دَورِ حاضر کے بچّے کاغذ ی کشتیوں کو پانی میں بہانے، کھلونوں سے دِل بہلانے، تتلیوں کے پیچھے دوڑنے یا ریت کے گھروندے بنانے والے نہیں اور نہ ہی یہ کوہِ قاف کے جِنوں، پریوں سے متعلق گھڑی گئی داستانوں پر یقین کرتے ہیں۔ یہ شاید انسانی تاریخ کے ذہین ترین بچّے ہیں۔ یہ حقیقی دُنیا میں اتنا وقت نہیں گزارتے، جتنا ڈیجیٹل ورلڈ میں بِتاتے ہیں۔ ان کی کائنات اسمارٹ فون، ٹیبلٹ اور کمپیوٹر جیسی ڈیوائسز تک سِمٹ کر رہ گئی ہے ۔ یہ ویڈیو گیمز، کارٹونز اور دوسرا آن لائن مواد دیکھنے تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر اپنے والدین سے زیادہ دسترس رکھتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق، آج ترقّی یافتہ ممالک میں ہر 3میں سے ایک بچّہ بات چیت کے قابل ہونے سے قبل ہی اسمارٹ فون کے استعمال سے واقفیت حاصل کر لیتا ہے اور بچّوں کی یہ عادت اُن کے رویّوں، رشتوں، سماجی و ثقافتی بندھنوں اور تعلیم پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ اس صُورتِ حال میں بچّوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت پہلے سے کئی گُنا بڑھ گئی ہے کہ ڈیجیٹل ورلڈ کے علاوہ بھی ایک دُنیا ہے۔ انسانی احساسات و جذبات کی دُنیا۔ اور انسانوں سے روابط بے جان آلات میں مگن رہنے سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ آج دُنیا بَھر میں ڈیجیٹل ڈیوائسز کے استعمال کی عادت وبا کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے اور اس کے منفی نتائج بھی سامنے آنے لگے ہیں، جن میں بچّوں کی تعمیری و تخلیقی صلاحیتوں کی تباہی و پامالی قابلِ ذکر ہے۔ اس تشویش ناک صورتِ حال کا ادراک کرتے ہوئے بعض ممالک نے بچّوں کے اسکرین ٹائم کو محدود کرنے کے لیے اقدامات شروع کر دیے ہیں، لیکن عدم آگہی یا غفلت کی وجہ سے پاکستان میں یہ رجحان آئے روز تقویّت حاصل کر رہا ہے۔سو، ڈیجیٹل ڈیوائسز کی لت کے تباہ کُن اثرات اور اس کے سدِ باب سے متعلق قارئین کو باخبر کرنے کے لیے چشم کُشا حقائق اور احتیاطی تدابیر پر مشتمل ایک تفصیلی رپورٹ پیشِ خدمت ہے۔
چند انچ کی اسکرین، اردگرد کی دُنیا سے قطع تعلقی
ہمیں سب سے پہلے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ نئی پَود کا دماغ گزشتہ نسلوں سے قطعاً مختلف ہے۔ ٹی وی دیکھنے والی نسل صرف دیکھنے اور سُننے کی عادی تھی، جب کہ آج بچّے ایک ہی وقت میں اپنے حواسِ خمسہ کو یک سُوئی سے استعمال کرتے ہیں۔ یہ گزشتہ دَور کے بچّوں کی نسبت اپنی تعلیمی سرگرمیوں پر کم توجّہ دے پا رہے ہیں۔ یہ اسکولز سے آتے ہی اسمارٹ فونز میں گُم ہو جاتے ہیں۔ کبھی ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں، تو کبھی کارٹونز دیکھتے ہیں اور ان سے دِل بَھر جائے، تو موسیقی سُننے اور دوستوں سے گپ شپ میں مصروف رہتے ہیں۔ ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہوئے والدین اور بہن بھائیوں سے لا تعلق ، انہیں کھانے پینے کی کوئی فکر ہوتی ہے، نہ پڑھائی کی اور نہ ہی خاندانی تقریبات میں شرکت سے کوئی سروکار۔ اگر کسی غرض سے گھر سے باہر نکلیں، تو بھی ارد گرد کے مناظر کو اشتیاق سے دیکھنے کی بہ جائے اسکرین ہی پر نظریں جمائے رکھتے ہیں۔ یعنی دو ، چار انچ کی اسکرین نے بچّوں کو اپنے ارد گرد کی دُنیا سے کاٹ کے رکھ دیا ہے۔
افادیت سے انکار ممکن نہیں
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی افادیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، کیوں کہ یہ علم کا بیش بہا خزانہ ہے۔ اس کے ذریعے طالبِ علم کی متنوّع اور نِت نئے علوم تک رسائی ہی نہیں، سیکھنے کی صلاحیت میں اضافہ بھی ممکن ہے ۔ آج تعلیم اور ٹیکنالوجی کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور اس نے زندگی میں آسانیاں بھی پیدا کی ہیں۔ ڈیجیٹل ڈیوائسز کی وجہ سے اب بچّوں کی زندگی میں بوریت کے لمحات کم ہی آتے ہیں، جو ان کا مثبت پہلو ہے ، لیکن ان کے بے تحاشا استعمال میں کئی خطرات بھی پوشیدہ ہیں، جن سے آگہی ضروری ہے۔
منفی اثرات ،عدم آگہی
ڈیجیٹل ورلڈ میں بے حیائی اور تشدّد پر مبنی مواد بھی شامل ہے، جو بچّوں کو بہ آسانی اپنی جانب راغب کرتا ہے۔ پھر آن لائن سرگرمیوں پر نہ صرف ہر لمحہ نظر رکھی جاتی ہے، بلکہ انہیں ریکارڈ بھی کیا جاتا ہے۔ لہٰذا، بچّوں کے انٹرنیٹ کے استعمال کو محدود کرنا ضروری ہے۔ نیز، والدین کو انہیں یہ بتانا چاہیے کہ وہ کون سی معلومات، باتیں دوسروں سے شیئر کریں اور کون سی نہیں۔ چُوں کہ والدین کی اکثریت انٹرنیٹ کو صرف مثبت ذریعۂ ابلاغ سمجھتی ہے، لہٰذا اپنے بچّوں کی خبر گیری سے گریز کرتی ہے۔
والدین کا خوف
9سے 19برس تک کے بچّے صرف اس ڈر سے انٹرنیٹ پر موجود فحش مواد کے بارے میں والدین کو نہیں بتاتے کہ کہیں اُن کے انٹرنیٹ کے استعمال پر پابندی نہ عاید کر دی جائے یا پھر والدین اُن پر غصّے کا اظہار کریں گے۔ ’’لندن اسکول آف اکنامکس‘‘ کی 2014ء کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں 57فی صد بچّے انٹرنیٹ پر فحش مواد دیکھتے ہیں ، لیکن صرف 16فی صد والدین کو اس بات کا علم ہے۔ نیز، بچّوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافے کا ایک بڑا سبب انٹرنیٹ بھی ہے۔
