• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہید ذوالفقار علی بھٹو یونی ورسٹی آف لاء کے وائس چانسلر، پروفیسر جسٹس (ر) قاضی خالد سے بات چیت

(عکّاسی:اسرائیل انصاری)

کراچی کے علاقے، کلفٹن میں واقع، شہید ذوالفقار علی بھٹو یونی ورسٹی آف لاء، پاکستان کی پہلی لاء یونی ورسٹی ہے اور پروفیسر ڈاکٹر جسٹس(ر) قاضی خالد علی اس کے بانی وائس چانسلر ۔ قاضی خالد اس لحاظ سے امتیازی حیثیت کے حامل ہیں کہ وہ ایک کام یاب وکیل رہے، تو ہائی کورٹ کے جج کے طور پر دو سو سے زاید مقدمات کے فیصلے بھی سُنائے، پھر مختلف اداروں میں قانون پڑھانے کے ساتھ اقتدار کے ایوانوں میں عوام کی آواز بھی بنے۔ دو بار سندھ اسمبلی کے رُکن منتخب ہو کے وزیرِ تعلیم کے منصب پر فائز ہوئے۔چھے کتابوں کے مصنّف ہیں اور لکھنے لکھانے کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔گزشتہ دنوں ہماری اُن سے یونی ورسٹی کی کارکردگی، مستقبل کے منصوبوں اور پاکستان میں لیگل ایجوکیشن کی صُورتِ حال جاننے سے متعلق ایک خصوصی نشست ہوئی، جس کا احوال جنگ، سنڈے میگزین کے قارئین کی نذر ہے۔

س:اپنے خاندان، ابتدائی تعلیم و تربیت اور کیرئیر کے بارے میں کچھ بتایئے؟

ج: مَیں24اپریل1952ء کو کراچی میں پیدا ہوا۔ میرے آبائو اجداد نے تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ میرے والد زندگی بھر مسلم لیگ کا حصّہ اور نیشنل گارڈز میں بھی شامل رہے۔ مَیں نے کورنگی نمبر4کے ایک سرکاری اسکول سے میٹرک، ضیاء الدّین میموریل کالج سے انٹر، نیشنل کالج سے بی اے کیا۔ کراچی یونی ورسٹی سے اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹرز اور ایل ایل ایم کیا، جب کہ پرسٹن یونی ورسٹی، امریکا نے1999ء میں مجھے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری عنایت کی۔اُن دنوں جارج بش ریاست ٹیکساس کے گورنر تھے اور اُن کی منظوری ہی سے مجھے اس اعزاز سے نوازا گیا۔ 1980ء میں بہ طورِ وکیل میرے کیریئر کا آغاز ہوا۔ 1982ء میں ہائی کورٹ اور 1996ء میں سپریم کورٹ میں اِن رول ہوا۔ مارچ2003ء سے نومبر2007ء تک ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ رہا۔ نیز، سندھ ہائی کورٹ کا جج بھی رہا اور اس حیثیت میں 200 سے زاید مقدمات کے فیصلے سُنائے، جب کہ 1993ء اور1997ء کے عام انتخابات میں کراچی سے سندھ اسمبلی کا رُکن منتخب ہوا، تو مجھے وزیرِ تعلیم بنایا گیا۔ میرا تدریس سے بھی گہرا تعلق رہا ہے۔ کراچی یونی ورسٹی کا ڈین، فیکلٹی آف لاء رہا۔ ایس ایم لاء کالج میں بھی پڑھاتا رہا۔ اب تک میری چھے کتابیں شائع ہو چُکی ہیں اور 20 مارچ 2013ء سے پاکستان کی پہلی لاء یونی ورسٹی،’’ شہید ذوالفقار علی بھٹو یونی ورسٹی آف لاء‘‘ کے وائس چانسلر کے طور پر خدمات انجام دے رہا ہوں۔

