• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

   محمد حامد سراج،چشمہ بیراج، میاں والی

وہ میز پر کُہنیاں ٹِکائے گہری سوچ میں گم تھا۔ سوچوں کے سارے دھاگے اُلجھے ہوئے تھے۔ اس نے کوشش کی کہ وہ ان دھاگوں کو الگ الگ کر کے ان کے رنگوں میں سے اپنی گم شدہ زندگی کے ماہ وسال تلاش کرے، لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں تھا۔ میز پر شیشے کے جگ میں پانی چُپ چاپ اُسے دیکھ رہا تھا۔ قلم دان میں رکھے قلم کی آنکھوں میں بھی اس کی زندگی کے کئی لمحے اٹکے تھے۔ وہ بے زار تو نہیں تھا، لیکن چہرے پر بے زاری پڑھنا آسان تھی۔ اُس نے میز پر باہنی جانب رکھی میخائل نعیمی کی’’ کتابِ میرداد ‘‘اُٹھائی۔ اس کے ورق الٹے۔ کتاب میں دانش کے موتی بکھرے تھے۔ یہ وہی موتی تھے، جو زمین پر انبیاء و رسل لائے۔ ان میں کوئی موتی تخلیق نگار کی دانش کا نظر نہیں آیا، کتاب ایک طرف رکھ دی ۔ اچانک اس نے دیکھا کہ میز میں جنبش ہے۔ میز، جو تیس برس سے اس کے سامنے رکھی تھی۔ اس نے بہ غور میز کو دیکھا اور ایک لمحے کو لرز سا گیا۔ میز کے ایک کونے سے لکڑی اکھڑی ہوئی تھی اور برادہ نظر آ رہا تھا۔ برادے میں اس کی موت کی تاریخ کا اندراج تھا۔ اس نے اُٹھ کر برادہ ٹٹولا، میز کا کونا کھرچا، لیکن تمام تر کوشش کے باوجود اپنی موت کی تاریخ پڑھنے میں ناکام رہا، مگر یہ بات اظہر من الشمس تھی کہ اس کی موت واقع ہو چُکی ہے۔ اس نے اپنے آپ کو پکارا تو اندر سے بھی موت کی آواز سُنائی دی۔

اگر میری موت واقع ہو چُکی ہے، تو یہ جو میز پر کہنیاں ٹکائے ایک شخص بیٹھا ہے، یہ کون ہے؟ یہ مَیں تو نہیں ہو سکتا کہ میں تو اُسی روز مَر گیا تھا، جس روز پیدا ہوا تھا۔ موت کی دستاویز پر دستخط کرنے کے بعد کاتبِ ازل نے مہر ثبت کر دی اور اس میں ردّ و بدل کا کوئی امکان نہیں۔ موت کی ساعت میز کے کونے میں اسے نظر آئی، لیکن وہ اپنی تاریخِ وفات تلاش نہ کر سکا۔ اسے اس تاریخ کی تلاش تھی۔ اس نے برادہ اُٹھا کر ایک پڑیا میں باندھا اور جیب میں ڈال لیا۔ ایک بَھرپور انگڑائی لی اور کرسی سے اُٹھ کر کائنات کو دیکھا۔ بسیط و عریض کائنات…کرۂ ارض، نوری سال کی مسافت پر نظر آتے ستارے، صرف لاکھوں میل کی دوری پر سامنے اٹکا چاند۔ اس نے اپنے آپ سے بات کی اور بے سمت سیر کے لیے قدموں میں سفر باندھا۔

شیشم کے درختوں کے ساتھ چلتے اس کے ساتھ اس کا بچپن بھی چلنے لگا۔ بچپن نے اس کی انگلی تھام رکھی تھی اور اس سے مسلسل سوال کیے جا رہا تھا۔ اسے اُلجھن ہونے لگی، تو بچپن سے انگلی چھڑوائی اور نہر کے ساتھ ایک سنبل کے گھنے درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ اس نے رات کا حُسن ایک لمبی سانس لے کر اپنے پھیپھڑوں میں اُتارا۔ اسے سرگوشی سُنائی دی۔ پلٹ کے دیکھا، تو بچپن وہیں موجود تھا۔ اب کی بار وہ مُسکرا دیا،’’تم چاہتے کیا ہو…؟‘‘ اس نے سوال کیا۔’’مَیں دیکھ رہا ہوں کہ تم زندگی ڈھوتے ڈھوتے تھک گئے ہو۔ مَیں تمہاری عُمر کا مکمل حصّہ ہوں۔ میرے ساتھ رہو، تمہیں اچھا لگے گا۔ تم اپنے درد بھول جاؤ گے۔‘‘’’درد کی بات نہیں ہے۔ میری جیب میں برادہ ہے اور اس میں میری موت کی تاریخ کا اندراج ہے۔کیا وہ تم پڑھ کے بتا سکتے ہو…؟‘‘ ’’کیا موت سے خائف ہو ؟‘‘ ’’ہرگز نہیں۔‘‘ ’’تو پھر چھوڑو، اپنی زندگی جیو۔ تمہیں یاد ہے، جب گؤ شالہ اسکول سے آدھی چُھٹی کے دوران تم شریف مہاجر کی ریڑھی سے ایک آنے کی قلفی لیا کرتے تھے،پھر مزے لے کر کھاتے ۔ یہ زندگی بھی ایک قلفی کی مانندہے، تم اس سے لطف اندوز ہونا سیکھو۔ نہیں تو تھک جاؤ گے اور تھکن موت بھی ہے، مایوسی بھی۔ تم اس طرح روز اپنی موت کی تاریخ پڑھو گے اور وہ تمہیں ہلکان کر مارے گی۔‘‘اس نے اپنی زندگی کی پزل کے بکھرے ٹکڑے سامنے رکھے اور ہر ٹکڑے کو سامنے رکھ کر اپنی مکمل زندگی کے آئینے میں خود کو تلاش کرنا چاہا۔ وہ گؤشا لہ اسکول میں داخل ہوا اور بستہ ایک طرف رکھ کر پِٹھو گرم کھیلنے لگا۔ ابھی گھنٹی بجنے میں دیر تھی۔ ماسٹر الیاس کے داخل ہونے پر بچّے سہم گئے کہ اُن کے لرزیدہ ہاتھ میں پکڑی بید کی چھڑی کی ضرب نانی کی یاد دلاتی تھی۔ بچّوں نے پِٹھو کے گول گول ٹکڑے، جو اوپر نیچے جماتے تھے، گیند سمیت اسکول میں موجود مندر میں چُھپا دئیے۔ مندر، جس میں ہندو پوجا کرتے تھے، وہ اُس کے اندر داخل ہوکرمنقّش دیوار و دَر دیکھتےاور خوش ہوتے۔ عُمر کے اس حصّے میں انہیں مسجد، مندر، کلیسا کا فرق معلوم ہی نہیں تھا۔ انہیں صرف اتنا بتایا گیا کہ یہاں انسان عبادت کرتے ہیں۔ اس دَور میں انسان موجود تھے۔ گھنٹی بجنے پر سب بچّے قطار میں آگئے اور علّامہ اقبال کی دُعا ایک لَے میں پڑھنے لگے؎’’لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری…زندگی شمع کی صُورت ہو خدایا میری‘‘۔ آدھی چُھٹی کے دوران اس نے اپنی تختی اور پوچی دیوار کے ساتھ دھوپ میں رکھ دی۔ باہر نکل کر شریف مہاجر کی ریڑھی سے قلفی لی، مگر جوں ہی ماسٹر الیاس کے بید کا خیال آیا، قلفی کا ذائقہ کڑواہٹ میں بدل گیا۔ اسلامیات کے پیریڈ میں ماسٹر الیاس اپنے جوبن پر پڑھاتے اور ٹکا کر مارتے۔ چُھٹی کے بعد وہ بستہ سمیٹ کر گھر کی جانب بھاگا۔ اسکول کا کام کرنے کے بعد پتنگ اُڑانا اس کا محبوب مشغلہ تھا، لیکن ابھی اس نے دو یا تین دِن پتنگ اُڑائی ہو گی کہ نانا جان نےدھر لیا اور کان پکڑا کر مرغا بنا دیا ۔’’یا اللہ!تیری اس زمین پر ایک بچّہ پتنگ بھی نہیں اُڑا سکتا۔ابھی تو مدرسے میں جو قاری صاحب سے مار کھا کر قرآنِ کریم ختم کیا تھا، اس کے زخم تازہ تھے۔ ماسٹر الیاس کی مار کے بعد یہی پتنگ اُڑانا، تو زندگی کی ایک خوشی تھی یہ بھی نانا جان نے چھین لی۔ کیا نانا جان نے بچپن میں شرارتیں نہیں کی ہوں گی؟ انہوں نے پتنگ نہ سہی، کچھ نہ کچھ تو اُڑایا ہوگا۔‘‘اللہ خوش رکھے نانی امّاں کو، انہوں نے شفقت سے کان چھڑوائے۔ سینے سے لگایا، پیار کیا اور ایک ٹِکا بھی دیا کہ حافظ کی ہٹّی سے’’ٹانگری‘‘ لے کر کھا لو یا پھر ’’ریوڑیاں‘‘۔

زندگی کا حُسن توقلفی، ریوڑی اور ٹانگری ہی میں تھا۔ حافظ کی ہٹّی، لوہاراں والی مسجد، گؤشالہ اسکول اور میاں والی ریلوے اسٹیشن کے درمیان زندگی بھاگتی پھر رہی تھی۔ اُسے لگتا تھا کہ زندگی ایک سائیکل ہے، جو ساری عُمر دائرے میں چلانی ہے۔ اُسے سائیکل سیکھنے کا شوق تھا۔ ماموں نعیم کی منت کی، تو وہ ایک تپتی دوپہر میں ریلوے اسٹیشن کے سامنے گورنمنٹ ہائی اسکول کے گراؤنڈ میں لے گئے۔ اُس نے سائیکل سنبھالی، گدّی پر بیٹھا، ماموں نے کیریر سے پکڑ کر اُسے پیڈل مارنے کو کہا۔ جب سائیکل چل دی، تو ماموں حضور نے کہا، ’’تم سائیکل چلاؤ، مَیں ریلوے ٹی اسٹال سے چائے پی کر آتا ہوں۔‘‘ ماموں شروع ہی سے بھلکّڑ تھے۔چائے کی چسکی لگا کر گھر چلے گئے۔ جون کی دوپہر، آگ برساتا سورج۔ اُسے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ سائیکل روکتے کیسے ہیں، جب تھک گیا، تو سائیکل سمیت زمین پر آ رہا۔ گوڈے، گٹّے اور کُہنیاں سب چِھل گئے۔ زندگی کی سائیکل بھی تو وقت کے ساتھ ،ہمارے گوڈے، گٹّے اور کُہنیاں تک چھیل ڈالتی ہے۔ ویسے بھی دائرے میں سائیکل چلانا، مداری کا آرٹ ہے۔ اس نے سُنا، گراؤنڈ میں ایک شخص سائیکل چلا رہا ہے، جو تین دِن مسلسل سائیکل چلائے گا اور اس کا کھانا پینا بھی سائیکل ہی پر ہوگا۔ عصر کے بعد وہ بھی گراؤنڈ چلا گیا اور ہڈیوں کے اس پنجر کو دیکھا، جو سائیکل چلا رہا تھا۔ لوگ دائرے میں پیسے پھینک رہے تھے۔ وہ ایک پیڈل پر اپنے آپ کو گھما کے اُتارتا، پھر چلتی سائیکل سے پیسے اٹھا کر جیب میں ڈال لیتا۔ عجیب بات ہے، یہ تین دِن مسلسل سائیکل چلائے گا، تو نیند کب پوری کرے گا۔ یہ سائیکل کیوں چلاتا ہے…؟ اورکیوں کا جواب، سالوں بعد میز کی بوسیدہ لکڑی میں مندرج تھا۔ اس نے میز کی کھردری سطح پر ہاتھ پھیرا۔ وہ خود ایک سائیکل تھا اور مسلسل دائرے میں چل رہا تھا۔ ہر مہینے وہ پیڈل پر جھکتا اور پیسے اُٹھا لیتا۔ پیسے اس کی جیب سے نکل کر گم ہوجاتے، لیکن سائیکل چلتی رہتی۔پانچویں جماعت پاس کرنے کے بعد اُس کی ماسٹر الیاس کے بید کی چھڑی سے تو جان چُھوٹ گئی، مگر زندگی کو ابھی گلیوں میں بھٹکنا تھا۔ اس نے پانچویں کے بعد چھٹی جماعت میں داخلہ لیا اور پیپل کے درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔ آدھی چھٹی کی گھنٹی بجی، تو وہ سرپٹ بھاگا۔ گیٹ کے باہر قلفی والا آواز لگا رہا تھا۔ ’’قلفی دو آنے،قلفی دو آنے‘‘ بادام پستے سے سجی قلفی دیکھ کر اس کا دِل للچایا، لیکن اس کے پاس ایک آنہ ہی تھا۔ اس نے قلفی کا ارادہ ترک کیا اور آنہ بچالیا، تاکہ دوسرے دِن وہ دو آنے کی قلفی کا مزہ لے۔ میز پر رکھی کہنی میں سے ٹیس اُٹھی۔ زندگی جینے اور اس کا لطف اُٹھانے کے لیے دو آنے بچانا کتنا مشکل کام ہے۔

بڑی طویل کہانی ہے۔ وہ اُکتا گیا۔ اس بے بچپن سے انگلی چھڑوائی اور رات کی تاریکی میں واپس میز پر کُہنیاں ٹکا دیں۔ اسے معلوم تھا، لکڑی کی جھڑتی عُمر کی بوڑھی میز میں اس کی زندگی اور موت کا اندراج ہے۔ زندگی کے ہر لمحے کا اندراج تو مکمل تھا، جسے وہ جھیل اور ڈھو رہا تھا۔ اس نے اپنے دونوں کندھوں کی ہڈیاں چُھو کر دیکھیں۔ ان کا کہنا تھا، ہم سفر مکمل کر آئی ہیں۔ ابھی جب میں زندہ ہوں، تو موت کے تاریخ کا اندراج کھوجنا کیا ضروری ہے؟ لیکن کیوں…کیوں… آخر کیوں…؟ جب یہ خبر دی گئی کہ تم نے مَر جانا ہے، تو ساعت متعیّن کرنے کی خبر چُھپا لینے میں کیا حکمت ہے۔ کیا ایسا تو نہیں کہ انسان اُسی لمحے مَر جائے، جب اُسے اپنی موت کی متعیّن ساعت کی خبر کر دی جائے، جیسے پھانسی پر چڑھ جانے والا انسان یا سرطان کی خبر پر زرد ہوتے چہرے والا بے بس مریض…!

اس نے پانی کا جگ اُٹھا کر ایک طرف رکھا۔ قلم دان کو بھی اپنی جگہ چھوڑنے پر مجبور کیا۔فائلیں اُٹھا کر ایک طرف دھر دیں۔ کُشن میں دھنسی پیپر پِنوں کو دیکھا۔ ایک ایک چیز چُن کر اس نے میز خالی کر دی۔ اب اس نے سوچا کہ مجھے اپناکام کرنے میں آسانی ہوگی۔ میز پر چیزوں کا انبار زندگی میں کھنڈت ڈالتا ہے۔ اس نے اپنے ناخن سے میز کو کھرچنا شروع کیا، تواچانک نظر ’’گلزار‘‘ کی نظم پر پڑی؎’’کیا لیے جاتے ہو تم کندھوں پہ یارو…اس جنازے میں تو کوئی بھی نہیں ہے…درد ہے کوئی، نہ حسرت ہے، نہ غم ہے…مُسکراہٹ کی علامت نہ کوئی آہ کا نقطہ…کوئی تحریر نگاہوں کی، نہ آواز کا قطرہ…کیا لیے جاتے ہو، تم کندھوں پہ…صرف مٹّی ہے، یہ مٹّی…مٹّی کو مٹّی میں دفناتے ہوئے…روتے کیوں ہو…؟‘‘اس نےاپنے ناخنوں سے بوسیدہ میز بُرادے میں بدل ڈالی۔ جو گلزار نے کہا، وہی تو صدیوں سے صوفی، جوگی، قطب، قلندر اور اولیا ءسمجھا تے رہے۔ ہم مٹّی کو مٹّی کی جانب ڈھوتے ہیں۔ میز پر پانی کا گلاس بھی نہیں تھا کہ وہ اپنا حلق تر کرتا۔ اس کے گلے میں کانٹے اُگ آئے۔ اس نے ایک بار پھر اپنی زندگی کے ماہ سال ٹٹولے۔ وہ کہاں تھا، اس کا کردار کیا تھا، وہ کس لیے جیا، کس کے لیے سانس کا عذاب کھینچا، کیا اس نے اپنے آپ کو کھینچا؟ پھر اس نے زندگی کے اندھے کنوئیں میں جھانک کر پوری چیخ سے خود کو آواز دی۔ بچپن ، لڑکپن، جوانی، ڈھلتی عُمر کے سائے، پرچھائیاں…، زندگی اِک واہمہ تھی کیا؟ اسے کنویں سے اپنی آواز کی بازگشت اجنبی محسوس ہوئی۔ وہاں اس کا بچپن تھا، نہ جوانی، نہ امروز وفردا کے شب و روز کا کوئی کھاتہ، حتیٰ کہ میز بھی نہیں تھی۔ گؤشالہ اسکول، نہ سرکس کے مداری کا سائیکل، سنبل کے درخت تھے اور نہ ہی کوئی نہر کنارا۔ بس اِک ہُو کے عالم میں اُسے اپنی ہی سانس کی آواز سے ڈر لگنے لگا۔ زمین پر ایک شخص بھی زندہ موجود نہیں تھا۔ سب کی موت کا اندراج ہو چُکا تھا۔ اپنی برادہ، برادہ زندگی کو اس نے وقت کی چھلنی میں ڈال کر دیکھا، تو اُسے سکتہ ہو گیا۔ وہ تو اُسی روز مَر گیا تھا، جس روز پیدا ہوا تھا…!!

تازہ ترین