• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنی جِلد کو تجربہ گاہ نہ بنائیں، ماہرِامراضِ جِلد، ڈاکٹر ایس ایم معین الدین

جِلد جسم کا بیرونی عضو ہے، جو تین پرتوں، ایپی ڈرمس ،ڈرمس اور"Sub cutaneous fat layer"یعنی ہائپو یا اینڈوڈرمس پر مشتمل ہے۔ جِلد انسان کو موسمی اثرات ہی سے نہیں، ان گنت جراثیم سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ یہ اندرونی اعضاء، ہڈیوں اور عضلات کے لیے گویا ایک حفاظتی دیوار کی مانند ہے۔ نیز، جسم کا درجۂ حرارت کنٹرول کرنے، وٹامن ڈی کی تیاری سمیت کئی مفید افعال بھی انجام دیتی ہے۔ ہماری جِلد خصوصاً چہرے کی، بچپن سے لے کر بڑھاپے تک کئی تبدیلیوں سے گزرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جِلد کی مناسب دیکھ بھال، عُمر و موسم کے لحاظ سے نہایت اہمیت رکھتی ہے، کیوں کہ ذرا سی بے احتیاطی سے نہ صرف جِلد کی تروتازگی و شگفتگی ماند پڑجاتی ہے، بلکہ ممکن ہے کہ کوئی جِلدی مرض بھی لاحق ہوجائے۔ سو، جِلد کے امراض، علاج، خاص طور پر جدید طریقۂ علاج اور احتیاطی تدابیر وغیرہ کے ضمن میں ہم نے معروف ماہرِامراضِ جِلد، ڈاکٹر ایس ایم معین الدّین سے ایک تفصیلی نشست کی، جس کا احوال سوالاً جواباً پیشِ خدمت ہے۔

ڈاکٹر ایس ایم معین الدّین نے1984ء میں ڈائو یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، کراچی سے طب کی ڈگری حاصل کی۔ پھر1987ء میں انگلینڈ چلے گئے، جہاں یونی ورسٹی آف ویلز کارڈیف سے ڈرماٹولوجی میں ڈپلوما کیا۔ 1990ء میں لیاقت نیشنل اسپتال، کراچی سے بطور سینئر رجسٹرار ملازمت کا آغاز ہوا۔ بعدازاں مذکورہ اسپتال ہی میں کنسلٹنٹ ڈرمالوجسٹ کی خدمات انجام دیں۔ 1993ء میں کمیشن کا امتحان پاس کیا، تو سندھ کے شہر، میرپور بٹھورو میں تقرری ہوگئی، لیکن دو سال بعد ہی چند ناگزیر وجہ کی بنا پر استعفیٰ دے کر کراچی میں پریکٹس شروع کردی۔1999ء تا2001ءبطور کنسلٹنٹ ڈرما ٹولوجسٹ، بقائی میڈیکل یونی ورسٹی، کراچی میں خدمات انجام دیں اور اِن دِنوں نیشنل میڈیکل سینٹر، کراچی سے منسلک ہیں۔ ڈاکٹر معین الدّین نے وزارتِ صحت کی باقاعدہ اجازت سے کراچی میں پہلی بار ایستھیٹک میڈیسن متعارف کروائیں، جو جھائیوں، داغ دھبّوں اور مختلف نشانات سے نجات اور چہرے کی شادابی کے لیے مستعمل ہیں۔ ڈاکٹر ایس ایم معین الدّین سےہونے والی گفتگو کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔

س : موسمی جِلدی امراض کے بارے میں کچھ بتائیں، بدلتے موسموں کے جِلد پر کس حد تک مثبت یا منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں؟

ج :جِلد پر موسم کے مضر اور مفید دونوں ہی اثرات ضرور مرتّب ہوتے ہیں۔ مثلاً موسمِ گرما میں جِلد کی رنگت کالی پڑجاتی ہے، اس کے برعکس سرما میں سورج کی شعائوں میں حدّت کم ہونے کے سبب جِلد صاف اور چمک دار دکھائی دیتی ہے۔ پھر ہر موسم کے اپنے جِلدی امراض ہیں۔ سرما میں جِلد کی خشکی، کئی جِلدی عوارض کی وجہ بن جاتی ہے۔مثلاً ایگزیما، سورائیسز، برص اور کولڈ سور(Cold Sore)وغیرہ، جب کہ گرمیوں میں پسینہ خارج ہونے کے باعث بیکٹرئیل اور وائرل انفیکشنز اور گرمی دانے وغیرہ عام ہیں۔

س : ان موسموں میں جِلد کی حفاظت کے لیے کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں؟

ج : سردیوں میں چوں کہ جِلد خشک ہوجاتی ہے، تو دِن میں جتنی بار منہ ہاتھ دھوئیں کسی اچھے موئسچرائزنگ لوشن کا استعمال ضرور کریں، تاکہ جِلد کی نمی برقرار رہے۔ ایک عام خیال ہے کہ نہانے کےبعد جسم پر زیتون، کھوپرے یا مونگ پھلی کا تیل لگانے سےخشکی پیدا نہیں ہوتی، تو ایسا نہیں ہے۔ تیل ہمیشہ نہانے سے قبل لگایا جائے، تاکہ جِلد کی قدرتی چکنائی صابن لگانے سے ضایع نہ ہو، جب کہ گرمیوں میں جِلد کی نوعیت کی مناسبت سے سن بلاک اور فیس واش استعمال کریں۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں بیرونِ مُلک کے سن بلاکس کو ترجیح دی جاتی ہے، جو طبّی اعتبار سے ہرگز درست نہیں۔ غیرمُلکی سن بلاکس میں وہاں کی آب و ہوا اور سورج کی حدّت کے مطابق کیمیائی اجزاء شامل کیے جاتے ہیں، جو پاکستان کے موسم کے مطابق نہیں ہوتے، لہٰذا صرف ڈرماٹولوجسٹ کے مشورے ہی سے سن بلاک استعمال کیا جائے۔

س : دُنیا بَھر میں کون سے جِلدی امراض عام ہیں اور ہمارے یہاں کن امراض کی شرح بُلند ہے، خاص طور پر کراچی میںِ؟ نیز، ان کی وجوہ کیاہیں؟

ج : دُنیا بَھر،خصوصاً مغربی مُمالک میں کیل مہاسے، تِل، سورائیسز، ایگزیما، سن برن(سورج کی شعائوں سے جِلد کا جھلس جانا)،برص اور جِلدی سرطان، جب کہ کراچی سمیت پاکستان بَھر میں اسکیبیز(خارش کا مرض)، جھائیاں، بیکٹرئیل اور وائرل انفیکشنز، کیل، مہاسے، ایگزیما، سورائیسز، برص اور جِلد کی خشکی (خصوصاً سندھ اور بلوچستان میں) عام امراض ہیں، جہاں تک وجوہ کی بات ہے، تو برص آٹوامیون سسٹم میں گڑبڑ کے سبب لاحق ہوتا ہے۔ اسے کبھی لاعلاج مرض تصوّر کیا جاتا تھا، مگر اب جدید طریقۂ علاج کی بدولت یہ قابلِ علاج ہے اور ہمارے پاس جو جدید مشینری/ آلات ہیں، جیسے UVB Narrowband, Excimer Laser Light اور پیکو لیزر کے ذریعے برص کے 60سے 70فی صد مریض شفایاب ہورہے ہیں،جب کہ ماضی میں یہ تناسب صرف5فی صد تھا اور یہ آلات صرف برص کے علاج ہی میں مؤثر نہیں بلکہ سورائیسز، بال خورے اور اے ٹوپک ایگزیما وغیرہ کے لیے بھی مفید ہیں۔ جب کہ دیگر جِلدی امراض کی وجوہ میں موسمی اثرات، صفائی ستھرائی کا خیال نہ رکھنا، تنگ و تاریک گھروں میں رہنا، کم جگہ میں زیادہ افراد کی رہایش، ایک دوسرے کی استعمال شدہ اشیاء استعمال کرنا اور ماحولیاتی آلودگی وغیرہ شامل ہیں۔

س : کیا یہ درست ہے کہ کچھ مہینوں میں بال گرنے کی رفتار بڑھ جاتی ہے، نیز اب بال گرنے کا مرض اس قدر عام کیوں ہورہا ہے؟

ج: بال گرنے کا تعلق موسموں سے نہیں، بلکہ مختلف عوامل مثلاًآئرن ،منرلز کی کمی، ہارمونز میں گڑ بڑ، سورج کی روشنی میں دیر تک رہنا، متوازن غذا استعمال نہ کرنا، زیادہ پانی نہ پینا، خراب پانی اور ذہنی دبائو وغیرہ بالوں کی نشوونما متاثر کرنے کی وجہ بن سکتے ہیں۔

س : کیا مُلک میں مریضوں کی شرح کے اعتبار سے ماہرینِ امراضِ جِلد کی تعداد تسلّی بخش ہے؟

ج : کراچی کی حد تک تو ماہرین کی تعداد تسلّی بخش ہے، لیکن مجموعی طور پر یہ تعداد خاصی کم ہے۔

س : آپ کے پاس کس نوعیت کےکیسز زیادہ آتے ہیں؟

ج : کیل مہاسوں ، جھائیوں، سورائیسز، بالوں کے مختلف عوارض، اے ٹوپک ایگزیما، رنگت کی خرابی، آنکھوں کےگرد چربی، پیدایشی اور مصنوعی نشانات، جُھریوں، مسّوں اور برص وغیرہ کے مریض زیادہ رجوع کرتے ہیں۔

س : جِلدی امراض سے متعلق یہ تصوّر درست ہے کہ یہ زیادہ تر متعدی ہوتے ہیں اور ایک سے دوسرے کو لگ سکتے ہیں؟

ج : تمام جِلدی امراض ایک سے دوسرے کو نہیں لگتے۔ تاہم، بعض عوارض مثلاً خارش، اسکیبیز، فنگس وغیرہ متعدی ہیں، جو بہت جلد دوسرے فرد میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں لوئر کلاس میں متعدی، جب کہ اَپر میں غیر متعدی عوارض عام ہیں، جس کی بنیادی وجہ ماحول ہے۔

س : کیل ، مہاسوں ، جھائیوں کے حوالے سے کچھ بتائیں، یہ کس عُمر میں اور کیوںہوتی ہیں،ان کے علاج، بچائو اور احتیاطی تدابیر پر بھی کچھ روشنی ڈالیں؟

ج: کیل مہاسوں کا ہونا ایک عام مرض ہے، جو زیادہ تر جوانی میں متاثر کرتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بلوغت کی عُمر میں ہارمونز میں تبدیلی ہے۔ جھائیاں خواتین میں دورانِ حمل، زچگی کے بعد، نومولود کو دودھ پلانے کے عرصے میں، ایّام کی بے قاعدگی، مانع حمل اور بعض مخصوص ادویہ کے سبب اور مَردوں میں زیادہ تر معدے کی خرابی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ان سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ سورج کی براہِ راست شعائوں سے دُور رہا جائے اور ان کا علاج لیزر تھراپی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ کیل مہاسوں سے بچائو کے لیے صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں۔ گرمی ہو یا سرد موسم پانی زیادہ سے زیادہ پئیں اور متوازن غذا کا استعمال کریں۔

س:مینو پاز اور ایّام کی بے قاعدگی کے جِلد پر کس قسم کے اثرات مرتّب ہوتے ہیں اور ان سے بچائو کیسے ممکن ہے؟

ج: مینو پاز میں تو بڑھتی عُمر کے تمام اثرات ظاہر ہوتے ہیں، جب کہ ایّام کی بےقاعدگی میں جھائیاں پڑ جاتی ہیں۔ ان کے مضر اثرات سے بچاؤ کے لیے موسمی پھل، متوازن غذا اور پانی کا زائد استعمال مؤثر ثابت ہوتا ہے۔

س:جِلد کے سرطان کے حوالے سے بھی کچھ بتائیں؟

ج: پاکستان میں جِلد کا سرطان عام نہیں ہے، کیوں کہ یہاں سورج کی شعائیں اس قدر خطرناک نہیں ہوتیں، جو اسکن ٹیومر کی وجہ بن سکیں۔ اس مرض کی عام علامات میں، ابتدا میں چہرے، منہ یا ہاتھ پر چھوٹے دانے بنتے ہیں، جو بعد ازاں بڑے ہو کر زخموں میں بدل جاتے ہیں۔ یہ دانے عام دانوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ یعنی چُھونے میں سخت محسوس ہوتے ہیں، جب کہ کونے بھی چمک دار ہوتے ہیں اور ان سے خون رسنے لگتا ہے، ساتھ ہی انفیکشن بھی ہو جاتا ہے۔ مرض کی تشخیص کے لیے بائیوآپسی کی جاتی ہے، جب کہ علاج ریڈیو تھراپی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ جِلد کے سرطان کے بہت کم کیسز جان لیوا ثابت ہوتے ہیں اور مرض کی بروقت تشخیص کی صُورت میں علاج کی کام یابی کا تناسب مزید بڑھ جاتا ہے۔

س:چالیس سال کے بعد عموماً چہرے یا ہاتھ اور پائوں کی جِلد پر جُھرّیاں پڑنا شروع ہو جاتی ہیں، تو اس عُمر میں جِلد کی حفاظت کس طرح کی جائے کہ بڑھتی عُمر کے اثرات دیر سے ظاہر ہوں؟

ج:ہمارے معاشرے میں یہ تصوّر عام ہے کہ بڑھتی عُمر کے اثرات جُھرّیوں کی صورت ظاہر ہوتے ہیں، ایسا نہیں ہے۔ میرے پاس ایک20سالہ لڑکی بھی اپنے جُھرّیوں زدہ چہرے کا علاج کروانے آئی تھی۔ اصل میں جُھرّیاں پڑنے کی وجہ دیر تک سورج کی براہِ راست شعائوں میں رہنا ہے۔ کوئی بھی فرد چاہے خاتون ہو یا مَرد40سال کی عُمر میں،خصوصاً چہرےکی حفاظت اور تازگی برقرار رکھنے کے لیے سب سے پہلے تو کوشش کرے کہ دیر تک سورج کی تیز شعاؤں میں نہ رہے۔ ویسے سورج کی روشنی مفید ہے کہ اس سے قدرتی طور پر وٹامن ڈی حاصل ہوتا ہے، لیکن زیادہ تیز دھوپ نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ نیز، خواتین میک اپ صرف ضرورت کی حد تک کریں اور ہمیشہ معیاری کاسمیٹکس استعمال کی جائیں۔کلینزنگ روزانہ کریں اور چہل قدمی کو بھی معمول کا حصّہ بنا لیں۔

س: آج کل بوٹاکس (Botox) کی جانب رجحان کچھ زیادہ ہی بڑھ رہا ہے، اس کے مضر اثرات کے حوالے سے کچھ بتائیں ؟

ج: بوٹاکس اصل میں Botulinum Toxinکا انجیکشن ہے، جو مسلز یا پٹّھوں کو وقتی طور پر ایک طرح سے پیرالائز کر دیتا ہے۔ نتیجتاً عارضی طور پر جِلد سےجُھرّیاں اور شکنیں غائب ہو جاتی ہیں۔ اس طریقۂ علاج کی مدّت چھے ماہ سے سال بَھر ہے۔ رہی بات مضر اثرات کی، تو وہ صرف یہ ہے کہ انجیکشن کا اثر زائل ہوتے ہی دوبارہ جُھرّیاں ظاہر ہونے لگتی ہیں۔

س:کاسمیٹک سرجری کے نام پر یہ جو جدید طربقۂ علاج عام ہو رہے ہیں، ان میں سے کون سے مستند ہیں اور کون سے مضرِصحت؟

ج: جِلد کی شادابی اور تروتازگی کے لیے ایستھیٹک میڈیسن کا استعمال اور لیزر تھراپی تو عام طریقۂ علاج ہیں، دَورِ جدید میں پیکو تھرماسیل لیزر (Pico Thermacell laser) کے بعد اب پیکو ایکوسٹک لیزر (Pico Acoustic laser) اور پیکو کاربن لیزرفیشل (Pico Carbon laser Facial) بھی متعارف کروائے گئے ہیں۔ پیکو ایکوسٹک لیزر کے جِلد پر اثرات ایک سے دو سال، جب پیکو کاربن لیزرفیشل کے تین سال تک برقرار رہتے ہیں۔

س:جو خواتین ملازمت کے سلسلے میں گھر سے باہر آتی،جاتی ہیں، اُن کی جِلد کی ضروریات گھریلو خواتین سے ذرا مختلف ہوتی ہیں، پھر کچھ پیشے ایسے ہیں کہ ان کے لیے میک اپ گویا لازم ہے، تو ایسی صورت میں وہ اپنی جِلد کا خیال کیسے رکھیں؟