س:لاء یونی ورسٹی کے قیام کا خیال کیسے آیا؟

ج: ہمارے ہاں لیگل ایجوکیشن کی صُورتِ حال کبھی بھی تسلّی بخش نہیں رہی اور اس پر وہ توجّہ نہیں دی گئی، جو دینی چاہیے تھی۔ لاء کالجز ایوننگ میں کام کرتے تھے اور اب بھی یہی حال ہے، گویا قانون کی تعلیم پارٹ ٹائم ہو رہی ہے، کلاسز تک نہیں ہوتیں۔ فیکلٹی کی حالت بھی بُری تھی اور آج بھی صُورتِ حال جوں کی توں ہے۔جب مَیں وزیرِ تعلیم تھا، تو ایس ایم لاء کالج کے دَورے کے موقعے پر انتظامیہ سے اسے یونی ورسٹی میں تبدیل کرنے کی درخواست کی، مگر بات آگے نہ بڑھ سکی۔ نومبر2004ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب میں بھی لاء یونی ورسٹی کا خاکہ پیش کیا۔ پھر2007ء میں سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں یونی ورسٹی کے قیام کی ضرورت کو اجاگر کیا۔ اس پس منظر میں گورنر سندھ، ڈاکٹر عشرت العباد کی صدارت میں کئی اجلاس ہوئے۔ اُس وقت کی پیپلزپارٹی کی حکومت نے، جس میں ایاز سومرو(مرحوم) وزیرِ قانون اور پیر مظہرالحق وزیرِ تعلیم تھے، بہت دِل چسپی لی اور پھر سندھ اسمبلی سے’’ شہید ذوالفقار علی بھٹو یونی ورسٹی آف لاء ایکٹ2012ء، سندھ ایکٹ نمبر13، 2013ء‘‘ پاس ہوا۔ وزیراعلیٰ، سیّد قائم علی شاہ کی سفارش پر مجھے پہلا وائس چانسلر مقرّر کیا گیا۔ 20مارچ2013ء کو میرے ایک ہاتھ میں تقرّری کا لیٹر تھا اور دوسرے ہاتھ میں چارٹر، لیکن باقی کچھ موجود نہیں تھا۔ کلفٹن میں ایک گرلز کالج زیرِ تعمیر تھا، تو وزیرِ اعلیٰ، قائم علی شاہ، وزیرِ تعلیم نثار احمد کھوڑو، سیکرٹری تعلیم ڈاکٹر فضل اللہ پیچوہو کی مہربانی سے اُس عمارت کا ایک حصّہ ہمیں مل گیا۔ ابتدائی دو برس تو مجھے تن خواہ تک نہیں ملی، بلکہ فرنیچر وغیرہ بھی اپنی جیب ہی سے خریدا۔ ایچ ای سی اور پاکستان بار کاؤنسل کی فیسز بھی خود ادا کیں۔ اُن دنوں ایک سابق چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ’’آپ فضول میں خرچہ کر رہے ہیں، پیسے ڈوب جائیں گے‘‘۔ بعدازاں حکومتِ سندھ نے ہمیں کورنگی میں14ایکڑ زمین دی، مگر اُس پر ساڑھے پانچ سو کے قریب مکانات بنے ہوئے تھے اور ڈپٹی کمشنر نے زمین واگزار کروانے سے معذوری کا اظہار کر دیا تھا، لیکن ہم نے گورنر، وزیراعلیٰ، کمشنر شعیب احمد صدیقی، رینجرز، پولیس اور مقامی سیاسی رہنمائوں کے تعاون سے زمین خالی کروا لی۔ حکومتِ سندھ نے کورنگی کے ’’محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کیمپس‘‘ کے لیے 1145 ملین روپے کی گرانٹ دی اور وہاں85فی صد تعمیرات مکمل ہو چُکی ہیں، انشاء اللہ رواں سال کے آخر تک یہ منصوبہ مکمل ہو جائے گا۔ ہم نے گزشتہ برس23دسمبر کو اپنا پہلا کانووکیشن وہیں منعقد کیا تھا۔ اس کے علاوہ، وزیراعلیٰ، مُراد علی شاہ نے ڈھائی سو ایکڑ زمین ملیر میں الاٹ کی ہے، جس میں3بلین روپے کی لاگت سے تعمیرات مکمل کی جائیں گی۔ ہم وہاں ایڈمنسٹریٹو لاء، کانسٹی ٹیوشن لاء، ٹیکسیشن لاء، سِول لاء، انٹرنیشنل لاء اور اسلامک لاء سمیت9فیکلٹیز بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں مارننگ میں کلاسز ہوتی ہیں اور حاضری پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا جاتا۔ سیمسٹر سسٹم لاگو ہے، جب کہ اچھی فیکلٹی ہائر کی ہے، جسے اچھی پیمنٹ بھی کرتے ہیں۔ پھر یہ کہ کوئی بھی پروگرام ایچ ای سی یا دیگر متعلقہ اداروں کی شرائط پوری کیے بغیر شروع نہیں کرتے۔

س: فیکلٹی اور طلبہ کی تعداد کیا ہے؟کون سے پروگرامز آفر کرتے ہیں؟ کیا صحافیوں اور ڈاکٹرز کے لیے بھی کورسز ہیں؟

ج:ہمارے ہاں2ہزار طلبہ زیرِ تعلیم ہیں، جب کہ فیکلٹی84اساتذہ پر مشتمل ہے، جس میں19مستقل اور65وزیٹنگ ارکان ہیں۔ ہم ایل ایل بی، ایل ایل ایم اور پی ایچ ڈی پروگرامز میں داخلے دیتے ہیں۔ فی الحال تو کوئی ڈپلوما پروگرام نہیں ہے، تاہم صحافیوں کے لیے ایک پروگرام شروع کرنے کا ارادہ ہے اور اس کے لیے سی پی این ای کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دست خط بھی ہوئے ہیں۔ ڈاکٹرز کے حوالے سے آپ نے بہت اچھی تجویز دی ہے، اس پر بھی کام ہونا چاہیے، کیوں کہ ڈاکٹرز کو عملی زندگی میں کئی قانونی پیچیدگیوں سے بھی واسطہ پڑ سکتا ہے۔

س: آپ کا برطانوی یونی ورسٹی سے کوئی معاہدہ بھی تو ہوا ہے۔ اس کی کیا تفصیل ہے؟

ج: پاکستان میں برطانوی یونی ورسٹیز کے ایکسٹرنل پروگرامز کو خاصی پزیرائی حاصل ہے اور کئی تعلیمی ادارے ان پروگرامز سے استفادہ کر رہے ہیں۔ وہ طلبہ سے فارن ڈگری کے لیے سالانہ7 سے 11 لاکھ روپے وصول کرتے ہیں۔ چوں کہ ہمارا جوڈیشل سسٹم، برٹش کامن لاء کی بنیاد پر کام کرتا ہے، تو ہم نے کوشش کی کہ ایسے محنتی طلبہ جو وسائل نہ ہونے کے سبب برطانیہ جا کر تعلیم حاصل نہیں کر سکتے، اُنھیں یہ سہولت اپنے مُلک ہی میں مہیا کر دی جائے، سو اس سلسلے میں ہم نے وزارتِ خارجہ کی اجازت سے نومبر 2016 ء میں پاکستانی ہائی کمیشن، لندن میں 22 برطانوی جامعات سے مذاکرات کیے، جس کے نتیجے میں یونی ورسٹی آف نارتھمپٹن سے معاہدہ ہوگیا، جس کے تحت ہم رواں برس ستمبر سے نیا پروگرام شروع کر رہے ہیں۔ برطانوی یونی ورسٹی چار سال کے ایل ایل بی پروگرام کے محض2 ہزار 300 پاؤنڈز وصول کرے گی، جب کہ جو طلبہ برطانیہ سے یہ کورس کرتے ہیں، اُنھیں سالانہ15 ہزار پاؤنڈز فیس ادا کرنا پڑتی ہے۔ ہاسٹل، کھانے پینے کے اخراجات الگ سے ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایل ایل ایم کے لیے صرف ایک ہزار 300 پاؤنڈز دینے ہوں گے۔ کئی یونی ورسٹیز قانونی تقاضے پورے کیے بغیر ہی غیر مُلکی تعلیمی اداروں کے پروگرامز شروع کر دیتی ہیں، جس سے طلبہ کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر ہم نے خارجہ، داخلہ اور قانون و انصاف کی وزارتوں، ایچ ای سی، حکومتِ سندھ اور پاکستان بار کاؤنسل سے منظوری لی ہے، نیز، وفاقی کابینہ سے بھی جلد منظوری مل جائے گی۔ اس ضمن میں کیبنیٹ ڈویژن تک ہماری فائل پہنچ چُکی ہے۔ ہم اس حوالے سے نصاب میں بھی ضروری تبدیلیاں کر رہے ہیں، کیوں کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق ایل ایل بی کی فارن ڈگری کے حامل وکیل کو پاکستانی عدالتوں میں انرولمنٹ کے لیے پانچ مضامین پاس کرنا لازم ہیں اور وہ ٹیسٹ، ایچ ای سی لے گا۔ تو ہم اس طرح پلان کر رہے ہیں کہ ایل ایل بی برطانیہ کا ہو اور اس میں ان مضامین کو شامل کر کے کورس مکمل کر لیا جائے، یوں قانون کے مطابق تعلیمی دورانیہ بھی 17 برس ہوجائے گا۔ ہم نے برطانوی یونی ورسٹی کو جوائنٹ ریسرچ اور جوائنٹ پبلی کیشنز کی بھی آفر کی ہے، کیوں کہ ہمارے ہاں پبلی کیشنز آف آرٹیکلز کا بڑا ایشو ہے اور اچھے جرنلز بھی نہیں ہیں۔ہائی کورٹ کا اشتہار آتا ہے کہ بار ایٹ لاء کو ترجیح دی جائے گی، مَیں نے چیف جسٹس، صبیح الدین خان سے کہا تھا’’ مائی لارڈ! یا تو آپ یہ سہولت سرکاری خرچ پر طلبہ کو دیں ورنہ کیوں بے چاروں کو احساسِ کم تری میں مبتلا کرتے ہیں۔‘‘ اللہ کے فضل سے اب ہم اپنے طلبہ کو یہ سہولت دے رہے ہیں۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو یونی ورسٹی آف لاء کے وائس چانسلر، پروفیسر جسٹس (ر) قاضی خالد سے بات چیت
نمایندہ جنگ کو کورنگی کیمپس کی تفصیلات بتارہے ہیں

س: ہمارے ہاں بدقسمتی سے وکالت کا پیشہ بہت بدنام ہے، وکلاء کی ساکھ کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے؟

ج: عدالتِ عظمیٰ نے لیگل ایجوکیشن کے حوالے سے ایک انقلابی فیصلہ دیا ہے، جس کے دُور رَس نتائج مرتّب ہوں گے۔ ایک جانب قومی اور بین الاقوامی تناظر میں 5 سالہ ڈگری پروگرام کا حکم دیا گیا ہے اور تین سالہ ڈگری پروگرام ختم کردیا گیا ہے۔ دوسری طرف، ایوننگ کلاسز بھی ختم کرنے کو کہا ہے۔ نیز، عدالتِ عظمیٰ نے ڈین فیکلٹی آف لاء ، چئیرمین فیکلٹی، پرنسپلز، پروفیسرز اور لیکچررز کے لیے کم از کم معیار بھی طے کیا ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے سابق ججز، سیشن ججز جو پانچ سال عُہدے پر رہے ہوں اور وکلاء کو بھی فیکلٹی کے لیے اہل قرار دیا گیا ہے۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس طے کردہ طریقۂ کار پر عمل درآمد کی ہدایت کی گئی ہے اور ایچ ای سی اور پاکستان بار کاؤنسل کو مانیٹرنگ کمیٹیز بنانے کو کہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایل ایل بی میں داخلے کے لیے پری اینٹری ٹیسٹ لازمی قرار دیا گیا ہے، جو ایچ ای سی بغیر فیس کے لے گی۔ نیز، عدالت نے ذریعۂ تعلیم انگریزی رکھا ہے، واضح رہے، پاکستان بار کاؤنسل کے قواعد میں بھی لیگل ایجوکیشن کا میڈیم انگلش ہی ہے۔ پھر یہ کہ اساتذہ کو نان پریکٹس الاؤنس دینے کا حکم دیا گیا ہے، جو ہم پہلے ہی دے رہے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر اس فیصلے پر اس کی رُوح کے مطابق عمل ہوجائے، تو لیگل ایجوکیشن میں انقلاب برپا ہو جائے گا۔ البتہ اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے کچھ قوانین میں ترامیم کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور مزید وسائل کی بھی ضرورت ہوگی، تو اس مقصد کے لیے مَیں نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں چار روز تک اعلیٰ حکّام سے ملاقاتیں کیں اور بہت پُرامید ہوں کہ تمام معاملات خوش اسلوبی سے طے کر لیے جائیں گے۔باقی جہاں تک وکلاء کی بات ہے، تو لیگل ایجوکیشن کے اداروں کو درست کرنے ہی سے قوم کو اچھے وکلاء ملیں گے۔ پھر یہ کہ اس پروفیشن میں اخلاقیات پر زور دینے کی ضرورت ہے اور پاکستان بار کاؤنسل کے ضابطۂ اخلاق پر ہر صورت عمل درآمد کروانا چاہیے۔ بغیر پڑھے اور حل شدہ پرچہ جات کی مدد سے پاس ہونے والے وکلاء تو ایسے ہی ہوں گے۔

س: وکلاء تحریک کے بعد لاء ایجوکیشن کی جانب رجحان بڑھا ہے، تو کیا مارکیٹ میں اتنی گنجائش ہے کہ وہ وکلاء کو روزگار فراہم کرسکے؟

ج: ہاں! پہلے طلبہ میڈیکل یا انجینئرنگ ہی کو ترجیح دیتے تھے، مگر اب لیگل ایجوکیشن کو بھی ترجیح دی جا رہی ہے۔ پہلے یہی تاثر تھا کہ جسے کہیں داخلہ نہیں ملتا، وہ وکیل بن جاتا ہے۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ، جسٹس آغا حیدر علی نے ایک مرتبہ بار کے سالانہ کھانے میں کہا تھا کہ’’ نئے وکیل کو ابتدائی دو چار برس تو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر دیانت داری، محنت اور استقامت سے کام کیا جائے، تو پھر پانچ دس سال بعد وکیل کے پاس خواہ مخواہ پیسے آنے لگتے ہیں۔‘‘ دیکھیے! ہمیں اچھے وکلاء کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں کئی شعبوں میں اب بھی خلا موجود ہے، مثلاً واٹر لاز کو دیکھ لیجیے، مُلکی اور عالمی سطح پر پانی کے حوالے سے بہت سے مسائل پیش آتے رہتے ہیں اور ان کا سامنا کرنے کے لیے ہمارے پاس وکلاء نہیں ہیں۔ انوائر مینٹل لاز، انٹیلکچول لاز، انٹرنیشنل لاز میں بھی یہی صورتِ حال ہے۔ کلبھوشن جیسے حسّاس کیس میں پاکستان سے کوئی وکیل ہی نہیں ملا۔ ہم وار فئیر پر بہت زیادہ توجّہ دیتے ہیں اور اس کی اہمیت سے انکار بھی نہیں، مگر اب ہمیں لاء فئیر کی جانب بھی متوجّہ ہونا ہوگا۔ہمیں ایسے وکلاء تیار کرنا ہوں گے، جو بین الاقوامی سطح پر مُلک و قوم کا دفاع کر سکیں۔ آئے روز مختلف کمپنیز اور حکومتوں کے درمیان معاہدے ہوتے رہتے ہیں، تو ایسے وکلاء کی ضرورت ہے جو دونوں ممالک کے قوانین سے گہری واقفیت رکھتے ہوں، کیوں کہ چھوٹے ممالک کے بڑے ممالک سے معاہدوں کو قانون ہی تحفّظ دے سکتا ہے اور اسی کی بنیاد پر وہ عالمی عدالتوں میں اپنا مقدمہ پیش کر سکتے ہیں۔ پچھلے دنوں پاکستان کے خلاف کئی فیصلے آئے، جرمانے تک ہوئے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہماری لیگل ایجوکیشن ابھی کم زور ہے۔ نیز،حالات کے بدلنے سے وکلاء کے لیے بھی روزگار کے نت نئے دروازے کُھلے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم نے 48 ارکان پر مشتمل یونی ورسٹی کی کارپوریٹ ایڈوائزری کاؤنسل بنائی ہے، جس میں اعلیٰ سرکاری افسران سمیت کئی اداروں کے نمایندے شامل ہیں اور ہم کاؤنسل کی مشاورت سے مختلف کمرشل اور انڈسٹریل آرگنائزیشن سے معاہدے چاہتے ہیں تاکہ طلبہ کو روزگار کے حصول میں پریشانی نہ ہو۔

س: کیا طلبہ کو عملی تربیت بھی دی جاتی ہے؟

ج: جی ہاں! ہم اپنے طلبہ کو عدالتوں میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ زیرِ سماعت مقدمات کی کارروائی دیکھ سکیں۔ نیز، لیگل کلینک جیسے منصوبوں پر بھی کام کر رہے ہیں۔

س: سیاست سے تعلیم کی طرف کیسے آئے؟

ج: ایمان داری کی بات یہ ہے کہ پالیٹیکس اور پریکٹس ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔رکن اسمبلی یا وزیر بن کر رات گئے تک دفتری اور سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہنا پڑتا ہے، تو صبح عدالت جانا آسان نہیں رہتا۔ وزیرِ تعلیم بنا، تو مَیں نے اہم کلائنٹس کے مقدمات واپس کردیے۔ ایک بینک افسر نے کہا’’ سر، آپ پہلے وزیر ہیں جو اپنے کیسز واپس کر رہے ہیں ورنہ عام طور پر لوگ تو وزیر بن کر دھڑا دھڑ کیسز پکڑتے ہیں اور خود کی جگہ جونئیرز کو پیش کر دیتے ہیں۔‘‘لیکن مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ کلائنٹ کے ساتھ زیادتی ہے، آپ اپنے نام پر فیس لیتے ہیں اور جونئیر کو عدالت میں بھیج دیتے ہیں۔ پھر یہ کہ سیاست تو کوئی بھی کر سکتا ہے، اس کے لیے تو تعلیم یافتہ ہونا بھی ضروری نہیں، لیکن ان پروفیشنز کو پڑھے لکھے لوگوں کی ضرورت ہے۔کئی پرانے ساتھی کہتے ہیں کہ’’ آپ خود کو ضایع کر رہے ہیں، دوبارہ سیاست کی طرف آجائیں،‘‘ مگر مَیں مطمئن ہوں، سیاست چھوڑے بیس برس ہوگئے، اب مَیں قوموں کی تقدیر بدلنے کے پروگرام پر عمل پیرا ہوں۔

س: آپ وکیل رہے، جج رہے، سیاست دان بھی رہے، تو یہ بتائیے ہمارا نظامِ انصاف کیسے انصاف دے سکتا ہے؟

ج: جب تک رشوت دینے اور لینے والے زندہ ہیں، نظام درست نہیں ہو سکتا۔ہمیں اس حوالے سے دو بنیادی باتوں کو سمجھنا ہوگا۔ ایک تو یہ کہ آبادی میں اضافے کے تناسب سے عدالتوں اور ججز کی تعداد میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ اگر آپ پینڈنگ آف کیسز کو نمبرز آف ججزز کے تناظر میں دیکھیں، تو صورتِ حال واضح ہوجائے گی۔ عدالتوں پر کیسز کا بہت زیادہ دباؤ ہے۔ دوسری بات یہ کہ مقدمات کے التوا کی صرف عدالت ہی ذمّے دار نہیں ہوتی۔ اگر تین فریق ہوں گے تو ہی مقدمہ چلے گا، یعنی جج صاحب موجود ہوں، فریقین یا ان کے وکلاء حاضر ہوں اور اگر گواہی کی ضرورت ہے، تو گواہان بھی موجود ہوں، ہمارے ہاں مقدمات کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔تاہم، ان معاملات میں تبدیلی آ رہی ہے، گو کہ اس کی رفتار قدرے سُست ہے۔ اس معاملے پر گزشتہ ستّر برسوں میں کئی کمیشنز بنے، طریقۂ کار بھی بدلے، لاء ریفارمز بھی ہوئیں، جیسے بھٹو صاحب نے ریفارمز کی تھیں۔ قتل کیس میں پہلے مجسٹریٹ کے سامنے شہادتیں ریکارڈ ہوتی تھیں، پھر سیشن کورٹ میں چارج فریم ہوتا اور کیس چلتا، مگر بھٹو صاحب نے طریقہ بدلا۔ اب پہلے 14 دنوں میں پولیس تفتیش کرتی ہے، تین دن مزید دیے جاتے ہیں، پھر چالان پیش کیا جاتا ہے، پھر شہادتیں ہوتی ہیں، ملزم کا بیان ہوتا ہے، مقدمے کا ریکارڈ ملزم کو دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنا دفاع کر سکے۔ یعنی طریقۂ کار تو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی، مگر اس پر ٹھیک طرح سے عمل درآمد میں کئی لوگوں اور اداروں کا کردار ہے، جن کی کوتاہی سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایک بیل آرڈر پر فیصلہ دیا تھا کہ’’ جس طرح تین اور پانچ روزہ کرکٹ میچز کے بعد وَن ڈے اور ٹی ٹوئنٹی آئے ہیں، اسی طرح اب درخواستِ ضمانت پر بڑے بڑے فیصلے لکھنے کی بجائے مختصر فیصلہ دینا چاہیے۔‘‘ جج صاحبان بڑے بڑے فیصلے لکھتے ہیں، جس سے اپیل میں عدالتوں کا وقت ضائع ہوتا ہے۔

س: داخلوں اور بھرتیوں کے حوالے سے دباؤ تو ہوگا؟

ج: دباؤ تو ہے، مگر عام طور پر لوگ تعاون کرتے ہیں۔ قائم علی شاہ، مراد علی شاہ، عشرت العباد، زبیر عُمر اور اب موجودہ گورنر، ان میں سے کسی نے کبھی کوئی مداخلت نہیں کی۔ لوگ سفارشیں کرتے ہیں، جائز بھی اور ناجائز بھی، تو جائز کام خوشی خوشی کر دیتا ہوں، کیوں کہ مَیں اسی لیے یہاں بیٹھا ہوں۔ البتہ، ایک سابق ایڈیشنل چیف سیکریٹری، یونی ورسٹی اینڈ بورڈ نے بہت تنگ کیا۔ وہ اپنے اور اپنی اہلیہ کے لیے پی ایچ ڈی کی ڈگری چاہتے تھے اور صرف یہی نہیں، اُنھیں بیوی کے بھانجے کے لیے بھی ایل ایل بی ڈگری تحفے میں چاہیے تھی، لازمی بات ہے، میں یہ کام نہیں کرسکتا تھا، تو اُنھوں نے مجھے عُہدے سے ہٹانے کے لیے وزیرِ اعلیٰ کو سمری بھی بھیجی، جو مسترد کر دی گئی۔ مَیں خود کو ولی اللہ تو نہیں کہتا، بہت گنہگار انسان ہوں، مگر میری پوری زندگی دیانت داری سے گزری ہے اور یہ میرا اثاثہ ہے، اس لیے اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کروں گا۔

