• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شگفتہ بلوچ، ملتان

بِلاشبہ منہدی کا استعمال عورت کے حُسن کو چار چاند لگا دیتا ہے، یہ پاک و ہند کی روایات کا ایک خُوب صُورت حصّہ ہے۔ ’’منہدی‘‘ سنسکرت کے لفظ مینڈیکا سے نکلا ہے ، قدیم یُونانی کتابوں ، روایات اور ہندوئوں کی کتاب ویدک میں کثرت سےاس کا ذِکر ملتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ منہدی کو12 وِیں صدی میں مغلوں نے متعارف کروایا تھا۔ اُس دَور میں اُمرااور بادشاہ اسے آرایش ِحُسن کے لیے استعمال کرتے تھے ۔ تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ بّر ِصغیر پاک وہند میں لوگوں کے اجسام پر منہدی سے ڈیزائن بنائے جاتے تھے۔ منہدی،’’ حنا ‘‘نامی ایک پودے کے پتّوں کو پِیس کر بنائی جاتی ہے۔ آج بھی بھارت اور افریقا کی کئی خواتین ، منہدی سے ہاتھ، پاؤں کے علاوہ جسم کے دیگر حصّوں کی بھی آرایش کرتی ہیں۔ ابتدا میں صرف خواتین ہی اسے لگاتی اور لگواتی تھیں، پھر رَفتہ رَفتہ مرد بھی اس کا استعمال کرنےلگے۔ حنا ایک انتہائی کار آمد پودا ہے، اس کے پتّوں کا سفوف بنا کر نہ صرف ہاتھ، پَیر رنگے جاتے ہیں، بلکہ یہ مختلف امراض جیسے کینسر اور گنج پن کے علاج میں بھی کام آتا ہے۔ کینسر اور گنج پَن کے مریضوں کےسَر پر منہدی کا لیپ لگانے سے اُنہیں سکون ملتا ہے۔برّ ِ اعظم ایشیا، خصوصاً پاک و ہند میں شادی، بیاہ کی کوئی تقریب یا تہوارمنہدی کے بغیر مکمل تصوّرنہیں کیا جاتا۔تقسیم ِہند سے قبل ،مسلمان ایک طویل عرصے تک ہندوئوں کے ساتھ رہے ،اسی لیے شادی ،بیاہ کی رسوم و رواج میں ہندؤں کی بھی بے شمار رسمیں بھی شامل ہوگئیں، جن میں سے ایک شادی کے موقعے پردُلہن کے ہاتھوں ، پَیروں پہ منہدی رچانا بھی ہے، بلکہ اُس رسم کے لیے ایک خاص تقریب منعقد کی جاتی ہے،جس میں بہنیں، سکھیاں ، ہَم جولیاں وغیرہ گانے گاتی اور خُوب ہلّا گُلّا کرتی ہیں۔ منہدی کا اصل رنگ تو سُرخ ہوتا ہے، لیکن دَورِ جدید میںکیمیکلز کے ذریعے اَب سیاہ اور سُنہرے رنگ کی کون منہدیاں بھی مارکیٹ میںبآسانی دَست یاب ہیں۔

مختلف مذاہب کے لوگ اپنی مذہبی تقریبات میں بھی منہدی کا استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً ہندوئوں میں کڑوا چوتھ، وت پورنِما، دِیوالی، راکھی، بھائی دُوج وغیرہ پر خواتین ہاتھ، پائوں کےعلاوہ کندھوں اور کمر پہ بھی منہدی کےخُوب صُورت ڈیزائن بنواتی ہیں،جب کہ کچھ مَرد بھی مِہندی لگواتے ہیں۔ مسلمان خواتین،عیدَین اور شادی، بیاہ کی تقریبات میں بہت شوق سے ہاتھ ، پاؤں پر حنا رچاتی ہیں۔ برّصغیر میں رہنے والے مختلف ثقافتوں کے حامل افراد جیسے جیسے دیگر مقامات یا علاقوں میں ہجرت کرتے گئے،وہاں اپنے علاقے کا منہدی آرٹ بھی متعارف کرواتے گئے۔پہلے پہل ،گھر کی بزرگ خواتین منہدی پِیس کر نوجوان لڑکیوں یا بچّیوں کے ہاتھوں پر ٹکیا یا سیدھی سیدھی منہدی لگادیتی تھیں، مگر جہاں زمانے کے دیگر اطوار بدلے، وہیں منہدی لگانے کے طریقے بھی بَدل گئے۔اب حنا کے پتّوں کو پِیس کر نہیں، بلکہ کیمیکلز زدہ منہدی کو کون میں بھر کر بازار میں فروخت کیا جاتا ہے۔جس سے مختلف ڈیزائن بنانا آسان ہوجاتا ہے۔ افریقی خواتین بھی ہاتھ، پاؤں اور ناخنوں پر منہدی کے ڈیزائن بنوانے کی شوقین ہیں۔کچھ خواتین منہدی سُوکھنے اوراُسے جھاڑنے کے بعدہاتھوں پرسَرسوں کا تیل یا چینی کا پانی بھی لگاتی ہیں، تاکہ رنگ گہرا آئے ۔ہر خاتون اور بچـّی کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کے ہاتھ پر لگنے والا ڈیزائن سب سے منفرد ، نفیس اور دیدہ زیب ہواور اُن کی منہدی سب سے گہری رَچے۔خواتین کی اسی خواہش کا فائدہ اُٹھاتے ہوئےکچھ افراد نے مارکیٹ میں خطرناک کیمیائی اجزا سے تیّار کردہ غیر معیاری کون منہدی بھی متعارف کروادی ہے۔اس کیمیکل زدہ منہدی کے مُضر اثرات سے اَن جان خواتین بڑے شوق سے اُسے ہاتھوں، پَیروں پر رَچاتی ہیں۔خواتین کو یہ معلوم ہی نہیںکہ منہدی میں رنگ تیز کرنے کے لیے،جو کیمیائی اجزا استعمال کیے جاتے ہیں، وہ جِلد کے لیے کس قدر نقصان دہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کیمیکلز سے تیّار کردہ یہ منہدی، سکون آور ہونے کے بہ جائے سنگین جِلدی مسائل کا سبب بنتی ہے ۔ دَورِ حاضر میں اس کے سنگین نتائج کا سب سے زیادہ شکار دُلہنیں ہی ہورہی ہیں، کیوں کہ ہر لڑکی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی شادی کے دِن سب سے خُوب صُورت اور منفرد نظر آئے، چاہے جوڑا ہو یا منہدی، اُس کی ہر چیز نمایاں ہو۔اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے وہ کئی جَتن کرتی ہے، جیسے شہر کے بہترین پارلر سے میک اَپ کروانا، سروسز لینا اور دیدہ زیب ڈیزائن کی منہدی لگوانا۔گزرے زمانے میں منہدی کا رنگ گہرا کرنے کے لیے خواتین، چینی کا پانی ، سَرسوں کا تیل لگاتی اور لونگ کی بھانپ بھی لیتی تھیں، مگر آج کل کیمیائی اجزا سے تیّار منہدی نے اُن کا کام آسان کرکے، ان جھنجھٹوں سےاُن کی جان چھڑوادی ہے۔لڑکیاں،جو شادی پر حسین نظر آنے کے لیے مہینہ پہلے ہی تیاری شروع کردیتی ہیں ،کون منہدی کے استعمال کےایک غلط فیصلے کے باعث، شادی کے روز اور اُس کے بعدسنگین جِلدی مسائل کا شکار ہوکر نہ صرف اپنے بلکہ گھر والوں کے لیے بھی پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔خطر ناک کیمیائی اجزا سے تیّارکون مہندی کی وجہ سےخواتین کو کس طرح کے سنگین مسائل سے دو چار ہونا پڑتا ہے، اس حوالے سے ہم نےماہرِ امراض ِجِلد ،ڈاکٹر غلام مجتبیٰ سے بات چیت کی ، تواُن کا کہنا تھا کہ ’’بازارمیںجو کون منہدی دَست یاب ہے،وہ جِلد کے لیے انتہائی نقصان دَہ ہے ۔ اُس میںخطرناک کیمیکلز استعمال ہوتے ہیں۔ جس طرح بالوں کو رنگنے کے لیےخضاب بنانے والی چند غیر معیاری کمپنیاں تیزاب کا استعمال کرتی ہیں، اِسی طرح منہدی کا رنگ تیز کرنے کے لیے کچھ لوگ اُس میںبالوں کو رنگنے والا کیمیکل استعمال کررہے ہیں،جس کےہاتھوں کی جِلد پر انتہائی مُضر اثرات مرتب ہوتے ہیں،جن میں ہاتھ جھلسنا عام بات ہے۔ کیمیائی اجزا سے تیّار کردہ منہدی کے استعمال سے پہلے ہاتھوں پر سُرخ نشان پڑتے ہیں ،جو بعد ازاں، چھالوںکی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اِن چھالوں میں آہستہ آہستہ پانی بھر جاتا ہے، جن سے خُون رِسنے لگتا ہے۔ کئی مرتبہ یہ ردّ ِعمل جِلد پر نشانات (ٹَیٹوز)بننے کی صورت میں بھی ظاہر ہوتاہے ۔ زخم تو دَس روز یا ایک مہینے میں بھر جاتے ہیں، لیکن نشان بآسانی نہیں جاتے۔اکثر اوقات ، نشانات ختم ہونے میں کئی کئی سال بھی لگ جاتے ہیں۔ خواتین کو چاہیے کہ جو کون بازار میںدَست یاب ہے، اُس کے بہ جائے،گھر میں تیار ہونے والی سادہ منہدی استعمال کریں۔ کیمیکل زدہ منہدی سے متاثرہ خواتین میں زیادہ تعداد دُلہنوںکی ہے۔ میرے کلینک پرایک ہفتے میں کیمیائی منہدی سے متاثرہ کم از کم تین خواتین ضرور آتی ہیں۔ کچھ دُلہنوں کےہاتھوں پر بارات والے دِ ن ہی اثرات نظر آجاتے ہیں، جب کہ کچھ شادی کے چند دِن بعد آتی ہیں، جن کے ہاتھوں میںیا توچھالے پڑے ہوتے ہیں یا خُون رِس رہا ہوتا ہے۔ مَیں لڑکیوں کو مشورہ دُوں گا کہ بالخصوص اپنی شادی کے موقعے پر خطرناک کیمیکل سے تیّار کردہ منہدی کے بہ جائے سادہ منہدی لگائیں ،تاکہ آپ کی زندگی کا سب سے بڑا اور خاص دِن سنہری یاد وں سے مزیّن رہے۔اگر آپ چاہتی ہیں کہ منہدی کا رنگ گہرا یا تیز آئے، تو لونگ کی بھانپ لے لیں ۔ آج کل کچھ بڑے بیوٹی پارلرز بھی جِلد کو نقصان پہنچانے والے کیمیکلز سے کون منہدی تیّار کررہے ہیں۔میرے پاس جِلد کے امراض میں مبتلا ایسی بے شمار خواتین آتی ہیں، جن کے ہاتھ، پَیر بیوٹی پارلرز کی تیّار کردہ منہدی کی وجہ سے جُھلسے ہوئے ہوتے ہیں۔ ویسے توسادگی کا اپنا حُسن ہوتا ، لیکن آج کل الیکٹرانک میڈیا اور انٹرنیٹ نے خواتین پر حُسن کو چار چاند لگانے کا ایسا خبط سوار کردیا ہے کہ وہ اس کے لیے کوئی غیر معیاری مصنوعہ استعمال کرنے سے بھی گُریز نہیں کرتیں۔دَر حقیقت ،خواتین کے تین بنیادی مسائل ہیں ۔ رنگ گورا کرنا، بال لمبے کرنا اور آنکھوں کے گِرد بنےحلقوں کا خاتمہ ، اس خواہش کی تکمیل کے لیے، وہ بِنا سوچے سمجھےمحض ٹی وی یا انٹرنیٹ پر کسی بھی بیوٹی مصنوعہ کا اشتہار دیکھ کر اس کا استعمال شروع کر دیتی ہیں۔ یہ بھی نہیں سوچتیں کہ جو کریم وہ استعمال کر رہی ہیں، وہ اُن کی جلد سے مطابقت رکھتی بھی ہےیا نہیں۔نتیجتاً ، رنگ گورا ہونے کے بہ جائے مزید کالا اور جلد چمک دار ہونے کے بہ جائے کھردری اور بے رونق ہوجاتی ہے۔