5مارچ 2019ء کو روزنامہ جنگ کے ادارتی صفحہ پر ’’نیب کی کہانی‘‘ کے عنوان سے شائع شدہ محمد بلال غوری کے کالم کے حوالے سے قومی احتساب بیورو (نیب) یہ واضح کرنا چاہتا ہے کہ سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی، پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خان اور خواجہ سعد رفیق کے مقدمات اس وقت عدالت مجاز میں زیر سماعت ہیں جن پر تبصرہ کرنا قانون کے مطابق مناسب نہیں کیونکہ نیب ہمیشہ ٹھوس شواہد کی بنیاد پر آئین اور قانون کے مطابق تحقیقات کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ جہاں تک معزز کالم نگار نے معزز لاہور ہائیکورٹ سے ایک ملزم کی نیب کے کیس میں ضمانت کا ذکر کیا ہے تو معزز کالم نگار کو معلوم ہونا چاہئے کہ ضمانت معزز عدالت کا اختیار ہے جو کہ کیس کا خاتمہ نہیں ہوتی کیونکہ ابھی کیس کی سماعت جس میں ٹھوس شواہد، گواہوں کے بیانات اور ان پر جرح اور دو اطراف کے وکلاء کے دلائل جاری ہیں، جس کے بعد معزز عدالت انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مقدمہ کا فیصلہ سناتی ہے۔
معاشرے اور ملک کو بدعنوانی سے پاک کرنے کیلئے قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جناب جسٹس (ر)جاوید اقبال نے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد نیشنل اینٹی کرپشن اسٹرٹیجی بنائی جس کو بدعنوانی کے خلاف مؤثر ترین حکمت عملی کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ چیئرمین نیب نے ادارے میں جہاں اور بہت سی نئی اصلاحات متعارف کروائیں وہاں نیب کا دائرہ کار ملک کے کونے کونے میں پھیلانے کا نہ صرف عزم کیا بلکہ اس کو پورا کرکے دکھایا۔ نیب کا صدر مقام اسلام آباد جبکہ اس کے آٹھ علاقائی دفاتر کراچی، لاہور، کوئٹہ، پشاور، راولپنڈی، سکھر، ملتان اور گلگت بلتستان میں کام کر رہے ہیں۔ نیب کے چیئرمین نے بدعنوانی کے خاتمہ کیلئے نہ صرف زیرو ٹالرینس کی پالیسی اپنائی بلکہ کسی بھی دبائو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے میرٹ، شواہد اور قانون کے مطابق بدعنوان عناصر سے 298ارب روپے کی لوٹی ہوئی رقم برآمد کرکے قومی خزانے میں جمع کروائی جس میں سے ایک روپیہ بھی نیب کے افسران/ اہلکاران نے وصول نہیں کیا کیونکہ نیب کے افسران/ اہلکاران ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کو اپنی اولین قومی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ جہاں تک نیب کے کام کرنے کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں یہ جاننا انتہائی ضروری ہے کہ نیب کو جب بھی کوئی شخص کسی کے خلاف بدعنوانی کی شکایت دیتا ہے تو نیب شکایت کنندہ کو بلاتا اور اس سے بیان حلفی لیتا ہے کہ اس نے جو بدعنوانی سے متعلق درخواست نیب کو دی ہے اور ثبوت فراہم کئے ہیں وہ اس کی نظر میں درست ہیں اور وہ اپنی شکایت کی مکمل پیروی کرے گا۔ اس کے بعد نیب کا متعلقہ بیورو اپنی شکایت سکروٹنی کمیٹی میں متعلقہ شکایت کا جائزہ لیتا ہے کہ کیا اس کی بادی النظر میں جانچ پڑتال کی جا سکتی ہے یا نہیں۔ نیب کے علاقائی ریجنل بورڈ میٹنگ، جس کی سربراہی متعلقہ بیورو کا ڈی جی کرتا ہے اور اس میں متعلقہ بیورو کے تمام ڈائریکٹرز اور شکایت سیل کا انچارج موجود ہوتا ہے، میں بورڈ شکایت اور اس کے ساتھ منسلک ثبوتوں کا ابتدائی طور پر جائزہ لیتا اور مطمئن ہونے پر شکایت کی جانچ پڑتال کی منظوری دیتا ہے۔ شکایت کی جانچ پڑتال کی منظوری کے بعد نیب کا متعلقہ شکایت سیل باقاعدہ طور پر شکایت کی جانچ پڑتال شروع کرتا ہے۔ نیب کے تمام علاقائی ریجنل بورڈز کو گریڈ 19تک کی شکایات کی جانچ پڑتال، انکوائری اور انویسٹی گیشن کا اختیار دیا گیا ہے جبکہ گریڈ 20اور اوپر کی شکایت کی جانچ پڑتال کا اختیار نیب کے ایگزیکٹو بورڈ کے پاس ہے جہاں پر پراسیکیوٹر جنرل اکاؤنٹبیلٹی، ڈی جی آپریشن اور متعلقہ علاقائی بیورو کے ڈی جی کے علاوہ نیب کے سینئر افسران شرکت کرتے ہیں اور بدعنوانی کی شکایت کا شواہد کی روشنی میں قانون کے مطابق جائزہ لیتے ہیں اور بادی النظر میں بدعنوانی ہونے کی مبینہ وجوہات کی جانچ پڑتال کی منظوری دی جاتی ہے۔ شکایت کی جانچ پڑتال کے دوران نیب شکایت کنندہ کی طرف سے دی گئی درخواست اور اس کے ساتھ منسلک شواہد کی متعلقہ ڈیپارٹمنٹس اور افراد سے مزید معلومات حاصل کرتا ہے اور دستیاب دستاویزات کی تصدیق کرنے کے بعد شکایت کی جانچ پڑتال کو بدعنوانی ہونے کی بنیاد پر شکایت کی جانچ پڑتال کو متعلقہ فورم پر پیش کرتا ہے اور تفصیلی قانونی جائزہ کے بعد شکایت کی جانچ پڑتال کو انکوائری میں تبدیل کرنے کی منظوری دیتے ہیں۔ انکوائری کے دوران نیب کے پاس جو معلومات اور ثبوت مبینہ ملزمان کے بارے میں اکٹھے ہو جاتے ہیں ان کی بنیاد پر نیب ان افراد کو طلب کرتا ہے جن کے خلاف نیب کو شکایت موصول ہوتی ہیں۔ انکوائری کے دوران نیب ملزمان کے سامنے ان کی مبینہ بدعنوانی کے ثبوت نہ صرف ان کے سامنے رکھتا ہے بلکہ قانون کے مطابق مبینہ ملزمان کو صفائی کا پورا موقع دیا جاتا ہے۔ انکوائری کے دوران اگر مبینہ ملزمان اپنے اوپر بدعنوانی کے لگائے گئے الزامات کا دفاع کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو انکوائری رپورٹ کو ٹھوس شواہد اور قانون کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انکوائری کو متعلقہ نیب کے ریجنل بورڈ/ ایگزیکٹو بورڈ میں انویسٹی گیشن میں تبدیل کرنے کی منظوری دیتے ہیں۔ انویسٹی گیشن کے دوران نیب تمام متعلقہ ملزمان کا کردار اور ان کی وجہ سے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصانات اور اختیارات کے ناجائز استعمال کو مدنظر رکھتا ہے۔ انویسٹی گیشن مکمل ہونے کے بعد متعلقہ انویسٹی گیشن کو نیب کے ریجنل بورڈ/ ایگزیکٹو بورڈ میں بدعنوانی کا ریفرنس فائل کرنے کی منظوری کیلئے پیش کیا جاتا ہے جہاں پر متعلقہ ایگزیکٹو بورڈ ٹھوس شواہد، گواہوں کے بیانات، قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصانات کا جائزہ لینے کے بعد ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دی جاتی ہے۔ شکایت سے انکوائری، انکوائری سے انویسٹی گیشن کیلئے 10ماہ کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔نیب کے موجودہ چیئرمین کے دور میں 590بدعنوانی کے ریفرنس احتساب عدالتوں میں دائر کئے گئے ہیں۔ اس وقت نیب کے 1210بدعنوانی کے ریفرنس مختلف احتساب عدالتوں میں زیر سماعت ہیں جن کی کل مالیت تقریباً 900 ارب روپے ہے۔ مزید برآں نیب کی سزا دلوانے کی شرح 70فیصد ہے جو کسی بھی بدعنوانی کے خاتمے کیلئے کام کرنیوالے پاکستانی ادارے سے زیادہ ہے۔
نیب مذکورہ کالم نگار کو اس کی پروفیشنل ذمہ داری یاد دلانا چاہتا ہے کہ اگر کسی ادارے کے بارے میں کالم لکھنا مقصود ہو تو سب سے پہلے قانون کے مطابق اس ادارے کا موقف لیا جاتا ہے تاکہ قارئین کو بے بنیاد، من گھڑت اور حقائق کے منافی معلومات کے بجائے صحیح معلومات فراہم کی جائیں۔ مذکورہ کالم نگار کا مقصد صرف اور صرف نیب کو حرفِ تنقید بنانا مقصود تھا۔ انہوں نے اپنے کالم کے اختتام پر نیب کو بند کرنے کی بات کرکے اپنا اصل چہرہ بےنقاب کر دیا ہے۔ نیب ایک قومی ادارہ ہے جوبدعنوانی اور کرپٹ عناصر کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کا سفر جاری رکھے گا تاکہ کرپشن سے پاک پاکستان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکے۔
(یہ مضمون کالم نگار محمد بلال غوری کے کالم کے جواب میں نیب کا سرکاری موقف ہے)