س: کیا حکومت کا تعاون تسلّی بخش ہے؟

ج: ہم سے سندھ حکومت نے بہت تعاون کیا ہے اور کر رہی ہے۔وسائل کا کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ہم سرپلس میں جا رہے ہیں۔اسی طرح وفاقی حکومت نے بھی تعاون کیا ہے اور اس کی مدد سے طلبہ کے لیے ہاسٹل اور بسز وغیرہ کا انتظام کر رہے ہیں۔

س: کیا اندورنِ سندھ بھی کوئی کیمپس کھول رہے ہیں؟

ج: سکھر میں کیمپس کے قیام کے لیے حکومت سے بات کی تھی، مگر وزیر اعلیٰ، قائم علی شاہ خیرپور میں کیمپس چاہتے تھے۔ لاڑکانہ اور حیدرآباد کے لیے بھی بات کی تھی، مگر ابھی تک معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا، لیکن ہماری کوشش جاری ہے۔ ہم نے حکومت سے گزارش کی ہے کہ سندھ کے جتنے پبلک سیکٹر کے لاء کالجز ہیں، اُن کا ہم سے الحاق کردیا جائے تاکہ ہم اپنے طلبہ کے لیے غیر مُلکی یونی ورسٹیز سے جو سہولتیں لے رہے ہیں، اُن سے اندورنِ سندھ کے طلبہ بھی مستفید ہو سکیں۔ ہم جن غیر مُلکی یونی ورسٹیز سے معاہدے کر رہے ہیں، وہاں صرف قانون کی تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ دیگر شعبے بھی ہیں، تو ہم نے صوبے کی14 جامعات پر مشتمل’’ سندھ انٹر یونی ورسٹی کنسورشیم فار پروموشن آف ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ‘‘ تشکیل دیا ہے، جس کا مَیں چئیرپرسن ہوں۔ اس کا مقصد یہی ہے کہ صرف لاء ہی نہیں، دیگر شعبوں کے طلبہ بھی غیر مُلکی اداروں سے فائدہ اٹھا سکیں۔

س: خواتین سے متعلق کیسز کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، تو طالبات کا لیگل ایجوکیشن کی جانب کیسا رجحان ہے؟

ج: لیگل پروفیشن میں خواتین کی تعداد ضرورت سے خاصی کم ہے، خود ہماری یونی ورسٹی میں طالبات صرف سات فی صد ہیں۔

س: عوام میں قانون سے آگاہی بھی تو ہمارا ایک بڑا مسئلہ ہے؟

ج: ہمارے ہاں قانون سے آگہی انتہائی نچلی اور مایوس کُن سطح پر ہے، خاص طور پر دیہات میں تو لوگ اپنے قانونی حقوق سے واقف ہی نہیں۔جیسے کاروکاری، قرآن سے شادی، وراثت سے محرومی، کم عُمری کی شادی وغیرہ کے معاملات ہیں، تو ہم قانون سے آگہی کا ایک پروگرام شروع کر رہے ہیں اور جلد ہی یونی ورسٹی کا اپنا ریڈیو اور ٹی وی چینل کام شروع کردے گا۔ 

تازہ ترین