• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جی، برطانیہ کی تازہ خبر یہی ہے۔ اس تمدن اور تہذیب کے گہوارے میں آج صورتحال یہ ہے کہ ہر دوسرے تیسرے دن کسی نہ کسی پر چاقو چلنے کی خبر آتی ہے۔ اکثر مارنے والا بھی نو عمر ہوتا ہے اور مرنے والا بھی۔ اوپر سے یہ کہ ان وارداتوں میں ایک نہ ایک فریق سیاہ فام ہوتا ہے۔ یہ معاملہ اتنا سنگین ہوتا جا رہا ہے کہ حکمراں جماعت سخت پریشان ہے۔ مگر اس میں بڑا قصور حکومت کا یوں ہے کہ اس نے بچت اور کفایت شعاری کی جو مہم چلائی ہے اور اخراجات میں کٹوتی کے نام پر ملک میں پولیس کا عملہ کم کرنے کی جو کارروائی کی ہے اس کا نتیجہ سامنے آنے لگا ہے۔ قتل کی بڑھتی ہوئی وارداتوں میں کون کون سے عوامل کام کر رہے ہیں، یہ ایک لمبی بحث ہے لیکن سوچیں تو عجب بات ذہن میں آتی ہے۔ ہماری اس دنیا میں ہزار طرح کی مخلوق آباد ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک کرنے کا اتنا چلن کسی میں نہیں جتنا انسان میں ہے۔ یہ اس کی فطرت ہے، جبلّت ہے یا عادت۔ ذرا سوچئے کہ یہ سلسلہ حضرت آدمؑ کے وقت سے چلا آرہا ہے جب دنیا کی کُل آبادی پانچ چھ نفوس سے زیادہ نہ تھی۔ اس کے بعد جب سے تاریخ نے ہوش سنبھالا ہے، سینے میں چاقو اتارے جانے کا سلسلہ ایک روز بھی نہیں رُکا۔ یہ تو خیر جسے آتشیں اسلحہ کہتے ہیں اور جسے ہم تمنچہ کہا کرتے تھے، بہت تازہ بات ہے۔ ہمارے بڑے جب کبھی آپس میں لڑتے تھے اور آمنے سامنے ہوتے تھے تو تیر یا نیزے سے کام لیتے تھے، گتھم گتھا ہو جائیں تو چاقو، چھرے، جمدھر، بچھوے، کٹار یا نیمچہ سے کام چلاتے تھے۔ اس ڈھنگ سے مرنے مارنے میں زحمت بہت تھی۔ یہاں تک کہ چینیوں نے بارود ایجاد کیا۔ پہلے توپ بنی جس میں بارود بھر کر لوہے یا پتھر کا گولا داغا جاتا تھا۔ پھر وہی توپ سکڑتے سکڑتے ہمارا تمنچہ بنی اور آج تو ہزار طرح کی خودکار پستولیں نکل آئی ہیں، ایک لبلبی دبائی اور غنیم وہیں گر پڑا۔ اس معاملے میں امریکیوں کو بڑی شہرت حاصل ہے۔ عجب معاشرہ ہے۔ پستول اور ریوالور سے بڑھ کر مشین گن کی طرح گولیاں برسانے والا اسلحہ لے کر یوں گھومتا ہے جیسے ہتھیار نہ ہو، کھلونا ہو۔ اوپر سے غضب یہ کہ جس شوق سے اپنے پاس ہتھیار رکھتا ہے، اسی اشتیاق سے ہلاکتیں بھی کرتا ہے۔ امریکہ کا تو روز کا قصہ ہے کہ کوئی صاحب اٹھے اور جہاں کچھ لوگ جمع دیکھے، ان پر گولیوں کی باڑھ چلا دی۔ یہاں تک کہ تعلیمی اداروں میں بچے ایک دوسرے کو ہلاک کرنے لگے۔ ایسے میں آوازیں بلند ہوتی ہیں کہ ملک میں اسلحہ رکھنے پر پابندی لگائی جائے۔ اس پر عوام کا ایک بڑا اور طاقتور حلقہ تن کر کھڑا ہو جاتا ہے اور نعرہ لگاتا ہے کہ ہتھیار رکھنا اور اپنی حفاظت کرنا ہمارا حق ہے۔ امریکہ میں کبھی ہتھیاروں کی دکانیں دیکھئے۔ وہ دکانیں نہیں، اسٹور بلکہ سوپر اسٹور ہیں جن میں ہزار طرح کے ہتھیار سجائے گئے ہیں، لوگ ٹہلتے ہوئے جاتے ہیں اور اپنی پسند کا اسلحہ لے کر نکلتے ہیں۔

