• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جدید سیکولر جمہور یہ کا تشخص کھو کر ہندو بنیاد پرستی کی جانب تیزی سے اور کھلم کھلا مائل مودی کا بھارت آج جنگی جنون میں مبتلا ہو کر پھر بھڑک رہا ہے۔ 7عشروں کے بعد بھارت جدید دنیا میں اپنے بنے ’’سب سے بڑی جمہوریہ‘‘ کے تشخص کو بذریعہ ووٹ رد کر کے بطور قوم ’’ہندوتوا‘‘ (مکمل ہندو بھارت) کے نعرے پر جس طرح بذریعہ مینڈیٹ بنیاد پرست ہندو ریاست بن گیا ہے اس نے ہندو کی ہمیشہ سے زیر بحث رہنے والی تنگ نظر ذہنیت کی حقیقت کو جدید تاریخ میں بھی ایک بار پھر بے نقاب کر دیا۔ ہندو سیاست کی اسی حقیقت کا ادراک حضرت قائداعظمؒ نے کانگریس میں رہتے ہوئے ہی کر لیا تھا اور سرسید احمد خاں کی دور بینی تو کمال کی تھی، جس نے ہندوستانی مسلمانوں کو جدید علوم سے نوازتے، نوازتے، ہندو کی تنگ نظری اور مسلمانوں کی جانب شدید تعصب کی حقیقت کو پڑھتے ہوئے ساتھ ساتھ اپنے دل میں ’’جداگانہ انتخاب‘‘ کاپوشیدہ ایجنڈا بھی تیار کر لیا جو اُن کے انتقال سے قبل (جبکہ مسلم لیگ کا وجود بھی نہیں تھا) مطالبے کی شکل اختیار کر کے اُن کے دل سے باہر نکل کر مسلمانان ہند میں اپنے جدگانہ تشخص کے احساس میں ڈھلتا گیا۔ قبل از انتقال سرسید احمد خاں کا فرنگی راج کے نئے سیاسی نظام میں مسلمانان ہند کی جگہ محفوظ کرنے کے لئے جداگانہ انتخاب کا مطالبہ کر دیا تھا اسی کی بنیاد پر مسلم دانشوروں میں اپنے تشخص کے احساس اور ہندو کے واضح تعصب اور سازشی ذہن نے ’’نئے سیاسی نظام‘‘ میں جگہ بنانے کے لئے برصغیر کے مسلمانوں کی پہلی سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام ممکن ہو گیا۔ سینکڑوں سال کی مغلیہ سلطنت کی تحلیل کے بعد فرنگی راج کی طاقت اور بھاری ہندو اکثریت کو اس کی مقامی معاونت اور مسلمانوں کے مقابل فرنگی دور کی قبولیت ایک قدرتی امر تھا کہ ہندو مت، انسانی معاشرے کی نسل و رنگ و زبان اور ذات پات کی تقسیم اور اونچ نیچ کی مکروہ اور غیر انسانی فلاسفی سے گھڑا گیا تھا، اس کے مقابل مسلمانان ہند نے صدیوں حکمران ہو کر بھی معاشرتی سطح پر سیکولر مزاج اور روایتی اسلامی فراخدلی جس کی انتہاء اسپین کے 800سالہ سنہری مسلم دور میں دیکھی گئی اور سب سے بڑھ کر سماجی مساوات (جو آج کی جدید دنیا میں مہذب اقوام کا نظریاتی تشخص ہے) کی حقیقت کو بنیاد بنا کر جدید ہندوستان کو تقسیم کر کے اس میں اپنے حق خودارادیت کے حصول سے پاکستان قائم کیا۔ معاہدہ لکھنو اور اس کے بعد نہرو رپورٹ کی حقیقت کو جس طرح قائداعظم نے سمجھا اور اس کا جواب 14نکات کی شکل میں جس طرح دیا اس نے پاکستان کے قیام کو ممکن بنایا جس کو بنتے ہوئے حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ نے اپنی وفات سے ایک عشرہ پہلے دیکھ لیا اور پورے ہندوستان پر اسے واضح کر دیا۔

ہم اپنے اندرونی سیاسی خلفشار جسے ہم نے بذات خود غافل قوم کے طور پر بنگلہ دیش کے قیام میں تبدیل کیا اور اس کے بعد آئین بنانے میں کامیابی کے بعد بھی عشروں کی دھما چوکڑی میں مبتلا ہو گئے لیکن برصغیر کی جدید سیاسی تاریخ کی سب سے بڑی سیاسی حقیقت آج سات عشروں کے بعد دنیا پر اس طرح آشکار ہوئی ہے کہ ہندو کی تاریخی تنگ نظری اور تعصب اور ہندو مت کے خلاف انسانیت عدم مساوات اور معاشرتی تقسیم کے مذہبی عقیدے کی ’’جدید سیکولر جمہوریہ‘‘ میں لپیٹی گئی ہندو ذہنیت پھر بطور قوم بے نقاب ہو گئی۔ معاملہ ’’ہندوتوا‘‘ کے نعرے کو عمل میں ڈھالنے کے لئے ریاستی سرپرستی میں کتنے ہی اقلیت خصوصاً مسلم مخالف ریاستی اقدامات اور ایسے ہی انتہاء پسند ہندو سماجی رویے نے بھارت کو تو ہندو بنیاد پرستی میں جھونک دیا جس نے اب حکمرانی کی شکل اختیار کر کے ہندو سماج کے تاریخی تشخص، مذہبی تعصب اور ذات پات پر مبنی ہندو بھارت کو پھر سے نئے تشخص، سیکولر جمہوریہ سے نکال کر ’’ہندو توا‘‘ میں جکڑ دیا ہے تو دوسری جانب اسلامی جمہوریہ پاکستان جو آج تک پاکستان کے ہر متنازع اور آج کے متفقہ آئین کا مشترکہ تشخص تو رہا لیکن مملکت اس کے برعکس اسلامی جمہوریہ نہیں بن پا رہی تھی، جس سے پاکستان بھارت دشمنی کے متوازی اپنی ہی قومی غیر ذمہ داری اور دھما چوکڑی سے آلودہ ہوتا گیا لیکن پاکستان کے قیام کی ایک اٹل حقیقت یہ ہے کہ یہ مملکت خداداد ہر نازک اور بحرانی کیفیت میں حاصل بھاری نقصانات کے بعد ڈگمگاتی ہوئی پھر سنبھل جاتی ہے۔ جیسے مشرقی پاکستان کھونے کے بعد اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم نے اور ہمارے اپنے قومی اتحاد نے ہمیں ایٹمی طاقت اور متفقہ آئین بحوالہ اسلامی جمہوریہ سے نوازا۔ ملاحظہ فرمائیں بھارت جدید سیکولر جمہوریہ کی راہ پر چلتے چلتے 65سال بعد اپنی بدنیتی، تاریخی تشخص کو قائم رکھتے اور پاکستان کے خلاف مسلسل سازشیں کرتا، کشمیریوں پر ظلم و ستم ڈھاتا ڈھاتا بنیاد پرستی کو بذریعہ عام انتخابات اختیار کر کے اپنے ان جملہ کرتوتوں کی انتہاء پر پہنچ کر آج جنگی جنون کی آگ میں بھڑک رہا ہے تو پاکستان اپنے اسلامی جمہوریہ کے تشخص پر ریاست مدینہ کی راہ اختیار کرتے ہوئے اس حقیقی پاکستان کی راہ پر آ گیا ہے جس کے قیام کی سیاسی تحریک کی بنیاد سرسید کے جدگانہ انتخاب کے مطالبے پر رکھی گئی پھر قائداعظم محمد علی جناحؒ کی دلیل کی طاقت و ذہانت اور کمال وکالت مسلمانان ہند کی پُر اثر ابلاغی معاونت اور اقبال کے خواب نے شرمندہ تعبیر ہو کر پاکستان بنا دیا، دوسری جانب بھارت نے بھارت ہی بن کر تقسیم ہند کے متفقہ ایجنڈے کو مکمل نہ ہونے دیا کشمیر کے بڑے حصے کو قبضے میں لے کر اسے عسکری قوت سے مقبوضہ ہی رکھنے پر اپنا سارا زور لگا دیا۔ لگا دیا تو یہ جدیدرہا، سیکولرنہ جمہوریہبلکہ بنیاد پرست بن گیا۔ بن گیا تو مقبوضہ کشمیر ہی بھارت کے لئے آتش فشاں بن گیا بھارت کے لئے نہیں، بقول سابق امریکی صدر کلنٹن کے ’’مسئلہ کشمیر عالمی سیاست کا فلیش پوائنٹ ہے‘‘۔ آج مودی کو بھارتی دانشوروں میں سے کچھ سمجھانے کی جرأت کر رہے ہیں کہ کشمیر پر بھارتی قبضے کے خلاف کشمیریوں کا جذبہ حریت اور پاکستان کی معجزاتی طور پر تیار عسکری طاقت بھارت کے لئے عظیم خطرہ بن گئی ہے، لیکن جس طرح مودی اور اس کی انتہاء پسند حکمران جماعت نے بھارت میں مسلم وجود اور پاکستان کا ہوا کھڑا کیا، اب وہ ایک انتہاء پسند قیادت کے ہاتھوں اپنے تمام تر پوٹینشل اور قابل اطمینان صلاحیتوں کی بنیاد پر قیادت کی خطرناک چالاکیوں کے شاخسانے میں دہک رہا ہے، اسی طرح صابر شاکر اور عاقل پاکستان اپنے تمام تر بحرانوں، غفلتوں اور کوتاہیوں کے باوجود موجود منتخب دیانت دار، انسان دوست اور سحر انگیز قیادت میں حقیقی اسلامی جمہوریہ بنتا نظر آ رہا ہے۔ جتنی واضح بھارت کی بڑھک ہے، اتنا آشکار پاکستان کے اصل تشخص کی اختیاریت کا سفر۔ ایک طرف جنگی جنون، دوسری جانب تابناکی کا سفر۔

تازہ ترین