اب فارمولا کریم ہی کی مثال لے لیجیےاُس کی وجہ سے نہ جانے کتنی خواتین کے چہرے بے رونق ہوگئے ہیں، لیکن خواتین کو پھر بھی عقل نہیں آرہی۔ اگر لڑکیاں طرح طرح کی غیر معیاری کریمیں لگانے کےبہ جائے، اپنی خوراک پر توجّہ دیں ، سبزیوں، پھلوں کا استعمال، نماز کی پابندی کریں،تو چہرےکی رونق خُود بہ خُود لوٹ آئے گی۔ اکثرغیر معیاری بیوٹی مصنوعات بنانے والی کمپنیاں،ٹی وی پراشتہار چلوا کر خواتین، بالخصوص نوجوان لڑکیوں کو بے وَقوف بناتی ہیں۔ یہاں میں اِس بات کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں کہ کیمیائی اجزا سے تیّار کردہ منہدی جِلد کے لیے نقصان دَہ تو ہے،اُس کا استعمال الرجی ، زخم یا چھالوں کا موجب بھی بن سکتا ہے، مگر اس سے جِلد کا کینسر نہیں ہو سکتا۔‘‘

مُضر کیمیکل منہدی سے متاثرہ خواتین کے طریقۂ علاج اورعلاج کی مدّت سے متعلق سوال پر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ’’ہم متاثرہ خواتین کو زخم یا جھلسے ہوئے حصّے پر لگانے کے لیےکریم کی شکل میں ادویہ دیتے ہیں۔تاہم، اگرزخم زیادہ خراب ہو جائے اورکافی عرصے تک علاج کے باوجود نشان غائب نہ ہوں، تو لیزر سے علاج کیا جاتا ہے۔لیزر تھیراپی ، چار، پانچ ماہ تک جاری رہتی ہے، جس کا ہر مہینے ایک سیشن ہوتا ہے۔ اس سے نشانات کافی حد تک ختم یا کم ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک عام طریقہ ہے کہ جسم کا کوئی حصّہ جلنے کی صُورت میں، اُس جگہ فوراً ٹوتھ پیسٹ یا ایلوویرا کاگودا لگالیا جاتا ہے کہ چھالے نہ پڑیں، حالاں کہ یہ انتہائی غلط طرزِ عمل ہے۔ جھلسنے کے نتیجے میں چھالےبننا توایک قدرتی عمل ہے۔ مُضر منہدی کی پہچان کے حوالے سےڈاکٹر مجتبیٰ کا کہنا تھا کہ’’ ایسی منہدی لگانے کے کچھ ہی دیر بعد شدید جلن کا احساس ہونے لگتا ہے ۔ اگر خواتین محسوس کریں کہ منہدی لگانے کے بعد ہاتھوں میں جلن ہو رہی ہے، تو متاثرہ جگہ فوراً ٹھنڈے پانی سے دھولیںاور اس منہدی کو ہر گز استعمال نہ کریں۔‘‘مُضر کیمیکل منہدی سے متاثرہ ملتان کی رہائشی ملیحہ عارف نے اس حوالے سے بتایا کہ’’ 20جنوری 2019ءکو میری بارات تھی، رسم ِحنا کے موقعے پر مَیںنے گھر کے قریب ہی واقع پارلر سے منہدی لگوائی۔ منہدی لگواتے وقت تو بس ہلکی سی جلن محسوس ہوئی ، جوتھوڑی دیر بعد ٹھیک ہوگئی، لیکن تین گھنٹے بعد ہاتھوں پر شدید خارش اور پھر جلن کا احساس ہونے لگا ،فوری طور پر ٹھنڈےپانی سے ہاتھ دھوئے، مگر جیسے ہی ٹھنڈا پانی ہاتھوں پر پڑا، تو ایسا محسوس ہوا ،جیسے ہاتھوں میں سے آگ نکل رہی ہے۔ جب ہاتھ خُشک کیے،تو میرے ہوش ہی اُڑ گئے، کیوں کہ کچھ لمحوں پہلے تک جن ہاتھوں پر دیدہ زیب ڈیزائن بنا ہوا تھا، اب اُن پر سُرخ نشانات ، آبلے کی صُورت نمودار ہو چکے تھے۔ اگلے روز میری بارات تھی، بار بار مجھے یہی خیال آرہا تھا کہ خُوب صُورت عروسی لباس اور میک اَپ میں،جلے ہوئے ہاتھ لے کر کیسے بیٹھوں گی۔اسٹیج پر دُلہا کے ساتھ بیٹھنے، تصاویر اور ویڈیو بنواتے ہوئے بھی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ بارات کا دِن تو جیسے تَیسے گُزر گیا، لیکن آج ہاتھوں کے سُرخ نشانات کی جگہ ٹیٹوز نمودار ہوگئے ہیں۔ آج میرا ولیمہ ہےاور مَیں پارلر کے بہ جائے اِمراض ِ جِلد کے کلینک میں بیٹھی ہوں ، تاکہ کسی طرح یہ نشانات فوری طور پرختم ہوجائیں، مگر ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ فی الحال ایسا ممکن نہیں۔ اِن زخموں کو بھرنے میں کم اَز کم تین ماہ اورنشانات ختم ہونے میں تقریباً ایک سال لگ جائے گا۔ منہدی کی گہری رنگت کے شوق کا ، جو خمیازہ مَیں نے بھُگتا ،وہ کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ اس لیے میری تمام لڑکیوں سے یہی گزارش ہے کہ اپنی شادی پر کون منہدی سے ڈیزائن لگوانے کے بہ جائے، سادہ سی ٹکیا لگوالیں، مگر گہرے رنگ اور منفرد ڈیزائن کے چکّر میں اپنی شادی کے یاد گار دِن کی خوشیوں کو داؤ پر لگانے سے گُریز کریں۔‘‘ کون منہدی سے متاثرہ ایک اور لڑکی زہرہ شاہ نے بتایا کہ ’’گزشتہ دِنوںمیرے کزن کی شادی تھی،مَیں نے محلّےکے ایک چھوٹے سے پارلر سے مہندی لگوائی ۔ نرخ مناسب ہونے کی وجہ سے بڑے پارلر کے بہ جائے چھوٹے پارلر کا رخ کیا، لیکن مجھے کیا معلوم تھاکہ کم پیسوں کا خمیازہ بعد میں مہنگے علاج کی صُورت بھگتنا پڑے گا۔ منہدی لگواتے ہی ہاتھوں پر شدید جلن ہونے لگی۔ پہلے تو مَیں نےبرداشت کیا، لیکن جب جلن ناقابلِ برداشت ہو گئی، تو پانی سے ہاتھ دھو لیے۔تاہم ،پانی پڑتے ہی پورا ہاتھ سُرخ نشانات سے بھر گیا، جن پر شدید خارش ہونے لگی۔ کُھجانے کی کی وجہ سے خون رِسنے لگا، وقتی طور پر گھر یلو ٹوٹکے کیے لیکن زخم ٹھیک ہی نہیں ہو رہا تھا، تو اب ڈاکٹر کے پاس آئی ہوں ۔‘‘ اس حوالے سے معروف بیوٹیشن ،عیشا نے کہا کہ بڑے پارلر اوّل تو اپنی منہدی بناتے ہی نہیں اور اگر بنوائیں بھی ،تواُن کی منہدی معیاری ہوتی ہے، اِس لیے شکایت یا انفیکشن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔جب کہ بڑے پارلر زمیں منہدی لگانے کا پیکج کافی مہنگا ہوتا ہے، اِسی لیے خواتین رقم بچانے کے لیے چھوٹے پارلرز کا رُخ کرتی اور غیر معیاری مہندی لگوالیتی ہیں،پھر جس کا خمیازہ جِلد کے انفیکشن کی صُورت سامنے آتا ہے۔‘‘

منہدی کا استعمال صدیوں سے ہوتا چلا آرہا ہے ، مگر اس خُوب صُورت قدیم روایت نے آج باقاعدہ ایک فن کی شکل اختیار کرلی ہے۔تاہم، خیال رہے کہ آپ جب بھی منہدی لگوائیں،اس بات کو یقینی بنائیںکہ وہ کیمیکل سے پاک ، معیاری منہدی ہو، ورنہ یہ کارآمد بُوٹی فائدے کے بہ جائے سخت نقصان کا پیش خَیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

تازہ ترین