بچے ہرگھرکی رونق اورخاندان کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ تاہم صرف بچوں کی پیدائش ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ ماں اوربچے کاصحت مند ہونابھی اتناہی ضروری ہے جتناکہ بچے کادنیامیں آنا۔ بچوں کاصحت وتندرستی کے ساتھ دنیامیں آنا ہرماں باپ کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ جب بچوں کی پیدائش میں وقفہ کی بات کی جاتی ہے توخاندانی منصوبہ بندی کی بات ذہن میں آتی ہے اور اس کے پیچھے کوئی سازش نظرآنے لگتی ہے۔ لیکن ان سب باتوں سے درکنار اگریہ سوچاجائے کہ عورت جوبچے کو9ماہ اپنی کوکھ میں رکھ کراسے پروان چڑھاتی اور جنم دیتی ہے، پھراس کی پرورش،رضاعت اورنگہداشت بھی اسی کی ذمہ داری ہے تو کیاوہ اس بات کی حقدارنہیں کہ سارے عرصے میں اس نے جوتکلیفیں سہی ہیں اورجن کمزوریوں کاوہ شکارہوئی ہے پہلے اس کاازالہ کرلیاجائے۔
وقفہ ضروری ہے
امریکی میڈیکل ایسوسی ایشن کے جریدے جاما (JAMA) میں شائع ہونے والی ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق 2004ء سے 2014ء کے درمیان پیدا ہونے والے بچوں کا وزن اس لیے کم رہا کیونکہ پہلے بچے کی ولادت کے بعد اگلے حمل کے درمیان کم از کم ڈیڑھ سے دو برس کا وقفہ اختیار نہیں کیا گیا تھا۔ ریسرچ رپورٹ ڈیڑھ لاکھ حاملہ خواتین کے ہاں ولادت کے حوالے سے جمع کیے گئے اعداد و شمار کی روشنی میں مرتب کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، ڈیڑھ سال سے دو برس کا وقفہ کسی بھی بالغ عمر کی خاتون میں حمل ٹھہرنے کے لیے ضروری ہے اور معالجین کا خیال ہے کہ 30سے 40برس کی خواتین کو بچے کی ولادت میں اتنا وقفہ لانا بہت ضروری اور لازمی ہے کیونکہ دوسری صورت میں حمل کے قیام کے دوران ’میٹرنل‘ پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ کینیڈا کی برٹش کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر لارا شومرز نے اس رپورٹ کو مرتب کیا ہے۔
لارا شومرز کا کہنا ہے کہ35برس یا اِس سے زائد عمر کی خواتین بچے کی پیدائش چاہتی ہیں تو اس میں خطرات اور پیچیدگیوں کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں جب کہ اس حد سے کم عمر کی خواتین میں بعض ’میٹرنل‘ پیچیدگیوں کا پیدا ہونا کم ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ ضرور واضح کیا کہ 20سے 34برس تک کی خواتین میں حمل کے دوران بچے کی نشو و نما اور پیدائش کے عمومی خطرات اپنی جگہ موجود رہتے ہیں۔
ریسرچر لارا شومرز کا کہنا ہے کہ 35یا اس سے زائد عمر کی خواتین میں ایک بچے کی ولادت کے بعد اگلے حمل کے تیسرے، چھٹے اور نویں مہینے میں ’میٹرنل‘ پیچیدگیوں کا پیدا ہونا ایک یقینی امر قرار دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے20سے 34برس تک کی خواتین میں حمل کے درمیانی وقفے کو 12سے 18ماہ تک رکھنے کو بھی مناسب خیال کیا۔
لارا شومرز کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ کسی بھی خاتون میں ایک بچے کی ولادت کے چھ ماہ بعد جو حمل ٹھہرتا ہے، وہ کسی حد تک کمزور ہو سکتا ہے اور 59فیصد ایسے حمل کا ضائع ہونا ممکن ہے۔
غذائی قلت
یہ کہناغلط نہیں کہ ہمارامعاشرہ غذائی قلت کاشکارہے۔ متوسط طبقے کی آمدنی اتنی کم ہے کہ گھریلو اخراجات ہی پورے نہیں ہوتے تو حاملہ عورت جسے اضافی غذائی اشیا کی ضرورت ہوتی ہے، وہ کہاں سے پوری کرے۔ غذائی قلت ماں کی صحت کوتباہ کردیتی ہے کیونکہ قدرتی طورپربچے کی افزائش کاعمل کچھ ایساہے کہ بچہ تو ماں سے اپنی غذائی ضرورت پوری کرلیتاہے لیکن ماں کمزورسے کمزورترہوتی چلی جاتی ہے۔ بچے کی افزائش، پرورش اور بہتر نشوونما کے لیے ماں کی صحت کابہترہونابھی ضروری ہے۔
ناقص غذائیں
ہم میں سے سب یہی چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے صحت مند ہوں تاکہ آنے والامستقبل مضبوط اور توانا ہاتھوں میں ہولیکن اگرماں ہی صحت مند نہیں ہوگی تو بچہ خود بخود کمزوراورخدانخواستہ کسی جسمانی نقص کے ساتھ بھی دنیامیں آسکتاہے۔ آج جوغذائیں ہماری خواتین کھاتی ہیں پہلی چیز تویہ ہے کہ وہ خالص نہیں ہوتیں اوردوسری یہ کہ اگرکہیں خالص اشیا دستیاب بھی ہوں توبہت سارے خاندانوں میں انھیں خریدنے کی سکت نہیں ہوتی۔ بچے کی پیدائش کاعرصہ یعنی پورے 9ماہ ایک ماں ہی اپنے بچے کوغذا فراہم کرتی ہے۔
رضاعت کی عمر
ماں کو بچے کی پیدائش سے لے کر دوسال کی عمر تک اپنادودھ پلاناچاہیے۔ اگرایسی صورت میں عورت دوبارہ حاملہ ہوجائے تو طبیعت کی خرابی اورغذاکی کمی کی وجہ سے معصوم بچے کادودھ چھڑوادیاجاتاہے، جوماں کی صحت کے ساتھ ساتھ بچے کی صحت کوبھی شدید نقصان پہنچاتاہے۔ ایک بچے کی پیدائش کے بعد اگردوسال کے اندراندردوبارہ حمل ٹھہرجائے اورماں اپنے پہلے بچے کوبھی دودھ پلاتی ہوتوایسی صورت میں ڈاکٹراسے اضافی غذالینے کامشورہ دیتے ہیں۔ تاہم اگروہ ایسانہ کرے توجو بچہ دنیامیں آنے والا ہے اور خودماں کی صحت بُری طرح متاثرہوتی ہے۔