاں کی گئیں، اس وقت موجودہ اکثریتی جماعت عام انتخابات کی سیاست میں شامل نہیں تھی اور وہ ان حلقہ بندیوں کے عمل سے دور تھی گو انتخابات میں حصہ لیا، جبکہ1988ء میں ہونے والی مردم شماری کے بعد کی جانے والی حلقہ بندیوں کے وقت موجودہ قیادت یا تو جلا وطن تھی یا جیلوں میں بند، جس کے سبب وہ اس عمل میں خاطر خواہ شرکت نہ کر سکی۔ سردست جن تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کراچی کی اکثریتی جماعت ان حلقہ بندیوں کے خلاف نہیں بلکہ وہ آئین میں مروج طریقہ کار کے مطابق پورے ملک میں نئی حلقہ بندیوں کا تقاضا کر رہی ہے۔ اس ضمن میں13دسمبر کا الیکشن کمیشن کا وہ فیصلہ بھی اہم ہے کہ جس میں اتفاق رائے سے عدالت عظمیٰ کے حکم کے مطابق کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے فیصلے پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا گیا، جس کے بارے میں چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم اب کہتے ہیں کہ ان کی ذاتی رائے کے مطابق حلقہ بندیاں مردم شماری کے بعد ہی ہونی چاہئیں۔ یہی وہ حق ہے جسے ایم کیو ایم نے استعمال کرتے ہوئے کہا کہ حلقہ بندیاں بجا، لیکن اس کے لئے ضروری آئینی اور قانونی تقاضوں کو پورا کرنا ہو گا۔ چیف الیکشن کمشنر کا یہ تاثر اس لئے سامنے آیا کہ شاید وہ یہ محسوس کر رہے ہیں کہ نئی حلقہ بندیوں کے ذریعے سے انتخابات التوا میں پڑ سکتے ہیں جس وقت الیکشن کمشنر یہ بیان دے رہے تھے سیکریڑی الیکشن کمشنر نے اس بات کی وضاحت کی کہ نئی حلقہ بندیوں پر سیاسی جماعتوں سے رائے طلب کی تھی جو تاحال موصول نہ ہوسکی۔ یہ تو تھیں وہ توجیہات جن کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کے ہونے یا نہ ہونے کی بحث جاری ہے۔ مجوزہ حلقہ بندیوں سے اختلاف کی ایک وجہ وہ نقطہ نظر بھی ہے جس کی بنیاد پر یہ کہا گیا کہ حلقہ بندیاں اس طرح کی جائیں کہ کسی ایک جماعت کی اجارہ داری قائم نہ ہو سکے۔ یہ لفظ قانونی طور پر کتنا مناسب ہے، اس پر رائے زنی تو مناسب نہیں لیکن یہ امر واضح ہے کہ اس سے سیاسی جماعتوں کے ذہن میں شکوک و شبہات نے جنم لیا کیونکہ جمہوریت کا تصور اکثریت عدلیہ سمیت کسی ادارے سے وابستہ نہیں بلکہ اکثریت کا فیصلہ عوام کی کثرت رائے سے ہوتا ہے۔ اگر اس تصور کو درست مان لیا جائے کہ حلقہ بندیوں میں موجود مبینہ اجارہ داری امن وامان سمیت دیگر محرومیوں کا سبب ہے تو پھر اس امر کو بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ ملک میں موجود فرسودہ ظالمانہ نظام صوبوں کی غیر منصفانہ اجارہ داری پر مشتمل حد بندیوں کے سبب ہے تو کیوں نہ پورے ملک سے محرومیوں کے خاتمے، امن وامان کے قیام اور انصاف فراہم کرنے کے لئے صوبوں کی حد بندی بھی اس طرح سے کی جائے کہ کسی ایک صوبے کی اجارہ داری یا برتری قائم نہ ہوسکے۔ یہ وہ تحفظات ہیں جو حلقہ بندی کی مخالفت کے نتاظر میں سامنے آرہے ہیں۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ کیا حلقہ بندیاں ہی اجارہ داری کی بنیاد ہیں؟ اصل میں ہم ان محرکات سے پہلو تہی کر رہے ہیں جو بنیادی طور پر امن وامان کی خرابی کا باعث ہے۔ کراچی میں موجود کچی آبادیاں کب سے قائم ہیں اور وہاں کا طرز زندگی وہاں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رٹ کس حد تک قائم ہے، اس کا جائزہ لینا ہو گا۔ اس بات کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا کہ وہ جماعت جو کراچی کی اکثریتی عوام کے مینڈیٹ کی حامل ہے، یہاں کی بدامنی اس کے حق میں کیسے ہو سکتی ہے؟ پہلے پنجابی پختون اتحاد قائم کیا گیا اور وہ کراچی کے عوام سے نبرد آزما ہونے کے لئے کوشاں رہا اور اس نے طاقت بھی استعمال کی۔ بالآخر تاریخ میں یہ اتحاد بھی گم ہو کر رہ گیا۔ اس کے بعد مختلف حیلے بہانوں سے کراچی پر دباؤ برقرار رکھا گیا۔ فوجی اور پولیس آپریشن کئے گئے جو بے نتیجہ رہے کیونکہ ان آپریشنز کی سمت درست نہ تھی جبکہ دوسرے صوبوں سے روزگار کے لئے آنے والے دیگر پاکستانیوں کو بھی کراچی کے عوام کے خلاف صف آراء کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ کبھی پیپلز امن کمیٹی کے نام سے کوئی گروہ کھڑا کر دیا جاتا ہے تو کبھی مافیا سے تعلق رکھنے والی منفی قوتیں بھی کھڑی کی گئیں۔ ان منفی قوتوں نے عوام کو اس طرح ٹارگٹ کر کے لوگوں کو قتل کیا کے لاشیں پنجاب سمیت ملک کے دیگر حصوں میں پہنچیں اور کراچی کی منتخب جماعت پر الزام دھرا جا سکے اور ایم کیو ایم کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔ تو یہاں یہ بات بھی ہمارے پیش نظر ہو کہ اس جماعت نے ہر موڑ پر ان عناصر کی نشاندہی کی جو کراچی کی بدامنی کے ذمہ دار ہیں۔ اکثر یہ بات سننے میں آتی ہے کہ ریاستی ادارے سیاسی مجبوریوں کے سبب کارروائی نہ کرنے پر مجبور ہیں لیکن حقیقت میں سوال یہ ہے کہ وہ کون سی قوت ہے جو ان ریاستی اداروں کے سربراہوں کو میڈیا پر آکر اپنی مجبوریوں سے آگاہ کرنے سے روک رہی ہے؟ متعدد بار تمام سیاسی جماعتیں بشمول ایم کیو ایم اس بات کا اعادہ کر چکے ہیں کہ اگر جرائم پیشہ افراد کا تعلق ان کی جماعت سے بھی ہے تو قانون ان کو گرفت میں لے اور ان کو قرار واقعی سزا دلوائے۔ سیاسی جماعتیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں اور وہ بھی ایسی جماعت جو براہ راست عوام سے جڑی ہو۔ اگر اسے اختیار دیا جائے تو وہ ایسے مسائل سے نبرد آزما ہوسکتی ہے۔ اگر آج بھی ایم کیو ایم کی سفارشات اور دیگر سیاسی جماعتوں کی تجاویز کو سامنے رکھتے ہوئے حکمت عملی ترتیب دی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ان قاتلوں کو بے نقاب کرنا ممکن نہ ہو جو شہر میں خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔ دوسری جانب وہ ادارے جو عدالتوں میں مقدمات کی پیروی کے ذمہ دار ہیں، ان کے اندر بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے کہ گرفتار ملزمان جلد ازجلد اپنے انجام کو پہنچیں تاکہ جرم وسزا کا تصور قائم ہو اور معاشرہ امن کی جانب گامزن ہو سکے۔ اگر تمام حکومتی ادارے اور سیاسی جماعتیں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ شہر کراچی امن کا گہوارہ نہ بن سکے۔ کراچی کی رونقیں بحال ہیں سیاسی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں لیکن بدقسمتی سے انسانی خون بھی بہہ رہا ہے،اس کو روکنا سب کی قومی ذمہ داری ہے اور کوئی بھی اس سے بری الذمہ نہیں ہو سکتا۔ کراچی کا مسئلہ اسی وقت حل ہو سکتا ہے جب ہم پوائنٹ اسکورنگ سے باہر آکر ایک پاکستانی کی حیثیت سے سوچیں ۔
تازہ ترین