تحریر:حافظ عبدالاعلیٰ درانی… بریڈفورڈ (قسط نمبر 31) قارئین سے معذرت کہ پچھلی قسط کافی عرصہ پہلے آپ نے ملاحظہ کی جس میں دیوار براق اور یہودیوں کے نزدیک دیوار گریہ کی زیارت کا ذکر تھا اور کچھ بعد والے واقعات بھی تھے ۔اس کے بعدبیرون ملک سفر اور دیگر مصروفیات کی و جہ سے تین ماہ کا وقفہ آگیا ۔اس دوران لکھتا رہا لیکن وہ ساری فائل ہی ڈیلیٹ ہوگئی ۔ ظاہر ہے دوبارہ لکھنے کیلئے بڑی ہمت چاہیے اور اس ہمت کو جمع کرنے کیلئے بھی کافی عزم و ہمت چاہیے ۔بہرحال کوشش کی ہے کہ تسلسل برقرار رہے ۔اب اگلی قسط ملاحظہ فرمائیں۔یروشلم… سرزمین اسلام… کے مقدس علاقہ میں جہاں سوا ڈیڑھ لاکھ انبیاء کرام کی ولادت ہوئی ، جس کے ایک ایک چپے سے تاریخ کو لاکھوں ہیرے جواہرات ہاتھ آئے ، مگر بے قدرے لوگوں نے ان کی اہانت میں کوئی دقیقہ نہیں بھلایا۔جہاں انبیاء و صلحا کی سانسیں مہکتی رہیں جہاں کے گوشے آل عمران کی پاکباز بچی مریم کی عبادت و اخلاص سے منور ہوتے رہے جہاں اللہ کے خاص بندے زکریا نے آہ صبحگاہی سے تقدیر کے آسمان کو ہلا کر رکھ دیا ۔اور جہاں حبیب کائنات نے حضرت جبرائیل کی معیت میں براق پر قدم رنجا فرمایا۔اسی جگہ سے آپ کا معراج جسمانی شروع ہوا تھا …یہ وہ علاقہ ہے جہاں میں اپنے چند رفقاء کے ساتھ بیٹھا ہوں اسے مسجد براق کہتے ہیں ۔اس دیوار گریہ کے پیچھے والا حصہ دیوار براق کہلاتاہے جیسا کہ عرض کیا گیا۔ گہرائی میں جاکرچھوٹی سی علامتی مسجد بنی ہوئی ہے جہاں نماز با جماعت نہیں ہوتی اور دیوار کے درمیان علامت کے طور پر ایک کڑا لگایاہوا ہے، جس کے بارے میں مشہور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ براق کو باندھا تھا ۔ میں نے وہاں موجود چند فلسطینی بزرگوں سے اس کی تاریخ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ بنو امیہ کے دور میں اس کڑے کو بطور علامت لگایاگیاحتمی طور پرنشاندھی مشکل ہے کہ کس جگہ رسول اللہ ﷺ نے براق کو باندھا تھا بہرحال یہی وہ جگہ ہے جس کے بارے میں سینہ بہ سینہ روایت چلی آتی ہے ۔ہم نے وہاں کچھ دیر گزاری اور ان نورانی لمحات سے مشام جان معطر کرتے رہے کہ اس مبارک جگہ ہمارے آقا و مولی نے قدم مبارک رکھے تھے اوراسی علاقے سے آپ کو آسمانوں کی سیر کیلئے لیجایا گیا تھا یوں آپ امام الانبیاء والمرسلین بھی بنے ، اور امام القبلتین کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئے تھے ۔اس طرح حق تعالیٰ نے تقریباً 2621سال کے بعد یہاں بننے والی ’’مسجداقصیٰ‘‘ اہل مسجد یعنی امت مسلمہ کو ہمیشہ کیلئے عطا فرما دی ۔ خوشا شہرے کہ آنجا دلبر است اور اس قوم کو جو یہاں ساٹھ ستر سال سے برطانوی سیاست کے بل بوتے پر ناجائز قابض ہو رہی ہےاور جس نے ہمیشہ قتل و غارت کا معرکہ گرم رکھا اور آج بھی اسی کا فساد ہر سو پھیلا ہواہے جس نے رحمۃ للعالمین کی پیروی کے اعزاز کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے ، حالانکہ امت اسلام ، رحم و محبت کی علمبردار ، اور امن وسلامتی کی پیامبرامت ہے…اس خیر امۃ…کو کعبۃ اللہ سے چالیس سال بعد تعمیر ہونے والی دنیا کی دوسری بڑی مسجد ’’مسجد اقصیٰ‘‘ کی سرزمین کی وراثت بھی عطا فرمادی گئی ہے۔ محمد کریم علیہ الصلوٰۃ وازکیٰ التسلیم کی بعثت و رحمت ،نزول قرآن کا واقعہ ، امت محمدیہ کی تشکیل و تنصیب، خاتم النبین صلی اللہ علیہ وازکیٰ التسلیم کی رافت و شفقت سے معمور جماعت کی تشکیل دنیائے انسانیت کیلئے ایک بہت بڑا انقلاب تھا ۔ ایسے انقلاب جو صدیوں میں ماہ و سال کی گردش کے بعدنمو دار ہوتے ہیں ۔ ہندوستان کے عظیم مفکر، امام الہند مولاناابوالکلام آزاد( نور اللہ مرقدہ) کے بقول یہی وہ موقع تھا جب ایک رات کوہزار راتوں سے بہتر قرار دیاگیا تھا کیونکہ ایسے فیصلے چند سالوں میں نہیں صدیوں میں ہوپاتے ہیں ۔ {لیلۃ القدر خیر من الف شھر} معراج النبی ، مسجد براق ،دیوار براق اور اس سے متصل مسجد قبلی ( مسجد اقصی)کے جوار میں بیٹھے ہوئے مجھے جب یہ مناسبت نظر آئی اور امام الہند کی یہ تفسیر سمجھ میں آئی تو روح کی گہرائیوں میں لذت وحلاوت کی وہ لہردوڑ گئی جس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے امام مسجد اقصی الشیخ علی سے اپنی ان دلی کیفیات کو بیان کیا تو انہوں نے کہا’’دراصل یہ چیز دیکھنے کی نہیں محسوس کرنے کی ہوتی ہے ، نظر بازی سے نہیں اندازی سے ملتی ہے ۔ لمس و مس سے نہیں احساسات سے محسوس کی جاسکتی ہے، یہ کیفیات ظاہر نہیں ہوتیں وارد ہوتی ہیں۔ آہستہ برگ گل بفشاں بر نگار ما کہ بس نازک است شیشہ دل در کنار ما 16جولائی2017اتوار کے دن کی روئیداد اس دن ہم نے مسجد عمرفاروق میں نمازظہر ادا کی تھی نمازظہر کے بعد کچھ دیر مسجد عمرمیں ٹھہرے اور اس کے مکتبہ سے سلطان صلاح الدین ایوبی کی تصویر حاصل کی ۔ اب یہ کارروائی اس کے بعد کی ہے ۔مسجد عمر کی زیارت کے بعد ہمارا اگلا پروگرام مسجد اقصی میں نمازعصرادا کرنا تھا جو پچھلے دو دن سے مکمل طور پر اسرائیلی فورسز نے زائرین کیلئے بند کی ہوئی تھی اور مغرب کے بعد یہاں ایک فلسطینی بھائی ابو محمد کے ہاں دعوت طعام میں شریک ہو نا تھا۔ عموما ً باب حطہ کی جانب چلتے ہوئے راستے میں آنے والے کئی دروازوں سے داخل ہونے کی کوشش کی ۔لیکن اسرائیلی فوجیوں نے ہر جگہ سنگینیں تان رکھی تھیں۔ اسی تلاش کے سفر کے دوران اولڈ سٹی( القدس) کے ایک بازار سے گزرتے ہوئے اچانک مسجد عثمان بن عفان نظر آئی۔تو مجھے تجسس ہوا کہ اس شہر مبارک میں اور بھی بے شمار مساجد ہوںگی ۔ میں نے کئی دوستوں اور علماء سے پوچھا ۔ انٹرنیٹ پر کافی ریسرچ کرتارہا تب ایک فہرست تیار ہوسکی ہے اور ابھی کئی مساجد کے بارے میں معلومات نہیں مل سکیں ۔ مثلا عیسائیوں کے کنیسۃ القیامۃ کی شمالی جانب ایک مسجد ہے اس کانام معلوم نہیں ہوسکا تاہم زائرین کی دلچسپی کیلئے تقریبا ً اکتیس مساجد کی فہرست تیار کرسکا ہوں ملاحظہ فرمایئے ۔ یروشلم کی مساجد کی فہرست علاوہ مسجد اقصیٰ جسے مسجد قبلی بھی کہا جاتاہے ۔٭مسجد الشوربجی٭مسجد نبی داؤد٭ مسجد منارات الاحمر٭ مسجد قبہ موسیٰ٭ مسجد باب حطہ٭ مسجد تخت سلیمان٭ مسجد باب الغوامہ٭ مسجد دار الامام٭ مسجد خان الزیت٭ مسجد سلیمان الفارسی٭ مسجد رابعہ عدویہ٭ مسجد الطور٭ مسجد الحنابلہ٭ مسجد عکاشہ٭ مسجد الخالدیہ٭ مسجد الیعقوبیہ٭ مسجد البراق٭ مسجد قبۃ الصخراء٭ مسجد القورمی٭ مسجد عثمان بن عفان٭ مسجد الکریمی٭ مسجد العلمی٭ مسجد حارۃ الارمان ٭ مسجد حارۃ النصاریٰ٭ مسجد بازار٭ مسجد المسعودی٭ مسجد حجازی٭ مسجد المثنیٰ٭ مسجد الشیخ ریحان٭ مسجد افغانی٭ مسجد عمر۔بہر حال ہم نے دھیرے دھیرے مسجد اقصی میں داخل ہونے کی کئی دروازوں سے کوشش کی۔ مسجد اقصیٰ کو جانے والے تمام راستوں پر ناکے لگے ہوئے تھے ۔ زائرین کواسرائیلی فورسز دور ہی سے چلتا کردیتی تھی ۔چلتے چلتے ہم باب السلسلہ تک پہنچے جہاں سے کچھ لوگوں کو اجازت دے دی جاتی تھی ۔لیکن جب ہم پہنچے تو سب کیلئے مسلسل انکار ہورہاتھا ۔ صرف ہم ہی نہیں اس روز القدس کے ہزاروں مسلمان مسجد اقصی میں داخل ہونے کی کوشش کررہے تھے ۔ بازاروں میں بہت شور مچا ہوا تھا ۔ نعروں کی آوازوں سے پورا علاقہ گونج رہاتھا۔ مسجد اقصیٰ بند ہونے کی وجہ سے وہاں اذان ہوئی نہ جماعت ۔ اور ایسا تقریباً 59سال بعد ہوا ۔کہ مسجد اقصیٰ میں جمعہ بھی ادا نہیں ہوسکا اور نہ ہی کوئی اذان و نماز ۔لیکن حسب دستورجب آپ ایک سیدھے راستے کو بند کردیں گے تو لوگ اس کا متبادل نکال لیں گے ۔اور نہیں تو افواہوں کوپھیلنے سے کوئی نہیں رو ک سکتا ۔اذان اور وہاں نماز کے ضمن میں کئی قسم کی باتیں پھیلی ہوئی تھیں کہ ہر نماز کے وقت مسجدکے اندر سے اذان کی آواز سنائی دیتی تھی ۔کسی بندہ بشر کو مسجد میں جانے کی اجازت نہ تھی تو یہ اذان کون دیتا تھا…اس سوال کے جواب میںآپ کو معلوم ہے کتنے جوابات سنائی دیتے ہیں ۔ خوش اعتقادی کے سوا جن کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی ۔بعض لوگ بہت ہی خوش اعتقاد ہوتے ہیں ۔میں نے ایک فلسطینی عالم دین نوجوان الہاشمی ہوٹل کے مالک سے اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے مسکراکرکہا ایسی تو کوئی بات نہیں ہوئی البتہ میں کسی نہ کسی طرح مسجد پہنچ جایا کرتاتھا اور باہر چبوترے پر کھڑا ہوکر اذان کہدیتا تھاشاید لوگوں نے میری آواز کو کسی باہر والی چیز کی آواز سمجھ لیاہو میں اکیلا اذان کہتااوراکیلا ہی جماعت کرالیا کرتاتھا ۔ یہ بڑے بہادر شخص تھے ۔ جب ہر طرف سے سیکیورٹی کا پہرہ ہو اور ایک آدمی کسی نہ کسی طریقے سے مسجد میں داخل ہوکر چبوترے پر کھڑے ہوکر اذان کہے تو کسی طرف سے گولی آسکتی ہے لیکن یہ مسلمان کیلئے اعزازکی بات ہے کہ دوران اذان اس کی شہادت ہوجائے۔