• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ برس سے سعودی عرب میں درجنوں کمپنیاں اقتصادی مسائل سے دوچار ہیں ،جہاں کام کرنے والے سیکڑوں پاکستانی کارکنوں کو کئی ماہ سے تنخواہ نہ ملنے کی شکایت ہے۔حال ہی میں اک فوٹیج سوشل میڈیا پہ گشت کرتی رہی کہ کچھ کارکنوں نے پریشانی کے عالم میں ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ بھی کی ہے، تاہم اس میں کسی پاکستانی ورکر کے ملوث ہونے کا ثبوت نہیں ملا۔چند ماہ قبل بھی ایسا آرامکو کے بڑے کنسٹرکشن پروجیکٹ پہ کنسٹرکشن کمپنی الخضری اور الزمیر کمپنی کے ایک کیمپ سے تعلق رکھنے والے، انڈیا، بنگلہ دیش،پاکستان، مصری ، فلپائن اور دیگر ممالک کے8000 سے زائد ورکرز نے کیمپ کابیرونی دروازہ بند کرکے ہڑتال کی صورت پیدا کی۔ ان کا بنیادی مطالبہ تنخواہوں کی ادائیگی کا تھا،بگڑتی ہوئی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس وقت کے سفیر پاکستان خان ہشام بن صدیق نے کمیونٹی ویلفیئر و لیبر اتاشی محمود لطیف کو اپنی ٹیم کے ساتھ کیمپس کے دورے کی ہدایت کی،اس موقعے پر محمود لطیف نے بتایا ہے کہ انہوں نےکمپنی منیجمنٹ اور مقامی لیبر آفیسروں سے ملاقات کی ہے اور تمام معاملات سے آگاہ کیا ہے ۔اس بار بھی نئے سفیر پاکستان مرزاعلی اعجاز نے اپنی ذمے داری سنبھالتے ہی الجبیل دمام میں اس کیمپس کادورہ کرنے کی ہدایت کی دورےکے بعد محمود لطیف نے کہا کہ بعض سوشل میڈیا لنکس صورتحال کو بڑھا چڑھاکر پیش کررہے ہیں ،جو انتہائی خطرناک بات ہے اور اس سے دونوں ممالک کے تعلقات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ بھی ہے، انہوں نے پاکستانی محنت کشوں سے درخواست کی ،جس کے بعد تمام محنت کش اپنے کاموں پر واپس چلے گئے ہیں، مالکان نے گزشتہ 3 ماہ کی تنخواہیں ادا کردی ہیں اور آئندہ وقت پہ تنخواہوں کی ادائیگی کی جائے گی۔دوسری جانب ورکروں نے وزیراعظم عمران خان اور صدر پاکستان سے سعودی عرب میں پاکستانی محنت کشوں کے مسائل حل کرنے کےلئے اوورسیز مشیر کو یہاں آنے کی درخواست کی ہے،تاکہ وہ نہ صرف دمام، جبیل، ریاض بلکہ مکہ مکرمہ، جدہ، اور بہت سے شہروں میں رہنے والے پاکستانی محنت کشوں کے مسائل سنیں ان کا جائزہ لیں، اوپی ایف کو شامل کریں اور دونوں ممالک کے درمیان انسانی وسائل میں اضافے، فیس میں کمی، جیل میں قیدوبند، کفیلوں کے مسائل اور پاکستان مشن کے ساتھ کفیلوں کے وقتاًفوقتاً رابطے کے علاوہ بہت سے مسائل کے حل کے لیے دوطرفہ ایکٹیو کمیٹی تشکیل دیں۔حکومت جہاں اوورسیز پاکستانیوں کو معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کہتی ہے تو ان کے مسائل اور سہولتوں کی فراہمی پر بھی توجہ دے۔

سعودی عرب میں پاکستانیوں سمیت کام کرنے والے مختلف ممالک کے کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کےلئے وزارت عدل و انصاف نےحال ہی میں نئی قانون سازی کی ہے جس پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا ہے ۔ قانون کے مطابق وہ ادارے اور کمپنیاں جہاں کارکنوں کو تنخواہ اور واجبات کی ادائیگی میں غیر معمولی تاخیر ہوتی ہے ،ان پر جرمانے عائد کیے جائیں گےاور ان کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ ایک متاثرہ پاکستانی کو گزشتہ 3 ماہ یازائد عرصے سے تنخواہ نہیں ملتی تو ایسی صورت میں اس کا حق ہے کہ وہ لیبر کورٹ سے رجوع کرے، جہاں واجبات اور حقوق کے مخصوص شعبے میں شکایت درج کرائی جاسکتی ہے ۔ قانون کی شق نمبر 94 کے تحت ایسے اداروں کے خلاف فوری احکامات صادر کئے جاتے ہیں جن پر یہ ثابت ہوجائے کہ ان کی جانب سے کارکنوں کو بغیر کسی واضح سبب کے تنخواہیں ادا نہیں کی جارہیں ۔ عدالت ان اداروں کو مہلت دیتی ہے کہ وہ اس دوران اپنے کارکنوں کو تنخواہیں ادا کریں ،مقررہ وقت کے بعد اداروں اور کمپنی کی انتظامیہ و مالکان پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے ۔ جرمانے کی رقم سیٹزن اکاؤنٹ میں جمع کرائی جاتی ہے۔جہاں تک قونصلیٹ یا سفارتخانے سے تعاون کی بات ہے تو ان سے مدد لینا مفید ہو گا کیونکہ لیبر آفیس میں رابطہ کےلئے عربی زبان ہی استعمال ہوتی ہے جس کےلئے عربی جاننا لازمی امر ہے ، جو افراد عربی سے نابلد ہیں ان کے لئے دشواری ہوتی ہے ،جبکہ بعض موقع پہ ترجمان بھی مل جاتے ہیں، قونصلیٹ میں ترجمان( translator) کی سہولت فراہم کی جاتی ہے اس لئے بہتر ہے کہ لیبر آفس جانے سے قبل قونصلیٹ/سفارتخانہ کے شعبہ ویلفئیر سے رجوع کرکے انہیں صورتحال سے تفصیلی طور پر آگاہ کریںتاکہ وہ متاثرہ شخص کی صحیح طور پر مدد اور رہنمائی کرسکیں ۔ قونصلیٹ سے رجوع کرنے سے قبل ویلفیئر قونصلر کے نام درخواست تمام دستاویزی ثبوت کے ہمراہ منسلک کریں جن میں ملازمت کا معاہدہ ، اقامہ کاپی ، پاسپورٹ کاپی اور تنخواہ کی ادائیگی کا حساب وغیرہ ضروری ہے۔ یاد رہے کہ قانون غفلت برتنے والوں کا ساتھ نہیں دیتا اس لئے اپنے حقوق کے حصول کے لئے پوری معلومات کا ہونا ضروری ہے۔

محکمہ شماریات نے اعلان کیا ہے کہ 3ماہ کے دوران 3لاکھ سے زیادہ غیر ملکی سعودی مارکیٹ سے نکل گئے۔ محکمے نے یہ اعداد وشمار 2018ء کی تیسری سہ ماہی کے حوالے سے جاری کئے ہیں۔ ابھی 2018ءکی آخری سہ ماہی کے اعدادوشمار منظر عام پر آنا باقی ہیں۔تفصیلات کے مطابق 2018ءکی تیسری سہ ماہی کے دوران 3 لاکھ4 ہزار972 غیر ملکی لیبر مارکیٹ سے خارج ہوئے۔ اب ان کی تعداد 86لاکھ 22ہزار 890ہوگئی ہے جبکہ اس سے قبل ان کی تعداد 89لاکھ 27ہزار 862تھی۔ 9ہزار 696غیر ملکی کارکن خواتین کم ہوئی ہیں۔ اب ان کی تعداد 9 لاکھ 55 ہزار 165رہ گئی ہے جبکہ اس سے قبل سہ ماہی میں ان کی تعداد 9لاکھ 64 ہزار 861 تھی۔

سعودی عرب میں اقامہ قوانین کی سختی سے عملدرآمد ضروری ہے، محکمہ پاسپورٹ کا کہنا ہے کہ اقامہ کی تجدید میں تیسری مرتبہ تاخیر کرنے والے کو مملکت سے بیدخل کردیا جائے گا۔پہلی مرتبہ اقامہ کی تجدید میں تاخیر پر500ریال ، دوسری مرتبہ تاخیر پرایک ہزار ریال جرمانہ ہوگا جبکہ تیسری مرتبہ تاخیر کرنے پر اقامہ تجدید نہیں ہوگا۔ ریاض کے محکمہ پاسپورٹ کے سربراہ بریگیڈیئر محمد بن نایف الہباس نے بتایا کہ اقامہ کی تجدید میں تاخیر پر جرمانوں کی تفصیلات محکمہ پاسپورٹ کی ویب سائٹ پر درج ہیں جہاں واضح طور پر یہ شق بھی موجود ہے کہ اقامہ قوانین میں تیسری مرتبہ تجدید کرنے میں تاخیر کرنے والے کو مملکت سے بیدخل کردیا جائے گا۔ تیسری مرتبہ تاخیر پر کوئی عذر قابل قبول نہیں ہوگا۔ تارکین اور ان کے کفلاءکو چاہئے کہ ابشر (ای سسٹم) اور مقیم ویب سائٹ کے ذریعہ اقامہ کی تجدید کے ریکارڈ کا جائزہ لیتے رہیں تاکہ کسی مشکل میں نہ پھنس جائیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اقامہ ختم ہونے کے بعد تارک وطن سے کام نہیں لیا جاسکتا۔ اسے مملکت کے مختلف شہروں میں نقل وحرکت کی بھی اجازت نہیں۔ محکمہ پاسپورٹ نے تارکین اور کفیلوں کی سہولت کے لئے تمام کام آن لائن کر دیا ہے۔ دوسری طرف مملکت کے قانون کے مطابق اقامہ قوانین کی خلاف ورزی پر عام طور پر 3 برس کےلئے بلیک لسٹ کیا جاتا ہے جس کا نفاذ تمام خلیجی ممالک کے لئے ہوتا ہے ۔ اگر کسی کیس کے تحت مملکت سے بے دخل کیا گیا ہو تو اس صورت میں مخصوص کمیٹی جوگورنریٹ ، جوازات اور لیبر آفیس کے نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے وہ سزا کے علاوہ بلیک لسٹ کی مدت کا بھی تعین کرتی ہے۔

تازہ ترین