پاکستانی خواتین کا ترقی کی جانب بڑھتا ہر قدم، ان کی ذاتی کامیابی کے بجائےوطن عزیز کی کامیابی وکامرانی محسوس ہوتاہے۔ اور اس حوالے سے جب کوئی مثبت خبر دیہات یا پسماندہ علاقوں کی خواتین کی جانب سے آتی ہے تو اس خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں رہتا۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں خواتین کو بااختیار بننےکے لیے طرح طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے،خاص طور پر دیہی اور پسماندہ علاقوں کی خواتین کو۔ تاہم خواتین پر جب کچھ کرنے یابننے کی دُھن سوار ہوجائے اور ایسے میں اپنوں کا اعتماد و بھروسہ ان کے ساتھ ہو تو وہ تمام مسائل اور رکاوٹوں کو عبور کرتی چلی جاتی ہیں۔ چنیوٹ کی19سالہ ثمینہ نورین بھی ان خوش قسمت خواتین میں سے ہیں، جن کی آگے بڑھنے اور کچھ بننے کی لگن کو ان کے والدین اور بہن بھائیوں نے بڑھاوا دیا اور ان کے بھروسے اور اعتمادکے باعث آج وہ چینیو ٹ کے گاؤںموزا کوٹ خیر شاہ کی پہلی اور واحدپولیس کانسٹیبل ہیں۔ آج کی تحریر میں چنیوٹ کی اس بہادر اور منفرد لڑکی کی زندگی کا احوال بیان کر رہے ہیں۔
روایتوں کی بیڑیاں جب ٹوٹیں
ثمینہ نورین کی تین بہنیں اور بھی ہیں، جنھیں گاؤں کی دیگر لڑکیوں کے برعکس ایک بہتر اور منفرد زندگی جینے کا موقع ملا۔ بین الاقوامی میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ثمینہ کا کہنا تھا کہ وہ گاؤں کی پہلی لڑکی ہے، جسےشہر کے اسکول جاکر پڑھنے کی اجازت ملی۔ ثمینہ اور ان کی بہنوں نے اپنے گاؤں کی لڑکیوں میں سب سے پہلے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ثمینہ کے مطابق ایک عام اور نچلے طبقے کی لڑکی کا پولیس کانسٹیبل تک کا سفر آسان نہ تھا۔ رشتہ داروں حتیٰ کہ گاؤں کے دیگر افراد نے بھی گاؤں سے دور اسکول جانے پر طرح طرح کے خدشات کا اظہار کیا لیکن والدین کی سپورٹ کے باعث ثمینہ نے ہمت نہ ہاری، وہ روزانہ 11کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے چنیوٹ کے اسکول پہنچا کرتی تھی۔ گھر سے اسکول تک کا طویل راستہ طے کرنے کے لیے وہ ایک گھنٹہ پہلے نکلا کرتی تھی اور اسکول کی چھٹی کے بعد گھر پہنچنے کے لیے مزید ایک گھنٹہ کا سفر بس یا پبلک وین سےطے کرتی تھی۔ بارہ سال تک ثمینہ کی یہی روٹین رہی۔ ان کے والد دوست محمد مزدوری کرکے یومیہ اجرت کمانے والے شخص ہیں۔ کم وسائل کے سبب دوست محمد کے لیے اولاد کو تعلیم دلوانا خاصا مشکل کام تھا، تاہم اس کے باوجود انھوں نے ہمت نہ ہاری اور تمام بچوں کو تعلیم دلوائی۔ ثمینہ بتاتی ہے کہ انھیں سب سے زیادہ حوصلہ ان کے والد کی جانب سے ملا کیونکہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ترقی کرتے اس دور میںلڑکوں کی طرح لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا بھی بے حد ضروری ہے۔
زندگی کا سب سے اہم دن
ثمینہ نورین نےانٹرمیڈیٹ کی تعلیم 18سال کی عمر میںمکمل کی، اس کے بعداس نے پولیس فورس جوائن کرلی۔ ثمینہ اپنی زندگی کا سب سے اہم لمحہ اس وقت کو تسلیم کرتی ہیں، جب ان کے بڑے بھائی ہاتھ میں اخبار تھامے گھر آئے اور اسے مشورہ دیا کہ پولیس کانسٹیبل کی جاب کا اشتہار آیا ہے، جس کے لیےثمینہ کو بھی اپلائی کرنا چاہیے۔ اس کے بعد ثمینہ نے نہ صرف اپلائی کیا بلکہ ٹیسٹ کلیئر کرنے کے بعد ٹریننگ بھی کامیابی کے ساتھ مکمل کی۔ آگے بڑھنے کی لگن لیےثمینہ مستقبل میں گریجویشن مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ فارمیسی لرننگ کورسز کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔ ثمینہ کہتی ہے،’’پولیس کانسٹیبل بننا پولیس فورس میں انٹری کے لیے پہلا قدم ہے۔ میرا اور میرے والدین کا اصل خواب اس دن پورا ہوگا جب میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے بطور آفیسر تعینات ہوجاؤں گی‘‘۔
ثمینہ نورین کے مطابق خواتین کے لیے اس ملازمت میں سب سے مشکل کام کسی بھی واقعہ کی تحقیقات ہوسکتا ہے لیکن اس مشکل کے باوجود اس شعبہ سے منسلک تمام تر خواتین اپنے فرائض نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دے رہی ہیں۔
گاؤں کی لڑکیوں کیلئے رول ماڈل
ثمینہ نورین اپنے گاؤں کی لڑکیوں کے لیے ایک رول ماڈل ثابت ہوئی ہیں، جس کے پیش نظر گاؤں کے دیگر افراد بھی اپنی بچیوں کو تعلیم دلوانے پر رضامند ہوگئے ہیں۔ گاؤں کی مائیں ثمینہ نورین کو وردی میں دیکھ کر اپنی بیٹیوں کا مستقبل بھی کچھ ایسا ہی دیکھنے کی خواہشمند ہیں۔ امید ہے کہ جو ٹرینڈ ثمینہ نورین نے اپن انتھک محنت اور جدوجہد سے سیٹ کیا ہے وہ اب تھمے گا نہیں۔ چنیوٹ کے اس چھوٹے سے گاؤں میں تبدیلی لانے والی ثمینہ نورین بہت جلد اپنے گاؤں کی لڑکیوں کی قسمت بدلنے کا سبب بن جائے گی۔ اور یہ تبدیلی صرف ایک گاؤں نہیں بلکہ مستقبل میں پاکستان کے تمام صوبوں کے پسماندہ علاقوں میں دیکھی جائے گی۔