کراچی(ٹی وی رپورٹ)متحدہ قومی موومنٹ کے سابق صوبائی وزیرصحت ڈاکٹر صغیراحمد کی پریس پر تجزیہ کرتے ہوئے سینئر صحافی وتجزیہ کارحامد میر نے کہا ہے کہ جب چاہیں الطا حسین کو غداربنادیں ،جب چاہیں محب وطن،یہی سارا مسئلہ ہے،اینکرپرسن وتجزیہ کارشاہزیب خانزادہ نے کہا کہ اگریہ 92ء والا انتقام ہے تو تمام لوگ ایک ہی دفعہ میں مصطفیٰ کمال کو کیوں جوائن نہیں کررہے،سینئر تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا تھاکہ بہت سے اردواسپیکنگ کا خیال ہے کہ مہاجر ووٹ تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو نیوز کے ایک خصوصی پروگرام میں کیا ہے۔سینئر تجزیہ حامد میر نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ جب چاہیں آپ یوٹرن لے لیں کبھی الطاف حسین کو غدار بنا دیں، کبھی محب وطن بنا دیں یہ ہی تو سارا مسئلہ ہے وہ الطاف حسین جو 92میں غدار تھا، را کا ایجنٹ تھا، جناح پور بنا رہا تھا 99میں وہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا اتحادی بن گیا، ہوسکتا ہے پھر کوئی یوٹرن ہو اور وہ اتحادی ہوجائے۔ اس پر پروگرام میں شریک شاہ زیب خانزادہ نے کہا کہ اس میں دو رائے ہیں، اس مسئلے کو کیا ہمشیہ کیلیے ختم نہیں ہوجاناچاہیے؟ جواب میں حامد میر نے کہا جن طاقتوں نے الطاف حسین پر غداری کا الزام لگایا تھا وہ طاقتیں پرویز مشرف کی صورت میں دس بارہ سال حکومتیں کرتی رہیں ،انھوں نے کوئی انکوائری نہیں کی۔ الطاف حسین پرویز مشرف کے اتحادی رہے ، نواز شریف کے اتحادی رہے جب بھی کراچی میں الیکشن ہوتا ہے ، الطاف حسین اچھے ہیں یا برے لیکن ان کے امیدواروں کو ووٹ مل جاتا ہے ۔ نیشنل عوامی پارٹی پر سپریم کورٹ کے ذریعے پابندی لگادی گئی تھی تو آپ سپریم کورٹ کے ذریعے ایم کیو ایم پر پابندی لگوادیں۔شاہ زیب خانزادہ نے کہا الطاف حسین صاحب کی پارٹی پر جو گرفت ہے اس کی بات کافی عرصے سے کی جارہی تھی۔رابطہ کمیٹیوں کو برطرف کیا گیا ،یہ صرف اس لیے کیا جاتا ہے کہ جب لیڈر کو معلوم ہو کہ اس کے کنٹرول سے چیزیں باہر ہورہی ہیں۔ اس طریقے سے رابطہ کمیٹی نہیں چل رہی جس طرح سے وہ چاہتے ہی۔مظہر عباس نے مزید کہا کہ میری گرائونڈ پر بہت سے اردو اسپیکنگ لوگوں سے بات ہوئی ان کا کہنا تھا کہ مہاجر ووٹ کو تقسیم کیا جارہا ہے اگر یہ چیز پروان چڑھتی ہے تو مصطفیٰ کمال اس کو کیسے انکائونٹر کریں گے یہ چیز بہت زیادہ اہم ہے۔ ایم کیو ایم کا ووٹر اور ورکر تقسیم ہے۔ وہ ان باتوں کو کس طریقے سے لے گا اس کا اندازہ 7اپریل کو ہوگا۔میرے علم میں ایسے اور لوگ ہیں جن کے ایم کیو ایم سے اختلافات حقیقی ہیں اور 2013میں اختلافات زیادہ دیکھنے میں آئے ہیں جن کی بنیاد دبائو سے نہیں بلکہ حقیقی طور پر ایم کیو ایم کے اندر جو مسائل ہیں ان سے ہے۔ ایم کیو ایم میں بڑا نام اہم نہیں ہوتا، ایم کیو ایم میں چھوٹا نام اہم ہوتا ہے ۔داکٹر صغیر ایم پی اے کی حیثیت سے مصطفیٰ کمال کو جوائن کررہے ہیں تو یہ اہم نہیں اگر اہم بات ہے تو وہ یہ کہ ڈاکٹر صغیر احمد پی آئی بی کے یونٹ انچارج رہے ہیں۔آفاق احمد اور عامر خان نے جب ایسا کیا تھا تو اس میں الطاف حسین زیادہ پریشان ہوئے تھے وہ اس لیے ہوئے کہ یونٹ انچارجز اور سیکٹر انچارجز پر عامر خان اور آفاق احمد کا بڑا کنٹرول تھا اور اس لیے انھوں نے پوری باڈی تحلیل کردی تھی۔یونٹ اور سیکٹر انچارج جو گرفتار ہیں وہ کسی دبائو کے تحت مصطفیٰ کمال کو جوائن کرتے ہیں تو ایم کیو ایم کے لیے کسی وزراء یا ایم این اے ، ایم پی اے کے جوائن کرنے سے زیادہ پریشانی کا باعث ہوتا ہے۔ کیا ایم کیو ایم کو اس پر بھر پور طریقے سے رد عمل دینا چاہیے، اس سوال کے جواب میں مظہر عباس نے کہاکہ رد عمل نہ دینا بھی بعض اوقات آپ کے فائدے میں ہوسکتا ہے۔ایم کیو ایم کو جواب دینا چاہیے وہ اس لیے کہ آگے چل کر ان کو اور لوگوں نے جوائن کیا جو بہت زیادہ اہم ہوں تو پھر کیا آپ اس وقت جواب دیں گے یا آپ مسلسل خاموشی اختیار کریں گے۔ڈاکٹر صغیر کی پریس کانفرنس پر حامد میر نے تجزیہ کرتے ہوئے کہاکہ کوئی نئی بات نہیں کی جارہی، مصطفیٰ کمال نے جو الزامات لگائے، ڈاکٹر صغیر نے بھی وہ ہی پرانی باتیں کیں، چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ لفاظی کی جارہی ہے۔مصطفیٰ کمال نے جو الزامات لگائے اس کو پوائنٹ ٹو پوائنٹ دیکھیں تو یہ وہ ہی باتیں ہیں جو ذوالفقار مرزا نے 2013میں سر پر قرآن اٹھا کر کی تھیں، یہ وہ ہی باتیں ہیں اور یہ ہی باتیں عمران خان بھی ایم کیو ایم کے خلا ف کرتے رہے ہیں ،میرے خیال سے یہ ہی بات ہے کہ ایم کیو ایم کہہ رہی ہے کہ ہم ان کی باتوں کا کوئی جواب نہیں دیں گے۔