ہر تیسرا انٹرنیٹ صارف، بچّہ
یونیسیف کی سالانہ رپورٹ، ’’دی اسٹیٹ آف دی ورلڈ چلڈرن (ایس او ڈبلیو سی) 2017ء، چلڈرن اِن ڈیجیٹل ورلڈ‘‘ میں بتایا گیا ہے کہ دُنیا میں انٹرنیٹ کا ہر تیسرا صارف بچّہ ہے، لیکن اس کے باوجود بچّوں کو محفوظ آن لائن مواد فراہم کرنے کے لیے کوئی خاص انتظامات نہیں کیے گئے۔ اسی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ آن لائن مواد تیار کرنے والوں کی اکثریت مغرب سے تعلق رکھتی ہے۔ تمام ویب سائٹس میں سے تقریباً 26فی صد انگریزی زبان میں ہیں اور بچّوں کو اپنی مقامی زبان میں مواد تلاش کرنے کے لیے خاصی تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔
نیلی روشنی، نیند اور بینائی کم ہونے کا خدشہ
اسکرین سے خارج ہونے والی نیلی روشنی سے بچّوں کی نیند کا دورانیہ کم ہو جاتا ہے۔ یہ لائٹ سورج کی تیز روشنی میں بھی اسکرین دیکھنے میں مدد دیتی ہے، لیکن اس کی موجودگی میں دماغ میلاٹونین نامی وہ ہارمون بنانا ترک کر دیتا ہے ، جو نیند کا سبب بنتا ہے۔ نیز، میلا ٹونین کی مقدار متاثر ہونے سے ڈیپریشن یا پژمردگی اور موٹاپے کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ دوسری جانب نیند کی کمی سے مثانے کے کینسر کے خطرات میں اضافہ ہو جاتا ہے اور یادداشت پر بھی منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں، اسکرین سے خارج ہونے والی نیلی روشنی پردۂ چشم کو نقصان پہنچانے کی وجہ سے بینائی کے لیے تباہ کُن ثابت ہوتی ہے۔
دماغ کا کینسر،خطرات میں5گُنا اضافہ
موبائل فون سے خارج ہونے والی برقی مقناطیسی شعائیں بالغان کے مقابلے میں بچّوں کے دماغ پر زیادہ تیزی سے اثر کرتی ہیں۔ ’’رائل سوسائٹی آف لندن‘‘ کے مطابق، 20برس کی عُمر سے پہلے موبائل فون استعمال کرنے والوں بچّوں میں، بچپن میں موبائل فون استعمال نہ کرنے والوں بچّوں کے مقابلے میں 29برس کی عُمر میں دماغ کے کینسر کے خدشات 5گُنا بڑھ جاتے ہیں۔ یوکرین میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، وائرلیس آلات سے خارج ہونے والی تاب کار شعائیں کینسر سے لے کر الزائمر اور رعشہ تک جیسے امراض کا سبب بنتی ہیں۔ یاد رہے کہ موبائل فون کا استعمال سب سے پہلے ناروے اور سوئیڈن میں شروع ہوا تھا۔ ان ممالک میں ہونے والی ایک ریسرچ بتاتی ہے کہ موبائل فون سے خارج ہونے والی شعائوں کا انسانی صحت سے گہرا ربط ہے۔ 2008ء میں سوئیڈن میں ہونے والی ایک تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ موبائل فون کے زیادہ استعمال سے کانوں کے آس پاس کینسر کے پھوڑے بننے کے امکانات کئی گُنا بڑھ جاتے ہیں، جب کہ اسرائیلی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ موبائل فونز سے خارج ہونے والی برقی مقناطیسی لہریں مَردوں کو بانجھ پن میں مبتلا کر سکتی ہیں۔
زیادہ استعمال، ذہنی معذوری کا سبب
ماہرین کے خیال میں موبائل فون کا بِلا ضرورت استعمال بچّوں میں آنکھوں، گردن، پَٹّھوں اور جوڑوں کے درد سمیت دماغی معذوری کا سبب بن سکتا ہے۔ ہانگ کانگ کی ایک یونی ورسٹی میں ہونے والی تحقیق کے مطابق موبائل فون یا ٹیبلٹ کا مسلسل استعمال ہاتھوں، کلائیوں اور انگلیوں میں درد کا باعث بنتا ہے، جب کہ ایک ہاتھ سے موبائل فون استعمال کرنے والوں میں یہ شکایت عام ہے ۔ نیز، بچّوں کی گردن اور ریڑھ کی ہڈی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔
زیرِ استعمال فون، کموڈ کی سِیٹ سے10گُنا زیادہ آلودہ
ایک تحقیق کے مطابق، موبائل فون کی اسکرین یا کی پیڈ کو مستقل چُھونے سے اس پر مختلف جراثیم بسیرا کر لیتے ہیں اور ایک موبائل فون پر کموڈ کی سیٹ سے بھی زیادہ جراثیم پائے جاتے ہیں۔ امریکی جریدے، ٹائم کی 2017ء کی رپورٹ کے مطابق، آپ کے زیرِ استعمال سیل فون کموڈ کی سِیٹ سے 10گُنا زیادہ گندا ہوتا ہے۔
11سال تک کے بچّے، صحت کو خطرات لاحق
عالمی ادارۂ صحت نے خبردار کیا ہے کہ کمپیوٹر، اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ پر زیادہ وقت گزارنے اور تجویز کردہ ہدایات پر عمل درآمد میں ناکامی سے 11برس کی عُمر تک کے بچّوں کی صحت کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ 2002ء سے 2014ء تک 42ممالک کے 2لاکھ بچّوں پر کیے گئے عالمی ادارے کے سروے میں کہا گیا ہے کہ عموماً بچّے دوگھنٹے سے زاید وقت ان ڈیوائسز کے ساتھ گزارتے ہیں ، جب کہ کمپیوٹر استعمال کرنے والے بچّوں کی تعداد کے اعتبار سے اسکاٹ لینڈ سرِفہرست ہے۔ نیز، اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹس کی وجہ سے بچّے دو گھنٹے سے بھی کم وقت کے لیے ٹی وی دیکھتے ہیں، جب کہ اس وقت اوسطاً ہر10برس کی عُمر کے بچے کے پاس اپنا موبائل فون ہے۔
ایشیائی ممالک … فون کی لَت،’’نوموفوبیا‘‘ قرار
