کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں میزبان نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایک اور اہم پریس کانفرنس مصطٰفی ٰ کمال، انیس قائم خانی کے بعد ایک اور رہنماء نے بغاوت کردی۔ تین مارچ کومصطٰفی ٰ کمال نے ایک نئی پارٹی بنانے کا اعلان کیا، آج چار دن بعد ایک اور اہم شخصیت رکن صوبائی اسمبلی اور سابق وزیر صحت سندھ ڈاکٹر صغیر احمد نے اس پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ ڈاکٹر صغیر احمد نے کچھ نئی باتیں کی ہیں جو آج سے پہلے متحدہ کے مخالفین ہی کرتے رہے کچھ نئے الزامات متحدہ قومی موومنٹ کے طرز سیاست پر لگائے ہیں۔پانچ دن میں پارٹی سے انحراف کرنے والے دو سے تین ہوگئے۔ کچھ الزامات دہرائے بھی اور کچھ نئی باتیں بھی کیں۔ڈاکٹر صغیر نے کہا کہ کارکنوں کو ٹشو کی طرح استعمال نہ کرو، آپ کو یاد ہوگا یہ وہ ہی الفاظ ہیں جو قتل کے مجرم صولت مرزانے پھانسی سے قبل اپنی ویڈیو میں کہے تھے۔ڈاکٹر صغیر کی پریس کانفرنس اس لحاظ سے بھی اہم رہی کہ جومصطٰفی ٰ کمال کی پریس کانفرنس تھی اس میں فوکس تھا ”را“ سے پیسے لینا، اسکاٹ لینڈ یارڈ کی تفتیش یہ سارے معاملات۔صغیر احمد نے کارکنوں سے زیادتیوں پر زیادہ بات کی۔ہفتے اور اتوار کو متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے جو ریسپانس آیا اس میں وسیم اختر نے کہا جو دبئی سے آئے ہیں وہ آکر پچھتا رہے ہوں گے۔ رکن صوبائی اسمبلی اور سابق وزیر صحت سندھ ڈاکٹر صغیر احمدنے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دبائو میں آنے والا آدمی ہوں نہ مجھ پر کوئی دبائو ہے،متحدہ کا کوئی ایک کارکن یا ذمہ دار پاکستان کا دشمن نہیں،خدا کے لیے اس قوم کو قومی دھارے میں واپس لایا جائے۔الطاف حسین پارٹی کو قومی دھارے سے الگ کررہے ہیں،دیگر لوگوں کو کچھ پتہ نہیں،ایم کیو ایم کے کون سے رہنما ہمارے ساتھ شامل ہونگے میرے علم میں نہیں،رابطہ کمیٹی لندن پاورفل ہے جو چیزیں کراچی سے نہیں چلتی وہ ہمارے علم میں نہیں ہوتی۔ شاہ زیب خانزادہ نے سوال کیا صولت مرزا ایک قاتل تھا، جرم قبول کیا اس کے پاس جانا ملنا، اس کو Facilitateکرنا اس کے بعد یہ کیسے کہا جائے کہ آپ پارٹی کی سرگرمیوں سے لا علم تھے، قتل ہونے، قاتلوں کے پاس جانا، جیل میں جاکے ان سے ملنا ان سب سے؟ جواب میں ڈاکٹر صغیر نے کہا کہ شاہ زیب آپ نے بالکل صحیح نقطے کی جانب توجہ مبذول کروائی ہے میں یقیناً جیل جاتا تھا اور اس کو قبول کرتا ہوں یہ آن ریکارڈ ہے ۔ کارکنان کا چھڑانا انتظامیہ سے بات کرنا اور ایک وقت میں پرانی بات ہے لیکن حقیقت ہے میں جیل بھی جاتا تھا۔ کارکنان کے مسائل کو سنتا تھا۔ صولت مرزا کو پھانسی ہوئی میں ان کی سزا میں کمی کرانے نہیں جاتا تھا میں یہ دیکھنے جاتا تھا ظاہر ہے ان سے منسلک جو لوگ ہیں ، بیوی، بچے ، خاندان وہ تو مجرم نہیں ہیں، ظاہر سی بات ہے پارٹی پروگرامز وہاں ہوتے تھے تو وہاں میں جارہا تھا۔ شاہ زیب خانزادہ نے کہا کہ آپ پر نہ صولت مرزا سے تعلق کا الزام ہے نہ اس کے کیے گئے قتل کا الزام ہے مگر آپ ان کو Facilitateکررہے تھے تو پارٹی کیا کہتی تھی؟کیوں کہ بعد میں ڈاکٹر صولت کو پارٹی نےdis ownکیا۔ اس بات کے جواب میں ڈاکٹر صغیر نے کہا میں نے آج یہ ہی بات رکھی کہ کارکنان کے ساتھ ، شہداء کے خاندان والوں کے ساتھ جو سلوک رہا وہ بد دلی کا باعث بنتا ریا اور اہم بات یہ ہے کہ صولت مرزا، صولت مرزا کیوں بن گیا۔ ایک ایسی فیکٹری کیوں لگ گئی جہاں اس قسم کے ٹارگٹ کلرزپیدا ہونے لگے جو یہ سمجھنے لگے کہ ہم تحریک کو چلا رہے ہیں۔ بعد میں اندازہ ہوا کہ صرف لوگوں کو استعمال کیا گیا لوگوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔شاہ زیب خانزادہ نے پوچھا کہ جیل میں جا کر کارکنان کو Facilitateکرنا آپ کو یہ ٹاسک کس نے دیا تھا؟آپ کو کس نے یہ ٹاسک دیا کہ صولت کا اور اس کی فیملی کا خیال رکھنا ہے اور کب کہا گیا اب خیال نہیں رکھنا اب فاصلے پر رہنا ہے؟ جواب میں ڈاکٹر صغیر احمد نے کہا میرا یہ رول تھا کراچی سینٹرل جیل پی ایس 116میں آتی ہے ۔ میں پی ایس 117سے ایم پی اے تھا۔ پی ایس 116 سے جماعت اسلامی کے نصراللہ شجیع وہاں سے ایم پی اے تھے ۔دوسرے لوگ آئے تو پھر ان کی طرف چلی گئی اس میں ایک کلچر سیٹ تھا ہر سیاسی جماعت کے پروگرامز ہوتے تھے ۔ بقر عید پر لوگ جاتے تھے اور اس حوالے سے ایشوز سامنے آتے تھے وہ ایڈریس کیے جاتے تھے ۔ لیگل ایشوز کو دیکھنا وہ ایک الگ صورتحال ہے ۔ یہ ہی تو وہ شہداء ہیں جنھوں نے آج متحدہ قومی موومنٹ کو کہاں سے کہاں پہنچایا ہے الطاف حسین کو کہاں سے کہاں پہنچایا ہے آپ نے وہ نسل پیدا کردی جو اس کام میں فخر محسوس کررہی ہے ۔شاہ زیب خانزداہ نے سوال کیا کہ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ آپ کو معلوم تھا فلاں بندہ قاتل ہے اور اس کے خاندان کا خیال رکھنا ہے کیوں کہ وہ جیل میں ہے۔ آپ کو ان کا نہیں پتا تھا جو کل تک بھی قتل کررہے ہیں، عسکری ونگ میں ہیں انھیں کس سے ہدایات ملتی ہیں آپ ان کو بالکل نہیں جانتے تھے صرف انھیں جانتے ہیں جو convicted ہوگئے باقیوں کا آپ کو کچھ نہیں پتا؟ جواب میں ڈاکٹر صغیر احمد نے کہا اس ملک کے تمام انتظامیہ کے لوگ موجود ہیں اور کوئی یہ کہے کہ میں نے کسی ایسے فرد کے لیے جسے میں، جس کے لیے میں خود یہ سمجھوں کہ نہیں یہ آدمی صحیح نہیں ہے یا اس قسم کی activityمیں ملوث ہے کسی ایسے فرد کے لیے بات نہیں کرتا۔ ہاں سزا ہوگئی آپ اپنی سزا کاٹ رہے ہیں تو ان کے ساتھ جو منسلک لوگ ہیں ان سے کوئی پوچھے گا ایک بات تو یہ ہوگئی۔میرا تو پوائنٹ یہ ہے کہ ایسی کھیپ تیار ہی کیوں کی جارہی ہے اور کس جگہ سے یہ تیار ہورہی ہے کہاں سے یہ mind washکیا جارہا ہے کہاں سے brain washکرکے اس قسم کے لوگ پیدا کیے جارہے ہیں۔ صولت جب یہ بات کرکے گیا کہ انھیں ٹشو کی طرح استعمال کیا گیا وہ سب کے سامنے ہے میں تو کارکنان کو کہتا ہوں، ان بے چاروں کو تو پتا ہی نہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم تحریک کا کام کررہے ہیں، تحریک کا کام ہمارا جو ہے وہ اس طرح سے ہے کہ تحریک کی خدمت کے لیے جو بھی کام دے دیا جائے وہ کریں گے۔ شاہ زیب خانزادہ نے سوال کیا کہ آپ نے ایک بات کی کہ متحدہ قومی موومنٹ کا کوئی ایک کارکن یا ذمہ دارپاکستان کا دشمن نہیں ہے خدا کے لیے اس قوم کو قومی دھارے میں واپس لایا جائے اس کا مطلب ہے کہ آپ صرف ایک شخص کو single outکررہے ہیں۔