چلئے یہ تو جدید زمانے کی نسل کا مسئلہ ہے۔ اب تو گھر والوں میں آپس میں بحث و تکرار ہو جائے تو کلاشنکوف نکال کر جھٹ فیصلہ کر دیتے ہیں۔ پھر دودھ کا دودھ نہیں ہوتا، خون ہی خون ہوتا ہے۔

ایسے جدید زمانے میں برطانیہ والوں کو کیا سوجھی کہ چاقو کا استعمال عام کر دیا۔ لندن میں پولیس نے مشکوک راہگیروں کی تلاشیاں لیں تو پولیس والوں کے خلاف سخت احتجاج ہونے لگا۔ تلاشی کے لئے روکے جانے والوں میں اکثر سیاہ فام لوگ ہوتے ہیں، وہ سخت برہم ہیں کہ ان ہی کو تاک کر کیوں روکا جاتا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ ہوا لندن کے ایک پارک میں ایک سفید فام خاتون نے ایک عرب لڑکی کو چھرا گھونپ کر مار ڈالا۔ جوان لڑکی ڈاکٹریٹ کرنے کے لئے برطانیہ آئی تھی اور اپنے کالج سے گھر جا رہی تھی۔ حملہ آور خاتون نے ذرا دیر پہلے ایک اسٹور سے چھرا خریدا اور پار ک میں پہنچی جہاں سے یہ عرب بچی گزر رہی تھی۔ خاتون نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، لڑکی کو مار ڈالا۔ پکڑی گئی۔ تاویل یہ پیش کی کہ خدا جانے مجھے کیا ہوا۔ جی مچلا کہ کسی کو ہلاک کروں۔ اس واقعے میں کوئی مبالغہ نہیں۔ ابھی ایک سولہ سترہ سال کی خوش شکل لڑکی کو دو آدمیوں نے چاقو کے وار کرکے مار ڈالا۔ خاص طور سے جب سے سنہ انّیس شروع ہوا ہے، چاقو زنی کچھ زیادہ ہی زوروں پر ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ایسے واقعات کی تشہیر ہونے سے بیمار ذہن لوگوں کو شہ ملتی ہے۔ حکومت برطانیہ پہلے ہی ایک عذاب میں الجھی ہوئی ہے اور یورپی یونین سے نکلے تو کیونکر، یہی مخمصہ اس کے لئے گلے کی چھچھوندر بنا ہوا ہے۔

آخر میں ایک دل چسپ بات۔ مغربی ملکوں میں آپ جانتے ہیں کہ کھانا چھری کانٹے سے کھایا جاتا ہے۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ یورپ میں چھری کانٹے سے کھانے کا رواج اسپین میں مسلمانوں نے ڈالا تھا۔ یہ رواج بہت عام ہوا تو ہر گھر میں چھری کانٹے آگئے مگر پہلے پہل یہ چھری آج کے چاقو جیسی ہوا کرتی تھی، تیز دھار اور نوکیلی۔ ویسی ہی جیسے چھری آج کچن میں استعمال ہوتی ہے۔ جب چھری کی افراط ہوئی تو اس کے نقصان دہ اثرات بھی نمودار ہونے لگے۔ جرائم میں اضافہ ہوا تو ایک بڑا فیصلہ کیا گیا۔ دستر خوان پر استعمال ہونے والی چھری کی نوک ختم کرکے اسے گول کر دیا گیا اور اس کی تیز دھار ختم کر کے قدرے کند کر دیا گیا چنانچہ آج تک چھری کانٹے اسی طرح بنتے ہیں مگر دکانوں میں سجے ہوئے بڑے جان لیوا اور خطرناک چھرے اور خنجر دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ان کی فروخت یوں کھلے عام کیوں جاری ہے۔

میں لندن کی اپنی گلیوں میں ہر شام چہل قدمی کے لئے نکلتا ہوں جسے واک کہا جاتا ہے۔ دن چھوٹے ہیں اور اندھیرا جلدی ہو جاتا ہے۔ ایسے میں کوئی لپکتا ہوا شخص قریب سے گزرتا ہے تو دل ذرا سا لڑکھڑاتا ضرور ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین