میں جب جنوبی ایشیا کے بارے میں سوچتا ہوں تو دل پر ایک عجیب قسم کی اداسی اور شکستگی کا غبار چھا جاتا ہے۔ اپنی گفتگو میں میں یہ کہتا ہوں کہ ہمالہ کے سائے میں یہ جو ملک ہیں ان کی شاید تقدیر ہی خرا ب ہے۔ سری لنکا کے بارے میں کسی نے یہ بات کہی تھی کہ یہ تو جنوبی ایشیا کی آنکھ سے ٹپکا ہوا ایک آنسو ہے۔ نقشہ دیکھیں۔ یہی لگتا ہے۔ اس برصغیر نے دنیا کی اتنی بڑی آبادی کو اپنے تاریک دامن میں سمیٹ رکھا ہے۔ آپ یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہمالہ کی فصیل نے اس پورے علاقےکو باقی دنیا سے الگ کردیا ہے۔ گزرتے وقت کے ان طوفانوں سے محفوظ رکھا ہے کہ جو تاریخی تبدیلیوں کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔ ہمالہ کے ذکر سے اقبال کا یاد آنا لازم ہے۔ یہ توان کے پہلے مجموعے( بانگ درا) کی پہلی نظم کا عنوان ہے۔ اور یہ جنوبی ایشیا ہی تو ہے جسے اقبال نے کوئی سواسوسال پہلے کشورہندوستان کہاتھا۔ میری نظر میں یہ نظم بھی اقبال کا ایک خواب تھی کہ یہ سرزمین کیسے اپنی کھوئی ہوئی عظمتوں کودوبارہ حاصل کرسکے گی۔ آخر کواس کا دامن ’’ مسکن آبائے انساں ‘‘ بھی تو تھا۔ اور یہی بات ہم کہتے ہیں کہ جنوبی ایشیا دنیا کی قدیم تہذیبوں کا گہوارہ ہے۔ لیکن ہمالہ کے اس پار کے گراں خواب چینی تو سنبھل گئے۔ اور اتنے سنبھلے کہ معاشی ترقی کا ہمالہ پہاڑ بن گئے۔ ہم یعنی جنوبی ایشیا کے ملک انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہونے کے بعد بھی جیسے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔
آپ شاید یہ کہیں کہ جنوبی ایشیا کی جو تصویر میں پیش کررہا ہوں وہ حقائق پر مبنی نہیں ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ میرا اشارا جنوبی ایشیا کے دوبڑے ملکوں یعنی ہندوستان اور پاکستان کی طرف ہے۔ ایک تو یہی کمال کی بات ہے کہ یہ دونوں ملک جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ملکوں میں ایجاد اور اختراع کی سائنسی صلاحیت موجود ہے۔ اگر آپ یہ سوچیں کہ یہ دونوں ملک اپنے جوہری ہتھیاروں سے خود کو ہی نہیں بلکہ شاید پوری دنیا کو نیست ونابود کرسکتے ہیں تو یہ خیال آئے گا کہ یہ ملک تو جو چاہے کرسکتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اگر یہ چاہیں تو اپنے ملکوں سے مفلسی اور جہالت کا خاتمہ کردیں۔ انسانی رشتوں کی حرمت کو برقرار رکھیں اورعام شہریوں کی زندگی کے معیار کو ایسے ہی بلند کردیں جیسے وہ اپنے قومی پرچم کو بلند رکھنا چاہتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس دیوانگی سے چھٹکارا حاصل کرلیں جس کا اظہار اس خطے کے عوام نے1947کے فسادات کے دوران کیا تھا گو تب بھی انسانی روایات کوزندہ رکھنے کی کئی مثالیں دیکھی گئی تھیں۔ لگتا یہ ہے کہ ہم ابھی تک1974کے طلسم سے آزاد نہیں ہوپائے ہیں جبکہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ اس کا اندازہ لگانے کے لئے میں ایک مشق تجویز کرتا ہوں۔ تاریخ کا نقشہ بچھائیں اور دیکھیں1947میں دنیا کس حال میں تھی۔ چین کے تو انقلاب کوبھی ابھی دوسال باقی تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کودوسال گزرے تھے اور یورپ کے کئی شہروں میں تباہی کے آثار موجود تھے۔ اب جو ملک جنوبی کوریا، سنگاپور اور ملائیشیا بن کراپنی چمک دمک سے ہمیں حیران کررہے ہیں ان کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ اب یہ دیکھئے کہ دنیا کہاں ہے اور ہم کہاں ہیں۔ 1947میں دنیا جنوبی ایشیا کے رہنمائوں کی سمجھ بوجھ سے کتنی متاثر تھی۔ گاندھی، جناح اورنہرو جیسی قدآور شخصیات یہاں موجود تھیں۔ اب دنیا مسلسل اس تشویش میں مبتلا رہتی ہے کہ یہ دونوں جوہری ملک اگر سچ مچ لڑ پڑے تو پھر کیسی قیامت ٹوٹے گی۔ اور اسی لئے جب بھی جنوبی ایشیا پر جنگ کے بادل منڈلاتے ہیں (اور افسوس کہ یہ بار بار ہوتا ہے) تو عالمی طاقتیں درپردہ مداخلت کی کوشش کرتی ہیں۔