متعدد ممالک میں اسمارٹ فون کی لت کو سرکاری طور پر ایک ذہنی عارضہ قرار دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ دُنیا بَھر کی طرح ایشیا میں بھی اسمارٹ فون کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہو ا ہے، جس کی وجہ سے شہری موبائل فون تک عدم رسائی کی صورت میں ہونے والی شدید پریشانی، ’’نوموفوبیا‘‘ کا شکار ہو رہے ہیں۔ واضح رہے کہ سیلفی اِسٹک اور انواع و اقسام کی ایموجیز کی ایجاد سے ایشیائی ممالک میں اسمارٹ فون کی لت تیزی پھیل رہی ہے اور اس میں زیادہ تر نوجوان مبتلا ہیں۔ جاپان میں کھانا کھانے سے پہلے، کھانا کھاتے ہوئے اور کھانے کے بعد سیلفی بنانا اور شیئر کرنا معمول بن چُکا ہے۔ سنگاپور میں زیادہ تر کم سِن بچّے اس لت کا شکار ہیں اور 60لاکھ نفوس پر مشتمل یہ مُلک سب سے زیادہ اسمارٹ فون صارفین والے ممالک میں سے ایک ہے۔ سنگاپور میں ڈیجیٹل آلات کی لت جیسے امراض کے ماہرین اور ان مریضوں کے علاج کے لیے کلینک بھی موجود ہے۔ نیز، اسمارٹ فون کے نشےکو باضابطہ طور پر مرض تسلیم کیے جانے کی مُہم بھی جاری ہے۔ نصاب کا حصّہ ہونے کی وجہ سے سنگا پور میں اکثر بچّوں کو اسمارٹ فونز بہ آسانی دست یاب ہیں اور وہاں طلبہ کو واٹس ایپ کے ذریعے ہوم ورک دینا معمول کی بات ہے، جب کہ ہانگ کانگ میں والدین اپنے ایک ماہ کی عُمر تک کے بچّوں کو بھی اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹس وغیرہ کا عادی بنا رہے ہیں۔
سرمایہ کارکمپنیز کی ’’ایپل‘‘ سے اوقات محدود کرنے کی درخواست
بچّوں کی دماغی صحت متاثر ہونے کے پیشِ نظر رواں برس کے اوائل میں دو بڑی سرمایہ کارکمپنیز نے معروف ٹیکنالوجی کمپنی، ’’ایپل‘‘ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایک ایسا سافٹ ویئر تیار کرے، جو بچّوں کے اسمارٹ فون استعمال کرنے کے اوقات محدود کر سکے۔ یہ دو کمپنیز، یانا پارٹنرز اور کیلی فورنیا ٹیچرز پینشن فنڈز،ایپل کے دوارب ڈالرز اسٹاک کی مالک ہیں۔ مذکورہ کمپنیز نے ایپل سے اپنے اسمارٹ فونز میں ڈیجیٹل لاک لگانے کی درخواست کی ہے، جب کہ دوسری جانب انسٹا گرام، ٹویٹر اور فیس بُک جیسے سوشل نیٹ ورکنگ ہاؤسز کا دعویٰ ہے کہ وہ 13برس سے کم عُمر بچّوں کو نیٹ ورکنگ کی اجازت نہیں دیتے۔
بچّے، بھینگے پن کا شکار
ایک برطانوی اخبار کی رپورٹ کے مطابق، جو بچّے موبائل فون کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں یا اسکرین کو اپنی آنکھوں کے بہت قریب رکھتے ہیں، ان میں بھینگے پن کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں کیے گئے ایک تجربے میں ماہرین نے چند بچّوں کو روزانہ 4سے 8گھنٹے تک اسمارٹ فون استعمال کرنے اور اسکرین کو اپنی آنکھوں سے 8سے 12انچ دُور رکھنے کی ہدایت کی ،تو دو ماہ بعد ان میں سے اکثر بچّوں میں بھینگے پن کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئیں۔ بعدازاں، جب ان بچّوں کی موبائل فون استعمال کرنے کی عادت چُھڑوائی گئی، تو بھینگے پن کی علامات بھی ختم ہو گئیں۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ صارفین کو 30منٹ سے زیادہ دیر تک موبائل فون کی اسکرین کو مسلسل نہیں دیکھنا چاہیے۔
زیادہ اسکرین ٹائم ، ہائی بلڈ پریشر کا سبب
سائنسی جریدے، ’’انٹرنیشنل کارڈیالوجی‘‘ میں شایع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 2سے10برس کی عُمر کے وہ بچّے، جو دن میں دو گھنٹے سے زاید وقت اسکرین کے سامنے یعنی ٹی وی، اسمارٹ فون یا ٹیبلٹ استعمال کرتے ہوئے گزارتے ہیں، ان کے خون کے دباؤ میں اضافہ ہو جاتا ہے اور ان میں ہائی بلڈ پریشر یا بلند فشارِ خون کا خطرہ دیگر بچّوں کے مقابلے میں30فی صد زیادہ ہوتا ہے، جب کہ دو گھنٹے سے زاید اسکرین ٹائم کے ساتھ غیر متحرک طرزِ زندگی رکھنے والے بچّوں میں ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ 50فی صد زیادہ ہوتا ہے۔ ریسرچ کے مطابق، غیر متحرک طرزِ زندگی یا بیٹھے بٹھائے انجام دی جانے والی سرگرمیوں نے، جن میں ٹی وی دیکھنا، کمپیوٹر استعمال کرنا اور ویڈیو گیمز کھیلنا وغیرہ شامل ہیں، بچّوں کو کئی جسمانی و نفسیاتی مسائل کا شکار کر دیا ہے۔
بچّے کی آن لائن زندگی کے بارے میں اُسی طرح سوچیں، جیسے آف لائن زندگی سے متعلق سوچتے ہیں
والدین کو بچّوں کے ڈیجیٹل آلات ، آن لائن ایپلی کیشنزکے پاس ورڈز معلوم ہونے چاہئیں
18 ماہ سے کم عُمر بچّوں کو اسکرین آلات سے دُور رکھیں، دو سے پانچ سال کے بچّوں کا اسکرین ٹائم والدین کی موجودگی میں ایک دن میں ایک گھنٹے سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے
جرمنی میں اسمارٹ واچ کی بچّوں کو فروخت اور انٹرنیٹ سے منسلک گڑیا پر پابندی
کثرتِ استعمال سے خود کُشی کے رجحان میں اضافہ
ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا نے بچّوں کی نفسیات پر گہرے منفی اثرات مرتّب کیے ہیں۔ سوشل میڈیا کے استعمال کے باعث 27فی صد کم عُمر بچّے ڈیپریشن کا شکار ہیں اور الیکٹرانک ڈیوائسز پر زیادہ وقت گزارنے کی وجہ سے ان میں خود کُشی کا خطرہ 35فی صد زیادہ پایا جاتا ہے، جب کہ دن میں 3گھنٹے اسمارٹ فون استعمال کرنے والے بچّوں میں خود کُشی کا رجحان سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ دوسری جانب امریکا میں فائرنگ اور قتل کے واقعات کا اہم سبب بھی اسمارٹ فون ہی کو بتایا جاتا ہے۔ امیر ترین ممالک سے متعلق عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ بچّوں کے موٹاپے کے اعتبار سے امریکا سرِ فہرست ہے اور اس کی اہم وجہ بچّوں کا ڈیجیٹل آلات سے چِمٹے رہنا ہے۔ اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹس کی وجہ سے بچّے دیر سے بولنا سیکھتے ہیں۔ ان کی نیند کا دورانیہ کم ہو گیا ہے اور وہ دیر سے بستر پر جاتے ہیں۔
