سپریم کورٹ کے سبکدوش ہو رہے چیف جسٹس، جسٹس ثاقب نثار کے اعزاز میں ہونے والے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے موجودہ چیف جسٹس، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ بھی اپنے پیشرو چیف جسٹس کی طرح ڈیم بنانا چاہتے ہیں۔ حاضرین کے چونک جانے پر انہوں نے اپنے ارادوں کی وضاحت کچھ ان الفاظ میں کی ’’میاں صاحب (جسٹس ثاقب نثار) نے ایک موقع پر علی الاعلان کہا تھا کہ ان کی زندگی کے دو ہی مقصد ہیں، ڈیم بنانا اور ملکی قرضے اتارنا۔ میں بھی چند ڈیم بنانا چاہوں گا۔ مقدمات کے غیر ضروری التوا کو روکنے کیلئے ڈیم، غیر سنجیدہ مقدمات دائر کرنے کیخلاف ڈیم، جعلی گواہوں اور غلط شہادتوں کیخلاف ڈیم۔ اور میں بھی قرض اتارنے کی کوشش کرونگا، زیر التوا مقدمات کا قرض جنہیں پہلی فرصت میں نمٹایا جانا چاہئے‘‘۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ حسبِ توقع اپنی دھُن کے پکے نکلے اور سیاسی نوعیت کے معاملات میں خود کو اُلجھانے کے بجائے اپنی توانائیاں عدالتی فرائض کی انجام دہی کیلئے بروئے کار لا رہے ہیں۔ ایک ماہ سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود نہ تو کوئی از خود نوٹس لیا گیا اور نہ ہی اسپتالوں کے دورے کرکے ’’چیف تیرے جانثار، بیشمار بیشمار‘‘ کے نعرے لگوانے کی کوشش کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کی میڈیا کوریج میں واضح کمی آئی ہے اور ماضی کے برعکس نیوز چینلز کا پرائم ٹائم اور اخبارات کی شہہ سرخیاں چیف جسٹس کے گرد گھومتی دکھائی نہیں دے رہیں۔
اگرچہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نہایت یکسوئی سے وہ ڈیم بنانے کے لئے انتھک کوشش کر رہے ہیں جن کا انہوں نے وعدہ کیا تھا مگر ابھی تک اس حوالے سے کوئی خاص پیشرفت نہیں ہو سکی۔ مثال کے طور پر یکم جنوری کو سپریم کورٹ میں 41102مقدمات زیر التوا تھے، 15جنوری تک چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 1362مقدمات نمٹا دیئے گئے، یوں زیر التوا مقدمات کی تعداد 39742رہ گئی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھایا تو 38750مقدمات زیر التوا تھے۔ غیر ضروری معاملات سے دور رہنے کے باوجود جنوری کے آخری دو ہفتوں میں 599زیر التوا مقدمات نمٹائے جاسکے ہیں جن میں 3(184) کے تحت دائر کی گئی 556آئینی درخواستیں بھی شامل ہیں جبکہ 105کریمنل کیسز کا فیصلہ کیا گیا مگر اس دوران 940نئے مقدمات سپریم کورٹ میں دائر ہو گئے اور یوں زیر التوا مقدمات کی تعداد 39091ہو گئی ہے۔ گزشتہ ماہ کے دوران مقدمات دائر ہونے کی تعداد میں غیر معمولی اضافے کی ایک وجہ تو یہ بھی ہے کہ سابقہ چیف جسٹس کے دور میں جو متنازع فیصلے صادر ہوئے، متاثرین ان پر نظر ثانی کی درخواستیں دے رہے ہیں مگر زیر التوا مقدمات کا قرض اتارنے کیلئے ضروری ہے کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کے وژن کے عین مطابق غیر ضروری اور غیر سنجیدہ نوعیت کے مقدمات دائر کرنے والوں کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی جائے۔ گزشتہ دو سال کے دوران جوڈیشل ایکٹو اِزم کے نام پر جو شور مچایا گیا، بہتر ہوگا کہ اس حوالے سے بھی کوئی لارجر یا پھر فل کورٹ بنچ تشکیل دیا جائے جو متنازع فیصلوں کا جائزہ لے اور آئندہ کیلئے کچھ اصول متعین کر دیئے جائیں۔ سپریم کورٹ کے ہی دو جج صاحبان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منصور علی شاہ اپنے تحفظات کا برملا اظہار اختلافی فیصلوں کے ذریعے کر چکے ہیں بلکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تو شیخ رشید نااہلی کیس میں تحریر کئے گئے اختلافی نوٹ میں سات قانونی نکات اٹھاتے ہوئے تجویز دی تھی کہ اس حوالے سے فل کورٹ بنچ تشکیل دیا جائے۔
دوسری طرف سابق چیف جسٹس کا ڈیم منصوبہ بھی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ سابق چیف جسٹس، جسٹس (ر) ثاقب نثار نے دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کا بیڑا اُٹھایا اور 6جولائی 2018ء کو سپریم کورٹ کی طرف سے ڈیم فنڈ قائم کیا گیا بعد ازاں وزیراعظم عمران خان بھی اس مہم جوئی کا حصہ بن گئے اور اس ڈیم فنڈ کا نام تبدیل کرکے ’’سپریم کورٹ آف پاکستان اینڈ پرائم منسٹر آف پاکستان دیامیر بھاشا اینڈ مہمند ڈیم فنڈ‘‘ کر دیا گیا۔ لیکن چیف جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے بعد ڈیم فنڈ کا گراف مسلسل نیچے آ رہا ہے اور جمع ہونیوالے فنڈز میں کمی آ رہی ہے۔ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر ڈیم فنڈ کا اسٹیٹس روزانہ بتایا جاتا ہے اور 24فروری 2019ء تک فراہم کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق اس ڈیم فنڈ میں 9ارب 86کروڑ روپے موجود ہیں۔ 17جنوری کو جب جسٹس ثاقب نثار سبکدوش ہوئے تو ڈیم فنڈ میں 9ارب 28کروڑ موجود تھے یعنی ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد 37دن میں روزانہ ڈیڑھ کروڑ روپے کی اوسط سے 58کروڑ روپے جمع ہوئے جبکہ اس سے قبل روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً 5کروڑ روپے اکٹھے ہو رہے تھے۔ اسکا مطلب ہے کہ ڈیم فنڈ کیلئے دیئے جانیوالے عطیات میں 70فیصد کمی آئی ہے اور اس رجحان کو دیکھتے ہوئے ڈیم فنڈ کے گراف میں مزید کمی متوقع ہے۔مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور لٹریری فیسٹول میں آبی مسائل سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا تازہ ترین موقف یہ ہے کہ ڈیم فنڈ قائم کرنے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ چندے کی رقم سے ڈیم تعمیر کیا جائیگا بلکہ یہ قدم تو آگہی کی غرض سے اٹھایا گیا۔ وہ جو چاہیں کہہ سکتے ہیں کیونکہ ان کا تعلق ریاست کے جس ستون سے ہے اس پر نہ تو آرٹیکل 62,63کا اطلاق ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی تقریریں باعثِ گرفت ہوتی ہیں۔ ویسے وہ بہت بڑے دل کے مالک ہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد بھی حکومت کی رہنمائی سے دستبردار نہیں ہوئے۔ انکی اس بات میں بھی ایک طرح کا لطیف اشارہ مضمر ہے اور اس سے وزیراعظم عمران خان سمیت انکی پوری کابینہ مستفید ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اس بات کو نظیر بنا کر وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر یہ موقف اختیار کر سکتے ہیں کہ انہوں نے معیشت کا قبلہ درست کرنے کی جو باتیں کی تھیں ان کا مقصد دراصل معاشی ترقی کے حوالے سے شعور پیدا کرنا تھا۔ عمران خان یہ تاویل پیش کر سکتے ہیں کہ انہوں نے نئے پاکستان یا ریاستِ مدینہ کا جو ایجنڈا دیا، اس کا مقصد صرف لوگوں میں شعور و آگہی بیدار کرنا تھا۔