ج: دیکھیں، ہر طرح کے میک اپ کلرکاسمیٹک ہوتے ہیںاور چہرہ دھونے کے بعد بھی اس کے چھوٹے چھوٹے ذرّات باقی رہ جاتے ہیں، پھر یہی ذرّات دھوپ میں نکلنے کے بعد ری ایکشن کا باعث بن جاتے ہیں، لہٰذا میک اپ سے قبل بیرئیر سن بلاک استعمال کیا جائے۔ بیریئر سن بلاک میں کسی قسم کا کیمیکل نہیں پایا جاتا اور یہ صرف زنک آکسائیڈ اور ٹائٹینیم ڈی آکسائیڈ کا مرکب ہے۔ چوں کہ اس میں کیمیائی اجزاء شامل نہیں ہوتے، اس لیے یہ ہمارے مُلک میں ہر طرح کی جِلد والے افراد استعمال کر سکتے ہیں۔ پھر میک اپ زدہ چہرہ دھونے سے قبل کلینزنگ ضرور کریں اور اُس کے بعد منہ کسی معیاری فیس واش سے دھوئیں۔

س:کبھی کسی دَور میں جِلد کی حفاظت کے لیے صرف گھریلو ٹوٹکوں پر انحصار کیا جاتا تھا، لیکن اب باقاعدہ ٹریٹ منٹس لیے جاتے ہیں، تو ایسا کیوں ہے ؟

ج: اب نہ وہ دَور رہا اور نہ ہی اُس دَور کی خالص اشیاء۔ لہٰذا میرا مشورہ تو یہ ہے کہ کوئی دیسی ٹوٹکا بغیر سوچے سمجھے ہرگز نہ آزمائیں۔ اور صرف ٹوٹکا ہی نہیں، کوئی دوا بھی کسی معالج کے مشورے کے بغیر قطعاً استعمال نہ کریں۔

س:فیشل جِلد کے لیے اچھا ہے یا نقصان دہ؟ کیوں کہ بعض ڈرماٹولوجسٹ کا کہنا ہے کہ فیشل کے مضر اثرات عموماً بڑی عُمر میں ظاہر ہوتے ہیں؟

ج: جی بالکل، ایسا ہی ہے۔ بہت زیادہ فیشل کروانے سے جِلد کی قدرتی ٹون خراب ہوجاتی ہے۔ البتہ کبھی کبھار کروانے میں کوئی حرج نہیں۔

س:رنگت نکھارنے کے لیے فارمولا کریمز، ادویہ اور انجیکشنز کا استعمال بہت عام ہو رہا ہے، اس حوالے سے کیا کہیں گے؟

ج: فارمولا کریمز جِلد کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ ہیں، کیوں کہ ان میں ایک ایسی کریم شامل کی جاتی ہے، جس سے ابتدا میں تو جِلد کس جاتی ہے، مگر بعد میں ڈھیلی پڑ جاتی ہے بلکہ پتلی ہو کر باریک رگیں نمایاں ہونے لگتی ہیں۔ بعض اوقات چہرے پر غیر ضروری بال بھی نکلنا شروع ہو جاتے ہیں، لہٰذا ان کریمز کا ہرگز استعمال نہ کریں۔ رہی بات انجیکشن کی، تو یہ اصل میں سرطان کے مرض کے لیے متعارف کروایا گیا تھا اور جس مریض کو لگا، اُس کا مرض تو کنٹرول نہ ہو سکا، البتہ رنگت سفید ہو گئی۔ جس کے بعد اس انجیکشن کو اینٹی آکسیڈنٹ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ چوں کہ یہ انجیکشن رنگت گوری کرنے کے لیے ہے ہی نہیں، اس لیے یہ گُردوں کی خرابی اور دیگر ری ایکشنز وغیرہ کی وجہ بن جاتا ہے۔

س:کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟

ج: بس یہی کہوں گا کہ اپنی جِلد کو ’’تجربہ گاہ‘‘ نہ بنائیں۔ اگر کسی جِلدی مسئلے کا شکار ہوجائیں، تو اتائیوں کے پاس جانے اور اِدھر اُدھر کے مشوروں پر عمل سے گریز کریں۔ اور صرف ماہرِامراضِ جِلد ہی سے رجوع کریں۔ متوازن غذا کے ساتھ پھلوں، سبزیوں اور زائد پانی کا استعمال کریں۔ خوش رہیں اور منفی طرزِ عمل سے بھی دُور رہیں کہ منفی خیالات بھی چہرے کی جِلد پر اثر اندا ہوتے ہیں۔

(عکّاسی:اسرائیل انصاری)

تازہ ترین