آپ کہیں گے کہ اتنے ڈرامائی واقعات اس ہفتے رونما ہوئے ہیں۔ اور میں تاریخ کے دھندلکوں میں نہ جانے کیا ڈھونڈرہا ہوں۔ تو عرض یہ ہے کہ کسی حد تک ان دونوں بدنصیب ملکوںکے تعلقات اب تاریخ کی ایک پہیلی بن گئے ہیں۔ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کا حل واقعی کیا ہے۔ ہاں، جمعرات کو پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے گرفتارہندوستانی پائلٹ کورہا کرنے کا جو ڈرامائی اعلان کیا اس نے دنیا کی نظروں میں پاکستان کی امن کی خواہش کو واضح طور پر اجاگر کیا ہے۔ بدھ کے دن ہندوستان کے دو لڑاکا طیارے گرانے اور ایک پائلٹ کو زندہ گرفتار کرلینے کا مطلب تویہی ہے کہ پاکستان کمزور نہیں ہے۔ اس طرح یہ ہماری اخلاقی فتح ہے اور یوں امن کے لئے مذاکرات کے ایک نئے دور کے آغاز کاامکان روشن ہوا ہے۔ پھر بھی،ذرا اس اخبار کی جمعہ یعنی کل کی شہ شرخی دیکھ لیں ’’ عمران امن، مودی جنگ کے خواہش مند‘‘۔ اور سب کی سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ مودی دوڈھائی مہینے بعد ہونے والے انتخابات میں اپنی انتہا پسند ہندوجماعت کی کامیابی کی کوشش میں اپنے عوام کے جنونی جذبات سے کھیل رہے ہیں۔ یہ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ دونوں ملکوں میں نفرت اور جنگجو خیالات کی آبیاری کی جاتی رہی ہے۔ اس محاذ پر ہندوستان کا پلہ بھاری ہے کیونکہ مودی جیسا مذہبی منافرت کا علم بردار ہندوستان کا وزیر اعظم بن سکتا ہے جب کہ پاکستان میں بی جے پی جیسی جماعت کا برسراقتدار آنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
کشیدگی کم کرنے کے لئے پاکستان نے جو بڑا قدم اٹھایا ہے اس کے باوجود صورت حال کی بے یقینی برقرار ہے۔ دل ڈرتا ہے کہ پتا نہیں کب کیا ہوجائے۔ کئی اہم ملکوں کی سفارتی کارروائیاں جاری ہیں۔ ایک سوال مسلسل ہمارا منہ چڑاتا ہے کہ اگر دوجوہری ملکوں کے درمیان جنگ ناممکن ہے تو پھر ایک منصفانہ اور باعزت امن کیوں ممکن نہیں ہے؟بظاہر کشمیر کا مسئلہ امن کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ لیکن اگر دشمن، دشمنی سے باز نہ آنے کا عہد کرلیں تو ان کے پاس کئی بہانے ہوسکتے ہیں۔ دیدہ ور مبصر امن کے ثمرات کی بہت بات کرتے ہی۔ عمران خان نے بھی مودی سے یہ کہا تھا کہ آئیے ہم مل کر غریبی کے خلاف لڑتے ہیں۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ وہ کونسی قوتیں ہیں جو غربت اور پسماندگی کے خلاف اس جنگ کو ہونے نہیں دیتیں۔ اور پتا نہیں ان قوتوں کی مکمل پسپائی کوابھی کتنے دن لگیں گے۔ لیکن وہ صبح کبھی تو آئے گی۔ کم ازکم مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایک نہ ایک دن یہ دونوں ملک اپنے اپنے مفاد میں امن اور دوستی کا دامن تھام لیں گے۔ انگریز حکمرانوں کے خلاف جب آزادی کی تحریک جاری تھی تو یہ طے تھا کہ آزادی ملے گی۔ بس یہ دیکھنا تھا کہ کب اور کیسے۔ جنوبی افریقہ کی سیاہ فام اکثریت جب اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی تھی اور جابر حکمرانوں کے بے پناہ ظلم سہہ رہی تھی تب بھی سب کو یقین تھا کہ ایک دن تاریخ اپنا فیصلہ صادر کرے گی۔ سو ہم بھی اس جنوبی ایشیا میں تاریخ کے فیصلے کا انتظار کررہے ہیں۔ پتا نہیں کب۔ پتا نہیں کیسے۔ ایک دن ایسا آئے گا جب لوگ سوکر اٹھیں گے تو دیکھیں گے کہ دنیا بدل گئی ہے۔ ہاں، شب فرقت کے جاگنے والے یہ سوچ سکتے ہیں کہ صبح نہ ہوئی تو وہ کیا کریں گے۔