کم زور حافظے کا باعث
سرچ انجنز پر انحصار صارفین کے حافظے کی کم زوری کا باعث بھی بن رہا ہے۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، اسپین، بیلجیم، نیدرلینڈز اور لکسمبرگ سے تعلق رکھنے والے 6ہزار افراد پر کی جانے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان میں سے ایک تہائی افراد کو معلومات حاصل کرنے کے لیے کمپیوٹر کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ مذکورہ ریسرچ میں برطانیہ میں ایسے افراد کی سب سے زیادہ تعداد سامنے آئی اور تقریباً نصف سے زاید افراد کا معلومات تک رسائی کے لیے پہلا انتخاب انٹرنیٹ تھا۔ ایک اور سروے کے مطابق، 45فی صد افراد کو 10سال کی عُمر تک اپنے گھر کے ٹیلی فون نمبرز یاد تھے، 29فی صد کو اپنے بچّوں کے فون نمبرز ذہن نشین تھے، جب کہ 43فی صد کو اپنی جائے ملازمت کے ٹیلی فون نمبرز یاد تھے۔ برطانیہ میں 51فی صد افراد کو اور اٹلی میں تقریباً 80فی صد افراد کو اپنے دوستوں کے ٹیلی فون نمبرز ازبر تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی پر انحصار طویل المدّتی حافظے کی نشوونما میں رُکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ ’’ڈیجیٹل ایمنیسیا‘‘ (بُھولنے کی بیماری) کے شکار افراد وہ اہم ترین معلومات بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بہ وقتِ ضرورت یہ ڈیجیٹل آلات کے ذریعے فوراً حاصل کی جا سکتی ہے۔ اہم ترین معلومات کے علاوہ یادگار لمحات کی اہم تصاویر وغیرہ بھی ڈیجیٹل ڈیوائسز میں محفوظ رکھنے کا رجحان پایا جاتا ہے، جب کہ ان کے گُم یا خراب ہونے کی صورت میں یہ تمام تر مواد ضایع ہوجانے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔
سماجی مہارتوں سے عاری بچّے
مغربی ممالک کے متعدد تعلیمی اداروں کا ماننا ہے کہ دَورِ حاضر کے بچّوں کو یہ تک نہیں معلوم کہ کس کی بات توجّہ سے کیسے سُنی جاتی ہے اور دوسرے بچّوں کے ساتھ کیسے کھیلا جاتا ہے، کیوں کہ یہ بچّے اپنا زیادہ تر وقت حقیقی دُنیا سے دُور ڈیجیٹل ورلڈ میں گزارتے ہیں۔ حقیقی دُنیا سے دُور رہنے کی وجہ سے کئی طلبہ تعلیم میں یک سَر دِل چسپی نہیں لیتے اور یہ آلات ان کے سمجھنے کی صلاحیت کو بُری طرح تباہ کر رہے ہیں، جب کہ والدین کا خیال یہ ہوتا ہے کہ بّچے جس قدر جلد ان ڈیوائسز کو سیکھیں گے، مستقبل میں اسی قدر بہتر انداز میں تعلیم کے حصول کے لیے تیار ہوں گے۔ ماہرین کے مطابق، آئی پیڈ جیسے آلات کتاب کا نعم البدل نہیں ہو سکتے اور طلبہ کو اپنی زندگی میں تخیّل بَھرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم، ڈیجیٹل ڈیوائسز سماجی مہارتوں جیسا کہ دوست بنانے، کسی کام کی ذمّے داری لینے، سلیقہ مند بننے، شائستہ گفتگو کرنے اور جذبات اور غصّے پر قابو پانے میں رُکاوٹ بنتے ہیں اور ایسے طلبہ تنہائی کا شکار رہتے ہیں۔ نیز، ان کی قوّتِ گویائی اور سماعت دونوں نارمل نہیں رہتیں۔ یہ آنکھیں عجیب انداز میں جَھپکتے ہیں، سماجی اونچ نیچ کو نہیں سمجھ پاتے اور ان کی دماغی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ فیس بُک کا مسلسل استعمال کرنے والے بچّے خوشی و غمی کے احساس سے عاری ہو کر حسد اور رشک جیسے جذبات کا شکار ہو جاتے ہیں اور پُرتشدّد و غیر سماجی رویّوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اسی طرح ویڈیو گیمز کھیلنے والوں بچّوں میں مایوسی اور ڈپریشن کی شکایات عام ہیں۔ ایسے بچّے موڈی ہو جاتے ہیں اور اسکول میں بوریت محسوس کرتے ہیں۔
آئی پیڈ جیسے آلات کتاب کا نعم البدل نہیں ہوسکتے،ڈیجیٹل ڈیوائسز طلبہ کی صلاحیتیں تباہ کر رہی ہیں
دُنیا میں ایک بھی ایسا ملک نہیں، جہاںاسکولز میں انٹرنیٹ کا استعمال طلبہ کی تعلیمی استعداد میں بہتری لایاہو
سوشل میڈیا کے استعمال سے 27
فی صد کم عُمر بچّے ڈیپریشن کا شکار ،
خود کُشی کےخطرات 35فی صد زیادہ
ترقّی یافتہ ممالک میں ہر 3میں سے ایک بچّہ بولنے سے قبل ہی اسمارٹ فون کے استعمال سے واقف ، بچّے تاخیر سے بولنا سیکھ رہے ہیں
ڈیجیٹل ورلڈ کے موجدین ، کام یاب شخصیات کے بچّے اسکرین ڈیوائسزسے دُور
ڈیجیٹل ورلڈ کے موجدین، امیر ترین افراد، ہائی ٹیک اداروں کے سربراہان اور دُنیا کی دیگر اہم ترین شخصیات اپنے بچّوں کو ٹیکنیکل یا اسکرین ڈیوائسز سے پاک ماحول فراہم کرتی ہیں یا ان کے محدود استعمال کی اجازت دیتے ہیں۔ اگر ہم ڈیجیٹل ورلڈ کے مرکز، سِلی کون ویلی سے وابستہ دُنیا کا نقشہ تبدیل کرنے والی قد آور شخصیات اور دُنیا کے اہم افراد کی ذاتی زندگی اور اُن کے بچّوں کے معمولات پر نظر ڈالیں، تو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ انہوں نے کس طرح اپنے بچّوں کو ڈیجیٹل ڈیوائسز سے دُور رکھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان مصنوعات کے تخلیق کار ان کے نقصانات صارفین سے کہیں زیادہ بہتر انداز میں جانتے ہیں۔
٭ سِلی کون ویلی کی سرکردہ شخصیات اپنے بچّوں کو ایسے اسکولز میں داخل کرواتی ہیں کہ جہاں ٹیکنالوجی کا استعمال کم ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایمزون اور وکی پیڈیا کے بانی، بالترتیب جیف بیزوس اور جمی ویلز کے بچّوں نے ایسے اسکولز میں تعلیم حاصل کی کہ جہاں ٹیکنالوجی کا استعمال نہ ہونے کے برابر تھا۔
5 برس سے کم عُمر بچّے، روزانہ اسکرین ٹائم 2.8گھنٹے
دُنیا بَھر میں 7سے 9برس کے بچّوں میں سے کم از کم نصف ایسے ڈیجیٹل گیمز کھیلتے ہیں کہ جو صرف بالغان کے لیے تیارکیے جاتے ہیں اوربرطانیہ میں ہونے والی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق، کم عُمر بچّے ہینڈ ڈیوائسز پر ریکارڈ وقت گزارتے ہیں۔ 5برس سے کم عُمر بچّے اسمارٹ فونز یا ٹیبلٹس پر یومیہ 2.8گھنٹے گزارتے ہیں، جب کہ گزشتہ برس یہ شرح 2.6گھنٹے یومیہ تھی۔ہر 4میں سے 3بچّے کمپیوٹر یا ٹیبلٹ تک رسائی رکھتے ہیں، جب کہ 5برس سے کم عُمر ہر 10میں سے 3بچّے ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں۔ اسکول جانے سے پہلے کی عُمر کے بچّوں کی اکثریت کے پاس اپنی ڈیجیٹل ڈیوائسز ہیں اور ان میں یو ٹیوب سب سے مقبول ایپلی کیشن ہے۔ 8سے15برس کی عُمر کے بچّے روزانہ 7گھنٹے سے زاید وقت تک اسکرینز پر جُھکے رہتے ہیں۔ 11سے 12 برس کی عُمر کے 70فی صد اور 14برس کی عُمر کے 90فی صد بچّوں کے پاس ذاتی موبائل فونز ہیں۔ ایک سروے کے مطابق، جرمنی میں نوجوان لڑکے، لڑکیاں موسیقی سے لطف اندوز ہونے، دوستوں سے گپ شپ کرنے یا پھر سوشل میڈیا استعمال کرنے کے لیے روزانہ اوسطاً 3سے4گھنٹے انٹرنیٹ پر صَرف کرتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران دیگر ممالک کی طرح امریکا میں بھی موبائل فون کا استعمال تیزی سے بڑھا ہے۔ 95فی صد امریکی باشندوں کے پاس موبائل فونز ہیں اور 12فی صد امریکی انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لیے اپنا موبائل فون ہی استعمال کرتے ہیں۔ جنوبی کوریا میں ایک ہزار طلبہ پر ہونے والی ایک حالیہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے72فی صد 11سے 12سال کی عُمر کے بچّوں کے پاس ذاتی اسمارٹ فونز ہیں اور وہ ان پر روزانہ اوسطاً 5.4گھنٹے صَرف کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں تقریباً 25فی صد بچّوں کو موبائل فون کا عادی قرار دیا گیا۔ دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی موبائل فون کے استعمال میں اضافہ ہو ا ہے۔ اس وقت 82فی صد پاکستانی شہریوں کے پاس موبائل فونز ہیں اور ان میں سے 31فی صد اسمارٹ فونز ہیں۔
تائیوان ، فرانس سمیت کئی ممالک میں ڈیجیٹل ڈیوائسز پر پابندی
آج دُنیا بَھر کے ممالک ڈیجیٹل ڈیوائسز سے لاحق خطرات بھانپ چُکے ہیں اور اس رجحان پر قابو پانے کے لیے ضابطے ، قوانین بھی وضع کر چُکے ہیں یا کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر تائیوان نے 2015ء میں دو سال کی عُمر تک کے بچّوں کے ڈیجیٹل ڈیوائسز استعمال کرنے پر پابندی عاید کر دی تھی اور 18برس سے کم عُمر بچّوں کو ان آلات کے بہ وقتِ ضرورت اور ایک مخصوص وقت میں استعمال کی اجازت دی گئی تھی۔ اس قانون پر عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں والدین پر دو ہزار ڈالرز سے زاید جُرمانہ عاید کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ چین میں ڈیجیٹل آلات کے استعمال کو وبا ئی صُورت اختیار کرتے دیکھ کر تائیوان نے بچّوں کو اس لت سے بچانے کے لیے یہ قانون بنایا ہے۔ آسٹریلیا میں بچّوں اور میڈیا سے متعلق ایک کائونسل نے حکومت پر زور دیا ہے کہ اسمارٹ فون استعمال کرنے والے بچّوں کی عُمر کا تعیّن کیا جائے۔ خیال رہے کہ آسٹریلیا میں اوسطاً 10برس کی عُمر کے بچّوں کے پاس ذاتی اسمارٹ فون ہوتا ہے۔ جاپان نے رات 9بجے کے بعد بچّوں کے اسمارٹ فون سمیت دیگر ڈیوائسز کے استعمال پر پابندی کے لیے کرفیو نافذ کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ اسی طرح فرانس نے والدین پر زور دیا ہے کہ وہ 3برس کی عُمر تک کے بچّوں کو ٹی وی نہ دیکھنے دیں۔ فرانس نے 2008ء میں فاکس نیوز گروپ کے چینل،’’ بے بی ٹی وی‘‘ پر بھی پابندی عاید کر دی تھی، جس کی نشریات کا بیش تر حصّہ 3برس سے کم عُمر بچّوں کے لیے مخصوص تھا۔ نیز، فرانسیسی حکومت نے رواں برس جنوری سے اسکولز میں 15برس تک کی عُمر کے بچّوں کے اسمارٹ فون استعمال کرنے پر بھی پابندی عاید کر دی ہے۔ طلبہ کو سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ یا تو اسکول میں اپنے اسمارٹ فونز سوئچ آف رکھیں یا پھر اسے گھر چھوڑ آئیں۔ امریکی ماہرینِ اطفال بھی 18ماہ تک کے بچّوں کو اسکرین سے دُور رکھنے کے حامی ہیں۔ جرمنی نے بچّوں کو اسمارٹ واچ کی فروخت پر پابندی عاید کر دی ہے، جب کہ اس سے قبل فروری میں انٹرنیٹ سے منسلک گڑیا پر بھی پابندی لگائی جا چُکی ہے۔ علاوہ ازیں، جنوبی کورین حُکّام نے 2011ء میں متعدد احکامات نافذ کیے، جن کی رُو سے رات 12بجے کے بعد آن لائن گیمز تک بچّوں کی رسائی پر پابندی عاید کر دی گئی۔ چین میں انٹرنیٹ کی لت کو طبّی مرض قرار دیا گیا ہے اور اس سے نجات کے لیے فوجی طرز کے کلینکس قائم کیے گئے ہیں۔
پاکستانی والدین، بیش قیمت موبائل فونز
پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق، مُلک میں 15کروڑ سے زاید شہری موبائل فونز استعمال کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان میں تحقیق نہ ہونے کی وجہ سے دُرست اعداد و شمار تک رسائی خاصی مشکل ہے۔ ڈیجیٹل ڈیوائسز کے حوالے سے کسی قسم کے قوانین و ضوابط یا گائیڈ لائنز موجود نہیں۔ تاہم، مُلک میں بچّوں کو بیش قیمت اسمارٹ فونز خرید کر دینا باقاعدہ کلچر بنتا جا رہا ہے۔ موبائل فون کے بہ کثرت اور مسلسل استعمال سے سماجی اور گھریلو تعلقات پر منفی اثرات مرتّب ہو رہے ہیں اور یہ بچّوں اور والدین کے درمیان بھی دیوار بن رہے ہیں۔ 2011ء کی ایک رپورٹ کے مطابق، دُنیا بَھر میں ایس ایم ایس کے تبادلوں کے اعتبار سے پاکستان پانچویں نمبر پر تھا اور صرف 2009ء میں پاکستانی شہریوں نے 1.5ارب سے زاید ایس ایم ایس بھیجے اور وصول کیے۔ جنوری 2012ء میں پنجاب اسمبلی نے صوبے بَھر کے تعلیمی اداروں میں موبائل فون کے استعمال پر مکمل اور فوری پابندی عاید کرنے کی قرارداد منظور کی تھی۔ اس قرارداد میں کہا گیا تھا کہ موبائل فون کا استعمال اچّھی بات ہے، لیکن اس کے بے جا استعمال سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ موبائل فون کے استعمال کے باعث بچّے اسکول میں پڑھائی پر دھیان نہیں دیتے اور بعض زیادہ تر اپنے دوستوں کے ساتھ پیغام رسانی میں مصروف رہتے ہیں۔ یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ کے موبائل فون استعمال کرنے پر پابندی کے حوالے سے پہلے ہی مُلک میں قانون موجود ہے، لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہورہا۔ تاہم، پنجاب کے سرکاری اسکولز میں اساتذہ کے موبائل فون استعمال کرنے پر پابندی عاید کردی گئ ہے۔دوسری جانب مہنگے موبائل فونز خریدنے کی سکت نہ رکھنے والے والدین کے بچّے دوسرے بچّوں کے پاس بیش قیمت اسمارٹ فونز اور دیگر ڈیجیٹل ڈیوائسز دیکھ کر احساسِ محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مذکورہ قرارداد سے قبل ایک اور قرارداد کے ذریعے وفاقی حکومت سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ نوجوان نسل کے بہتر مستقبل کے لیے موبائل فون نیٹ ورکنگ کمپنیز کی جانب سے متعارف کروائے گئے نائٹ پیکیجز پر پابندی عاید کی جائے۔ دوسری جانب یونیسف کا ماننا ہے کہ حکومتوں اور نجی شعبے نے وقت گزرنے کے ساتھ بچّوں کو گوناگوں خطرات سے بچانے کے لیے کوئی خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے، جس کی وجہ سے لاکھوں بچّے پیچھے رہ گئے۔اس سلسلے میں بچّوں کو ڈیجیٹل پالیسی میں مرکزی حیثیت دی جائے اور بچّوں کو معلومات فراہم کرنے کے لیے ڈیجیٹل ٹیچنگ اور محفوظ آن لائن سہولت فراہم کرنے جیسے اقدامات کیے جائیں۔ والدین کو اس بارے میں آگاہ کرنے کے لیے محکمۂ تعلیم اقدامات کرے۔ اس وقت نجی شعبے اور حکومت کو بچّوں کو آن لائن تحفّظ فراہم کرنے پر سب سے زیادہ توجّہ دینے کی ضرورت ہے، کیوں کہ پاکستان جیسے مُلک میں بچّوں کی ترقّی اور آگے بڑھنے کی رفتار کا دارومدار کافی حد تک محفوظ اور بڑے پیمانے پر آسانی سے دست یاب آن لائن مواقع پر ہے۔ پاکستان سمیت دُنیا بَھر میں بچّوں اور نوجوانوں کو انٹرنیٹ سے دُور رکھنا ایک غیر منصفانہ عمل ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے ان کی ڈیجیٹل اکانومی میں حصّہ لینے کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔ اس وقت پاکستان میں بچّوں کا کوئی مخصوص چینل ہے اور نہ ہی کوئی پروگرام۔ گرچہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ بچّوں کے لیے ٹی وی چینل کا آغاز کرنے والی ہے، لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ ٹی وی چینل لانچ کرنے سے زیادہ اُس کا مواد اہمیت رکھتا ہے۔
بچّوں کے اسکرین ٹائم پر حد لگانے کا مقصد
زندگی کے ابتدائی دو برس بچّوں کی نشوونما کے اعتبار سے خاصے اہم ہوتے ہیں۔ اس عرصے کے دوران بچّے دن کا 40سے 60فی صد حصّہ سو کر گزارتے ہیں۔ چُوں کہ اس دوران وہ بولنا سیکھتے ہیں، اس لیے انہیں والدین کی قُربت کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے، جب کہ بچّے کی مجموعی نشوونما کے اعتبار سے زندگی کے ابتدائی 6برس ’’سُنہری دَور‘‘ کہلاتے ہیں اور اسے وہ اپنے والدین کے ساتھ گزارتے ہیں۔ اس مدّت میں انجام دی جانے والی معیاری سرگرمیاں مستقبل میں بچّے کے سیکھنے، سمجھنے، سوچنے اور سماجی اشتراک کے عمل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ لہٰذا، اسکرین ٹائم پر حد لگانے کا مقصد بچّوں کو صحت مند جسمانی و ذہنی سرگرمیوں میں مصروف رکھنا ہے۔ اس کی وجہ سے بچّے کھیل کُود، تعلیم اور ڈرائنگ جیسی دوسری تخلیقی سرگرمیوں سمیت خاندان اور دوستوں کے لیے وقت نکال پاتے ہیں۔ اگر یہ حد مقرّر نہ ہو، تو بچّے کی نیند اور بُھوک ختم ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ تاہم، اس حد کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ بچّے کو ٹی وی دیکھنے یا ویڈیو گیمز کھیلنے سے بالکل ہی روک دیا جائے۔ نیز، بچّہ ہوم ورک کے لیے بھی ڈیجیٹل ڈیوائسز استعمال کرسکتا ہے۔
والدین، بچّوں کے مابین ’’فیملی میڈیا معاہدہ‘‘
بچّوں کے ڈیجیٹل ڈیوائسز پر زیادہ وقت گزارنے کی وجہ سے بیش تر والدین فکرمند ہیں۔ تاہم، بچّوں پر سختی کی بہ جائے اُن کی بہتر تربیت ہی انہیں آن لائن یلغار سے بچا سکتی ہے اور وہ اسمارٹ فون یا انٹرنیٹ کو بہتر طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے والدین، بچّوں کے ساتھ ایک ’’فیملی میڈیا معاہدہ‘‘ کرنے کوشش کریں، تاکہ خاندان کا ہر فرد ان طے شدہ اصول و ضوابط کی اہمیت اور ان کی خلاف ورزی کے نتائج کو سمجھ سکے۔ اس معاہدے میں مندرجہ ذیل نکات شامل ہونے چاہئیں:
والدین کے لیے ضروری ہدایات
والدین، بچّوں کو اسمارٹ فون دینے سے قبل اُن کے پختہ ذہن ہونے کا انتظار کریں، تاکہ وہ اسے ذمّے داری کے ساتھ استعمال کر سکیں۔ اپنے بچّے کو اسمارٹ فون دیتے وقت اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کی راز داری کی سیٹنگز سخت ہوں۔ اُن سیٹنگز اور ایپس پر جائیں، جو آپ کا بچّہ استعمال کرتا ہے اور پیرنٹس کنٹرول ترتیب دیں، تاکہ اگر بچّہ کوئی غلطی کرے، تو اس کے نتائج محدود ہوں۔ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھیں۔ والدین کو بچّوں کی ڈیجیٹل ڈیوائسز اور آن لائن ایپلی کیشنز کے پاس ورڈز معلوم ہونے چاہئیں۔ بچّوں کی غیر موجودگی میں اُن کے موبائل فونز یا کمپیوٹرز وغیرہ چیک کریں۔ بچّوں کو قبل از وقت اور بِلا ضرورت ذاتی موبائل فونز یا کمپیوٹرز لے کر نہ دیں۔ ان کی انٹرنیٹ سرفنگ کا وقت مقرّر کریں۔ بچّوں کو زیادہ دیر تر موبائل فون نہ استعمال کرنے دیں اور رات کو فون بند کر دیں۔ اپنے بچّوں کو انٹرنیٹ کے متعلق تفصیلاً بتائیں۔ انہیں اس کے فواید اور نقصانات دونوں سے آگاہ کریں۔ بچّوں کو خود ڈیجیٹل ڈیوائسز کا استعمال سکھائیں۔ ان آلات کے ذریعے اپنے تعلیمی مسائل حل کرنے اور معلومات حاصل کرنے کا طریقہ بتائیں۔ بچّوں کو انٹرنیٹ پر منعقد ہونے والے تعلیمی مقابلوں میں شریک ہونے کی ترغیب دیں اور اس سلسلے میں ان کی مدد کریں۔ یاد رہے کہ بچّوں کو ڈیجیٹل ڈیوائسزکے استعمال سے متعلق کُھل کر بتانا نہایت ضروری ہے اور اس سلسلے میں غیر ضروری شرم و حیا اور تکلّف و آداب کو بالائے طاق رکھیں۔ بچّوں کو ان آلات کے غلط استعمال اور بُرے اثرات سے آگاہ کریں۔ انہیں اخبارات و رسائل میں شایع ہونے والے ان کے غلط استعمال سے رُونما ہونے والے عبرت ناک واقعات پڑھوائیں اور ان میں ڈیجیٹل ڈیوائسزکے صحیح اور غلط استعمال کی تمیز پیدا کریں۔ نیز، بچّوں کے کمرے کی بہ جائے کمپیوٹر گھر میں کسی ایسی جگہ پر رکھیں کہ جہاں گھر کے تمام افراد کی آمد و رفت ہوتی ہو، جیسا کہ ٹی وی لاؤنج، تاکہ بچّوں کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکے۔ جب بچّے انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہوں، تو اُن کے پاس موجود رہیں، تاکہ اُن کی بہتر انداز میں رہنمائی کر سکیں۔
پس پردہ غیر مرئی طاقت سے بچائو کیسے…؟؟
اسکرین صرف تفریح یا وقت گزاری کا سامان نہیں، بلکہ اس کے پیچھے ایک انجانا خوف اور غیر مرئی طاقت بھی موجود ہے۔ بچّے کو اس سے محفوظ رکھنے اور ایک ذمّے دار شہری بنانے کے لیے ضروری ہے کہ والدین اُس کی آن لائن اور آف لائن سرگرمیوں میں دِل چسپی لیں اور اس ضمن میں بات چیت میں تجسّس کا اظہار کریں، لیکن ان کا انداز حکمیہ نہیں ہونا چاہیے۔ تقریبات کو اپنے معمولات میں شامل کریں، کیوں کہ اس قسم کی سرگرمیاں والدین اور بچّوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ بچّوں کی خود اعتمادی میں اضافہ کریں۔ نتائج سے زیادہ اُن کی کاوش کی تعریف کریں اور بچّوں کی مثبت سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ سوشل میڈیا پر کی گئی تعریف و تحسین میں گُم رہنے کی بہ جائے حقیقی احساسات کو اہمیت دیں۔ دیگر سرگرمیوں اور دِل چسپی کے عوامل میں بھی بچّوں کی معاونت کریں، تاکہ انہیں مختلف قسم کے ذرایع سے مثبت تقویّت حاصل ہو۔ بچّے کے مثبت رویّوں میں معاون ثابت ہونے والے دوسرے بچّوں کی دِل چسپ سرگرمیوں کی حمایت کر کے انہیں ایک دوسرے کا دوست بنانے میں مدد کریں۔ اگر بچّے کے کچھ دوست ٹھیک نہ ہوں ، اُس کے منفی رویّوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہوں، تو ان پر نظر رکھیں۔ تاہم، نگرانی کرتے وقت محتاط رہیں اور بچّے کے دوستوں پر براہِ راست تنقید نہ کریں، کیوں کہ اس کے نتائج آپ کی توقّع کے برعکس بھی نکل سکتے ہیں۔ بچّوں کا تعلق خاندان کے قریبی افراد کے علاوہ رشتے داروں، اپنے آن لائن دوستوں، اساتذہ اور ایسے بہی خواہوں سے یقینی بنائیں کہ جو بچّے کی نادانستہ طور پر کسی غیر مناسب آن لائن سرگرمی میں ملوّث یا اُس کا شکار ہونے پر اُس سے رابطہ کر سکیں، کیوں کہ ایسی صورتِ حال میں اکثر و بیش تر بچّے اپنے والدین کے شدید ردِ عمل کے خوف سے انہیں حقیقت بتانے سے گھبراتے ہیں، جب کہ قابلِ اعتماد نیٹ ورک کی صورت میں بچّے بُحرانی صورتِ حال میں آپ سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ اپنے بچّے کی آن لائن زندگی کے بارے میں بالکل اسی طرح سوچیں، جس طرح اُس کی آف لائن زندگی سے متعلق سوچتے ہیں۔ بچّوں سے اُن کے آن لائن فرینڈز اور اُن کی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھیں اور اُن کے تعریفی تبصروں پر بالکل اسی طرح گفتگو کریں، جیسے ہوم ورک کے بارے میں کرتے ہیں۔ اپنے بچّے کے رویّے میں رُونما ہونے والی تبدیلی پر نظر رکھیں۔ اگر بّچہ غیر معمولی طور پر افسردہ رہنے لگا ہے، تو اسے سنجیدہ لیں۔ اس حوالے سے نفسیاتی معالج اور اساتذہ سے رجوع کریں۔ بچّوں کی آن لائن تحریری بات چیت کو پڑھیں اور اس میں شامل مثبت اور منفی نکات نوٹ کریں۔ بچّے سے آن لائن غلطی سر زد ہونے پر پریشان ہونا فطری اَمر ہے، لیکن کوئی بھی ردِ عمل ظاہر کرنے سے پہلے حقائق جمع کرنا بہترین کوشش ہے۔ اس موقعے پر نہایت صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بچّے سے بات چیت کے لیے مناسب موقع تلاش کریں، بچّے سے نرمی سے بات کریں اور تسلّی و اطمینان کے ساتھ اُس کی وضاحت سُنیں۔ پھر آیندہ کا لائحہ عمل طے کرتے وقت بچّے کے پاس بیٹھیں، اس کی حوصلہ افزائی کریں اور ایسے مواد، ایپس یا ڈیوائسز پر پابندی لگانے کا سوچیں، جس کی وجہ سے بچّے نے اُس غلطی کا ارتکاب کیا۔
سالانہ 30کھرب صَرف کرنے کے باوجود طلبہ کی کارکردگی زوال پزیر
عالمی پیمانے پر اسکولز میں تعلیمی ٹیکنالوجی پر سالانہ 30کھرب روپے (17.5ارب پاؤنڈز) سے زاید کے اخراجات آتے ہیں، جب کہ برطانیہ میںاس مَد میں سالانہ 90کروڑ پاؤنڈز خرچ کیے جاتے ہیں۔ عالمی تحقیق کے مطابق، اسکولز میں کمپیوٹر اور کلاس رُوم ٹیکنالوجی پر کی جانے والی بھاری سرمایہ کاری طلبہ کی کارکردگی بڑھانے میں مددگار ثابت نہیں ہو رہی۔ ’’آرگنائزیشن فار اکنامک کارپوریشن اینڈ ڈیولپمنٹ‘‘ نامی تھنک ٹینک کا ماننا ہے کہ اسکولز میں کمپیوٹر کے مسلسل استعمال کو ناقص نتائج سے منسلک کیے جانے کا امکان زیادہ ہے اور کمپیوٹر اور ٹیبلٹ کا بہ کثرت استعمال کرنے والے طلبہ کی کارکردگی دیگر طلبہ کی نسبت کم زور ہوتی ہے۔ اس کے برعکس ایشیائی ممالک میں جنوبی کوریا اور چین کے اسکولز میں کمپیوٹر کے استعمال کی شرح انتہائی کم ہے۔ تاہم، اسکولز میں ڈیجیٹل مہارت کے اعتبار سے سنگاپور سرِفہرست ہے۔ اسکولز میں انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال کے حوالے سے قابلِ ذکر ممالک، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور سوئیڈن میں طلبہ کی کارکردگی میں نمایاں زوال دیکھا گیا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے ہم نے ہمیشہ غلط امیدیں وابستہ کیں۔ دُنیا بھر میں ہونے والی تحقیقات ثابت کرتی ہیں کہ پوری دُنیا میں کوئی ایک مُلک بھی ایسا نہیں، جہاں اسکولز میں انٹرنیٹ کا عمومی استعمال طلبہ کی تعلیمی استعدادمیں بہتری لانے کا سبب بنا ہو۔
اسمارٹ فون نشہ کب بنتا ہے؟
لت میں مبتلا افراد کی علامات
جرمن ماہرین کا ماننا ہے کہ کمپیوٹر اور اسمارٹ فون سمیت اس نوع کی دیگر اسکرین ڈیوائسز کا استعمال 5مراحل سے گزرنے کے بعد نشہ بنتا ہے۔ پہلے مرحلے میں کوئی بچّہ یا فرد صرف آزمایش کے لیے ان پر ویڈیو گیم کھیلتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں اُسے اس کھیل میں لطف آنے لگتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں گیم کھیلنا اُس کی عادت بن جاتی ہے، جب کہ چوتھے اور پانچویں مرحلے میں یہ عادت خطرناک حدوں کو چُھونے لگتی ہے اور تب اسے ’’لت پڑنا‘‘ کہا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، جب کوئی شے باقاعدہ نشہ بن جائے، تو تب دماغ پر اس کے اثرات منشّیات ہی کے مانند مرتّب ہوتے ہیں اور انسان بے خودی کے عالم میں خود کو کسی اور ہی دُنیا کا باسی محسوس کرتا ہے۔ تاہم، یہ رجحان اس وقت زیادہ خطرناک شکل اختیار کر لیتا ہے کہ جب کوئی انٹرنیٹ صارف ہر چند لمحوں بعد فیس بُک پر اپنے فرینڈز کی نئی پوسٹس اور اپنی پوسٹس کو ملنے والی پزیرائی کا جائزہ لینے لگےاور اپنی ہر سرگرمی، تصویرکی شکل میں فیس بُک پر شیئر کرنا ضروری سمجھے۔
منشّیات کے عادی افراد کی طرح اسمارٹ فون کی لت میں مبتلا صارفین میں بھی مندرجہ ذیل علامات پائی جاتی ہیں:
بِلاوجہ اسمارٹ فون کی اسکرین تکتے رہنا۔ڈیوائس سے جُدائی کا سوچ کر ہی پریشانی، بے چینی محسوس کرنا۔اسمارٹ فون پر وقت گزاری کو سماجی تعلقات پر فوقیت دینا۔اسمارٹ فون چیک کرنے کے لیے بار بار جاگنا۔تعلیم یا کام کی کارکردگی میں کمی آنا۔ نِت نئی ایپس سے متاثر ہو نا۔ چلتے وقت لوگوں سے ٹکرانا یا گر جانا۔
’’ اسکرین ٹائم ‘‘ کیا ہے؟
اسکرین ٹائم کے لیے سفارشات
آج ٹیلی ویژن، کمپیوٹر، اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ وغیرہ ہماری زندگی کا لازمی جُزو بن چُکے ہیں اور ان مصنوعات یا ڈیوائسز پر صَرف کیے جانے والے وقت کو ’’اسکرین ٹائم‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان آلات پر ویڈیو گیمز کھیلنا، بات چیت کرنا، تصاویر بنانے کے لیے آن لائن ٹولز استعمال کرنا، فلمز، ٹی وی چینلز یا ویڈیوز دیکھنا اور کام کرنے سمیت دیگر سرگرمیوں کو انجام دینا اسکرین ٹائم کے زمرے میں آتا ہے۔
مخصوص وقت اور مقامات کو ’’اسکرین فری‘‘ رکھنابچّے اور خاندان کے لیے ایک صحت مند طرزِ زندگی ہے۔ اس ضمن میں ’’امریکن اکیڈمی آف پیڈیا ٹریکس (اے اے پی) کی سفارشات مندرجہ ذیل ہیں:
اسکرین آلات کے استعمال کے رہنما اصول