• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سعودی ولی عہدمحمد بن سلیمان کا دورہ پاکستان بخیروخوبی سرانجام پاچکا ہے، پاکستان اور سعودی عرب کے مابین روز اول سے قریبی دوستانہ تعلقات قائم ہیں، یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا حلف اٹھانے کے بعد سعودی عرب جانا اور سعودی شہزادے کا بھی اپنے پہلے غیرملکی دورے کیلئے پاکستان کا انتخاب کرنادوطرفہ تعلقات اور اقتصادی تعاون مستحکم ہونے کی عکاسی کرتا ہے، افسوس کا مقام ہے کہ جہاں ایک طرف پوری پاکستانی قوم معزز مہمان کے شایان شان استقبال کیلئے چشم براہ تھیں وہیں کچھ مٹھی بھر شر پسند عناصرسوشل میڈیا کو آلودہ کرنے میں مصروف ِ عمل نظر آئے، ایسے نازک موقع پر وزارتِ داخلہ کا ایک پراسرار بے نامی نوٹیفکیشن بھی منظرعام پر آگیا جس میں فرقہ واریت پھیلانے والے ایک گروہ کو سوشل میڈیاماحول پراگندہ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ،میں سمجھتا ہوں کہ وزیرمملکت برائے داخلہ شہریار خان آفریدی کی جانب سے بروقت ٹویٹ نے معاملات کو احسن انداز میں سنبھال لیا ورنہ اندیشہ تھا کہ ملک دشمن قوتیں وطن عزیز کو فرقہ واریت کا شکار کردیتیں۔ گزشتہ ہفتے ایک دوسرے وفاقی وزیر نے بھی اعلان کیا تھاکہ موجودہ حکومت نے سوشل میڈیا پر منافرت پھیلانے والوں کے خلاف بڑے کریک ڈاؤن کافیصلہ کرلیا ہے اورسوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کی تشہیر کرنے والوں کے خلاف جلد بڑی کارروائی عوام کے سامنے آئے گی۔آج کے ڈیجیٹل دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں لیکن بدقسمتی سے آزادی اظہار رائے اور نفرت آمیز مواد کی تشہیر میں فرق نہیں سمجھا جارہا ، میں اپنے ایک کالم بتاریخ یکم جون 2017ء میں تفصیلاََ اپنا تجزیہ پیش کرچکا ہوں کہ دنیا بھر میںسوشل میڈیا خبروں کی دوڑ میں روایتی میڈیا کی نسبت نہایت تیزی سے اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہورہا ہے، آج لوگ اخبار کا مطالعہ کرنے کی بجائے اپنے موبائل فون پر ای پیپرملاحظہ کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں، ریڈیو اور ٹی وی چینل اپنی نشریات کا دائرہ کار بڑھانے کیلئے سوشل میڈیا کا سہارا لینے پر مجبور ہیں، دوسری طرف یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا کی شکل میں شرپسند عناصر کو ایک ایسامہلک ہتھیار میسر آگیا ہے جسکا نشانہ ہر وہ انسان بن رہا ہے جو ان کے نظریات سے اختلاف رکھتا ہو، عالمی میڈیا میں ایسی رپورٹس تواتر سے شائع ہورہی ہیں کہ کیسے بین الاقوامی دہشت گرد گروہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے سوشل میڈیا کے ذریعے بھرتی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں،ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پر بہت سے اکاؤنٹس مذہبی تعصب، نفرت اور شدت پسندی پھیلانے کیلئے ایکٹوہیں، یہی وجہ ہے کہ عالمی برادری کی طرف سے انٹرنیٹ پرمنفی نظریات کی روک تھام کیلئے فیس بک، یوٹیوب اور ٹوئٹر انتظامیہ پر دباؤ میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ پاکستان میں بھی بعض شرپسند عناصر سوشل میڈیا کو منظم انداز میں مخالفین کے خلاف نفرتوں کے پرچار کیلئے استعمال کر رہے ہیں

اوربعض پاکستانی انٹرنیٹ صارفین بیرونی ممالک کی نظریاتی جنگیں سوشل میڈیا پر لڑتے ہوئے افسوسناک حد تک نازیبا زبان کا استعمال کررہے ہیں ،ایک اور تشویشناک امرعالمی سیاست کے تناظر میں مقامی محب وطن اقلیتوں کے خلاف نفرتوں کو پروان چڑھاناہے۔ میں نے غیرمسلم اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے روبرو پیش ہوکر آگاہ کیا تھاکہ اقلیتوں کے خلاف مظالم کی روک تھام کیلئے نفرت آمیز مواد کی تشہیر پر پابندی ضروری ہے۔ جب گزشتہ دورِ حکومت میں قومی ایکشن پلان کے تحت سوشل میڈیا پر مذہبی تعصب کی بنیاد پر نفرت آمیز مواد پر پابندی کو اہم ترجیح گردانا گیااور اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کی سربراہی میں سات رکنی ورکنگ گروپ شدت پسندوں کا سوشل میڈیا پر زور توڑنے کیلئے قائم کیا گیاتو میں نے اس وقت بھی اپنے کالم بعنوان سوشل میڈیا کیلئے ضابطہ اخلاق میں حکومت ِوقت پر زور دیا تھا کہ سوشل میڈیا پرقدغن لگانے کے پریشان کن اعلانات کرنے کی بجائے انٹرنیٹ صارفین کو اعتماد میں لیا جائے، میں نے تجویز پیش کی تھی کہ نیوز ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ایڈمن کیلئے لازم کیا جائے کہ وہ اپنی شناخت ظاہر کرتے ہوئے اپنے آپ کو رجسٹرڈ کروائیں،اب جبکہ پاکستان میں تمام موبائل فون صارفین کی بائیومیٹرک تصدیق مکمل ہوچکی ہے تو حکومت کو سوشل میڈیاکے استعمال کو پاکستانی موبائل فون سمزسے منسلک کرنے پر غور کرنا چاہئے۔ موجودہ حکومت کی مقبولیت کا بڑا راز سوشل میڈیا کا موثر استعمال ہے، آج وزارت داخلہ کا قلمدان جناب وزیراعظم عمران خان کے پاس ہے تو میں انہیں قومی ایکشن پلان کے تحت سوشل میڈیا پر نفرتوں کے پرچار کا خاتمہ کرنے کیلئے اپنی تجاویزدہرانا چاہوں گا کہ موجودہ حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس ایپ جیسے عالمی سوشل

میڈیا اداروں کو اپنے دفاتر پاکستان میں قائم کرنے کیلئے قائل کرنا چاہئے ، پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کے توسط سے انٹرنیٹ سروس پروائیڈرز یقینی بنائیں کہ کوئی بھی انٹرنیٹ صارف آن لائن دنیا میں قدم رکھنے سے قبل اپنا موبائل نمبر فراہم کرے جس کے بعد ویریفکیشن کوڈ موبائل فون پر ہی فراہم کیا جائے۔ جب ایک صارف کو پتا ہوگا کہ انٹر نیٹ استعمال کرتے وقت بائیومیٹرک تصدیق شدہ موبائل نمبرحکومتی اداروں کے پاس ہے تووہ نہ صرف اپنے آپ کو قانون کے دائرے میں محسوس کرتے ہوئے سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کرے گا بلکہ خلاف ورزی کی صورت میں قانون کی آہنی گرفت میں باآسانی آسکے گا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جب لیڈران اپنے مخالفین کے خلاف نازیبازبان استعمال کرتے ہیں تو اس کا منفی اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے جس کی ایک جھلک سوشل میڈیا پر نظر آتی ہے، اسلئے علمائے کرام ، مذہبی رہنما اور پارلیمانی لیڈران کو چاہئے کہ وہ اپنے پیروکاروں کو سوشل میڈیاکے مثبت استعمال اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح سڑک سے پتھر ہٹانا نیکی ہے، اسی طرح سوشل میڈیا سے اخلاق باختہ مواد ڈیلیٹ کرانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا بھی ایک نیکی ہے، بطور پاکستانی یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے اخلاقیات جیسے اہم مضمون کو اہمیت نہیں دی، اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل میڈیا پر نفرتوںکا نہیں بلکہ امن و محبت اور بھائی چارے کا پرچار کیا جائے اور انٹرنیٹ پر شدت پسندانہ نظریات کی نفی کرتے ہوئے جیو اور جینے دوکی پالیسی اپنائی جائے ،میری نظر میںوفاقی اور صوبائی سطح پر تمام تعلیمی اداروں کے نصاب تعلیم میں سوشل میڈیا کے تعمیری استعمال کیلئے اخلاقیات کو بطور لازمی مضمون شامل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین