ایک عام عورت کی جس قدر تذلیل اِمسال 8 مارچ (نام نہاد ’’عالمی یومِ خواتین‘‘) کے موقعے پر ہوئی ہے، غالباً 1909ء سے پہلے (جب سوشلسٹ پارٹی آف امریکا نے ہر سال عورتوں کا ایک دن منانے کی قرارداد منظور کی) بھی نہیں ہوتی ہوگی۔ یہ دن دراصل نیو یارک، امریکا کی ایک گارمنٹ فیکٹری میں بہت کم اجرت پر 12,12گھنٹے کام کرنے والی ان سیکڑوں خواتین ورکرز کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے طورپرمنایاجاتا ہے، جو مسلسل استحصال سے تنگ آکر بالآخر 8مارچ 1907ء کو سڑکوں پر نکل آئیں اور صنفی امتیاز، عدم مساوات کے خلاف، اوقاتِ کار میں کمی اور اجرت میں اضافے کے لیے بھرپور مظاہرے کیے۔ جواباً اُن پر وحشیانہ تشدّد، لاٹھی چارج ہوا، متعدد گرفتار کرلی گئیں، مگر اُن کی جدوجہد جاری رہی، احتجاج بڑھتا گیا اور تحریک زور پکڑتی چلی گئی۔
اِسی 8 مارچ، عالمی یومِ خواتین کو چند خود ساختہ لبرل، روشن خیال خواتین نے پاکستان میں جس طرح ہائی جیک کر کے بدنام کیا ہے، کسی اور یوم کی اِس حد تک ذلّت و رسوائی، جگ ہنسائی کی مثال نہیں ملتی۔ خاص طور پر پچھلے دو تین برسوں سے تو آزادئ نسواں اور خواتین کے حقوق کے نام پر جو سرکس لگا ہوا ہے، وہ امّتِ مسلمہ کی خواتین ہی نہیں، کسی بھی حیادار عورت کے منہ پر کسی طمانچے سے کم نہیں۔ چند سرپھری، بے لگام خواتین ہاتھوں میں کچھ بینرز اٹھا کر (جن پر ایسے حیا سوز، اخلاق باختہ نعرے درج ہوتے ہیں کہ لاج، شرم والی خواتین تو دُور، مَردوں کی بھی دیکھ کر نگاہ جُھک جائے) مظاہروں، ریلیوں اور’’عورت آزادی مارچ‘‘ کےنام پرسڑکوں، چوراہوں، بازاروں میں نکل آتی ہیں اور خود اپنا ہی نہیں، اُس ’’عام عورت‘‘ کا بھی خوب تماشا بناتی، استہزا اُڑواتی ہیں، جو درحقیقت آج تک اپنے ہی نہیں، بنیادی انسانی حقوق تک سے محروم ہے۔ گزشتہ برس ’’کھانا خود گرم کرلو‘‘ اور ’’مائی باڈی از ناٹ یور بیٹل گرائونڈ‘‘ جیسے نعروں سے شہرت پانے والی یہ مُہم، اس برس تو ایسے فحش اور مخرّبِ اخلاق بینرز، اسکیچز تک جا پہنچی کہ دین و مذہب تو ایک طرف، سماجی اقدار و روایات، ادب و تہذیب تک کا جنازہ نکال دیا گیا۔ ’’مَیں آوارہ، مَیں بدچلن‘‘،’’میرا جسم، میری مرضی‘‘، ’’عورت بچّہ پیدا کرنے کی مشین نہیں‘‘، ’’اگر دوپٹا اتنا پسند ہے، تو آنکھوں پہ باندھ لو‘‘، ’’تمہارے باپ کی سڑک نہیں‘‘، ’’آج واقعی ماں، بہن ایک ہورہی ہیں‘‘، ’’لو بیٹھ گئی صحیح سے‘‘، ’’دیکھو، مگر میری رضامندی سے‘‘، ’’طلاق یافتہ ہوں لیکن بہت خوش ہوں‘‘، ’’مجھے کیا معلوم، تمہارا موزہ کہاں ہے؟‘‘، ’’نظر تیری گندی اور پردہ میں کروں‘‘، ’’کھانا خود گرم کرنا سیکھ لیا، آئو کھانا ساتھ بنائیں‘‘، اور ’’اپنا ٹائم آگیا‘‘، تو وہ نعرے ہیں، جنہیں پھر بھی کہیں نقل کیاجاسکتا ہے، جب کہ بعض سلوگنز، اسکیچز، نعرے تو دہرائے بھی نہیں جاسکتے کہ انہوں نے تو یورپ تک کو مات دے دی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس ایک روزہ بے مقصد اچھل کود، دھماچوکڑی، ناٹک، پُتلی تماشے (عرفِ عام میں ٹوپی ڈرامے) سے حاصل وصول کیا ہو رہا ہے۔ اِن بے ہودہ پلے کارڈز بینرز، سلوگنز، اسکیچز سے اُس عام استحصال زدہ عورت کے مسائل، مشکلات میں کیا کمی آگئی، جو پیدایش سے محنت و مشقّت، ظلم و جبر کی چکّی میں پِس رہی ہے اور مرتے دَم تک پستی رہے گی۔ کیا کھانا بنانا، گھر کے مَردوں (اپنے شوہر، بچّوں) کو کھانا گرم کرکے دینا، موزے، جوتے تلاش کرنا اور دوپٹا اوڑھنا کسی بھی عام عورت کے لیے کبھی بھی کوئی مسئلہ رہا ہے۔ ایک عام عورت کے حقیقی مسائل،مشکلات کاتوان بینرز میں کہیں ذکر ہی نہیں ہے، بلکہ ایک مخصوص طبقے کی نمائندہ اِن خواتین کو تو شاید اُن مسائل کا ادراک بھی نہیں۔ ویسے حیرت انگیز بات ہے، اپنے حُلیوں سے یہ خواتین جس طبقے کی نمائندگی کرتی ہیں، کیا کھانا بنانا، گرم کرکے دینا، جوتے، موزے تلاش کرنا، صحیح سے بیٹھنا، اپنی پسند کا لباس نہ پہننا یا دوپٹا وغیرہ اوڑھنا کبھی ان کے مسئلے یا فرائض، ذمّےداریوں میں شامل بھی رہے ہیں۔ اس ایلیٹ، اپَر کلاس کے مرد تو خود کُکنگ کے بے حد شوقین ہیں۔ نہ بھی ہوں، تو کس گھر میں ملازمین، خانسامے موجود نہیں۔ ہفتے میں ایک دوبار ہوٹلنگ بھی لازمی ہے اور پھر آج کے دَور میں کھانا گرم کرنا شہروں تو کیا، دیہات میں بھی بھلا کوئی کام ہے، گھر گھر گیس کے چولھے، اوون موجود ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اس شان دار ’’عورت آزادی مارچ‘‘ میں نکاح جیسے مقدّس بندھن، سنّتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تضحیک کی گئی۔ طلاق جیسے فعل (حلال کاموں میں ناپسندیدہ ترین) پر حد درجہ خوشی کا اظہار کیا گیا۔ جس درجے پر فائز ہونے کے سبب عورت کے قدموں تلے جنّت رکھ دی گئی، اُسے مشینی عمل کہہ کر احتجاج کیا گیا۔ حجاب و پردے کے دینی احکامات، شعائر کو بھی مَردوں کے ظلم و زیادتی کے کھاتے میں ڈال کر، اُن کا مذاق اڑایا گیا۔ ویسے ہماری سمجھ سے تو یہ بات ہی بالاتر ہے کہ اِن عورتوں کا اصل جھگڑا کس سے ہے، دین سے، تہذیب و اخلاق، اقدار و روایات سے یا صنفِ مخالف سے۔ اور کیا اس بے ہودگی، بے حیائی، پھکّڑ پن، شور شرابے اور زور زبردستی سےشعائر اللہ، احکاماتِ الٰہی، معاشرتی و سماجی رویّوں یا مَردوں کی فطرت، ساخت و ذہنیت میں کوئی تبدیلی ممکن ہے۔ دنیا بھر میں احتجاج، مظاہرے، جلسے جلوس ہوتے ہیں۔ لوگ اپنے مسائل کی نشان دہی، حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں، لیکن فوکس، مقاصد ہی پر رہتا ہے، نہ کہ محض دنیا دکھاوے اور ذرائع ابلاغ کی توجّہ حاصل کرنے کے لیے اصل مسائل، مقاصد پسِ پشت ڈال کر نان ایشوز کو ایشوز بنادیا جائے۔ اور اس کے نتیجے میں ایک ایسی لاحاصل، بے نتیجہ، نہ ختم ہونے والی بحث، لڑائی بلکہ جنگ شروع ہوجائے کہ جیسی اِن دنوں سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے گرما گرم محاذوں پر مسلسل جاری ہے۔ چند نام نہاد، روشن خیالوں کو تو جو کچھ کرنا تھا، کر گزریں، اس کے بعد کیا ہورہا ہے، اب اس آگ کی لپیٹ میں ہر وہ عورت آرہی ہے، جس نے کبھی بھی زندگی میں حقوقِ نسواں، عورت کی آزادی، مساوات کی بات کی یا عالمی یومِ خواتین کا نام بھی لیا۔ چند بے ہودہ پلے کارڈز کے جواب میں اب مَردوں کی جانب سےکیسی کیسی نازیبا، ناشائستہ اور اخلاق سے انتہائی گِری ہوئی باتیں، پوسٹس سامنے آرہی ہیں، کیا اس ’’عورت آزادی مارچ‘‘ کا اصل مقصد یہی تھا۔ فتور تو چند ایک دماغوں کا ہوتا ہے، مگر گیہوں کے ساتھ گُھن بھی پِستا ہے۔ بُرے کے ساتھ اچھا بھی دھر لیا جاتا ہے اور سزا کئی بے گناہوں کو بھی بھگتنی پڑجاتی ہے۔ حالیہ پاک، بھارت کشیدگی کی مثال سب کے سامنے ہے۔
ہمارا تو ان فیمینزم کی پرچارک، نام نہاد روشن خیال، لبرل خواتین سے صرف ایک سوال ہے کہ موقع تو ’’عالمی یومِ خواتین‘‘ کا تھا، تو پھر دنیا بھر کی عورت اور خصوصاً پاکستانی عورت کے اصل مسائل کیوں اُجاگرنہیں کیےگئے۔ وہ کاروکاری، ونی، وٹہ سٹہ، قرآن سے نکاح، تعلیم کا حق، لڑکیوں کی خرید و فروخت، وراثت میں حصّہ، تیزاب گردی، زیادہ مشقّت، کم اُجرت، بیٹا، بیٹی میں تخصیص، بچّیوں سے زیادتی، جنسی ہراسانی، کیریئر بنانے کی آزادی، ملازمتوں کے مواقع نہ ملنا، مرضی پوچھے بغیر رشتہ طے کردینا، علاج معالجے کی مناسب سہولتیں حاصل نہ ہونا اور نان نفقہ جیسے معاملات، مسائل کیا ہوئے۔ کیا اس عورت مارچ کا محور و مرکز، چارٹر محض مَردوں پہ طعنہ زنی، ذمّے داریوں سےآزادی ہی ٹھہرا۔ عورت کا کوئی ایک دیرینہ مسئلہ ہی ہائی لائٹ ہوجاتا۔ کوئی ایک پریشانی کم ہوتی، ایک شکایت دُور ہوجاتی۔ پبلک ٹرانس پورٹ میں ویمن پورشن بڑھانے، دفاتر کے ساتھ ڈے کیئر سینٹر بنانے، اپنی مرضی سے کیریئر کا انتخاب کرنے، اہم پوزیشنز پر عورتوں کی تقرّری ہی کی بات کرلی جاتی۔ عجیب و غریب حُلیوں، کھلی باچھوں، ایک کان سے دوسرے تک پھیلی نمائشی مُسکراہٹوں کے ساتھ، بلند ہاتھوں میں بے مقصد، فضول پلے کارڈز اٹھا کر چوکوں، چوراہوں پہ آکے پایا بھی، تو کیا پایا، محض لعنت ملامت، رسوائی، جگ ہنسائی۔ اِک سوشل میڈیا ہی نہیں، کہاں کہاں اس ’’آنٹی مارچ‘‘ کے تذکرے نہیں ہورہے۔ مرد تو مرد، عورتیں کیا کیا کچھ نہیں کہہ رہیں۔ سدرہ سحر عمران نے ’’آنٹی مارچ‘‘ کے نام سے ایک پوسٹ شیئر کی ہے ؎ تحقیر کرو تم عورت کی، پھر ناچ کے بولو آزادی.....چادر کو تم پامال کرو، دیوار پہ لکھو آزادی.....تم عزّت، عِصمت، غیرت کا مفہوم بدل دو شہرت سے.....سڑکوں پر جاکر راج کرو اور زور سے چیخو آزادی.....تم آوارہ، بدچلنی کا تعویز پہن لو گردن میں.....آوازے کسیں لونڈے تم پر، تو شور مچائو آزادی.....دس بارہ ولگر نعروں سے، تقدیر بدل سکتی ہو تم.....؟ دل کے خانے سے شوہر کی تصویر بدل سکتی ہو تم..... اونچی ہیل کی سینڈل سے، کیا ’’کے۔ٹو‘‘ سر کرپائوگی.....چھوڑ زمین، گر اُڑنا ہے تو منہ کے بل گرجائوگی.....کس بھول میں ہو تم آنٹی جی، کس خواب محل میں رہتی ہو.....؟ کیوں عزت تم کو راس نہیں، جو ایسے جملے کہتی ہو.....اپنی عزت کرنا سیکھو، پھر نکلو تم بازاروں میں.....ورنہ چَھپتی رہ جائوگی، شام کے سستے اخباروں میں۔ اسی طرح اور بھی نہ جانے کتنے ہی مرد و زن نے اس ایک موضوع پر کن کن الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار نہیں کیا، لکھنے بیٹھیں، تو صفحوں کے صفحے سیاہ ہوجائیں۔
خیر، سوشل میڈیا پر تو بات کا بتنگڑ، افسانہ بننے کی روایت عام ہوچلی ہے۔ کسی بات کی مخالفت میں سو آوازیں اُٹھتی ہیں، تو موافقت میں بھی دس دلائل آجاتے ہیں۔ بھانت بھانت کے لوگ، طرح طرح کی آوازیں، صحیح، غلط کی تمیز ہی ختم ہوگئی ہے۔ فیصلہ ہی نہیں ہو پاتا کہ کیا درست ہے اور کیا نہیں۔ کبھی کبھار تو اپنی سو فی صد درست رائے بھی غلط لگنے لگتی ہے، لہٰذا ہم نے اس اہم موضوع پر مُلک کی چنیدہ، صائب الرائے اور صحیح معنوں میں خواتین کےحقوق کےلیے جدوجہد کرنے، آواز بلند کرنے والی، نسائیت کی عَلم بردار، اور ایک عام عورت کی حقیقی آواز، چند ایسی خواتین سے بات چیت کی، جو ہمارے لیے ہی نہیں، آنے والی نسلوں کے لیے بھی رول ماڈل، مین ٹور ہیں۔
معروف کالمسٹ، دانش وَر، ایک طویل عرصے تک اپنے شان دار کالمز سے قارئین کے ایک وسیع حلقے کو مسحور رکھنے والی مسّرت جبیں صاحبہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’مَیں تو ذرا پرانے خیالات کی عورت ہوں کہ میرے والد، بھائی، شوہر، بیٹے سب بہت پڑھے لکھے، تعلیم یافتہ، روشن خیال لوگ ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم نے کبھی اُن کے سامنے اپنی پوشیدہ باتوں کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ بات یہ ہے کہ یہ چیزیں بچپن سے ہماری گُھٹی، تربیت میں شامل ہیں۔ ہم جوں جوں بڑے ہوتے ہیں، کچھ باتیں شعور کے ساتھ لاشعور کا بھی حصّہ بنتی چلی جاتی ہیں۔ رہی بات حقوق کی، تو حقوق کوئی دیتا نہیں، آپ اپنی عادات، رویّوں سے اپنی زندگی کی راہیں خود متعین کرتے ہیں۔ پہلے فرائض پورے کریں اور پھرحقوق بھی پورےحاصل کرلیں۔ سچّی بات ہے، مجھے تو نہ صرف کھانا گرم کرکے دینا بلکہ اپنے سامنے، اپنے ہاتھوں سے کِھلانا بےحد خوشی دیتا ہے۔ مَیں تو اُن عورتوں پر حیران ہوتی ہوں، جو اپنے شوہر، بچّوں کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہیں۔ میرا سارا مسئلہ تو میری اپنی خوشی ہے۔ مَیں اگر اپنے پیاروں کا خیال نہیں رکھوں گی، تو مَیں خود ہی خوش، مطمئن نہیں رہ پائوں گی۔ میں ایک روایتی اور نسبتاً پرانے خیالات کی عورت ہوں، لیکن الحمدُللہ مَیں اپنی زندگی میں بے حد خوش و خرم ہوں۔ مجھے میرے کسی رشتے نے کبھی مایوس نہیں کیا۔ نہ کبھی کسی کو میرا کوئی حق مارنے کی ہمّت ہوئی ہے۔ میرا تو بس یہ ماننا ہے، آپ صرف اپنے فرائض، ذمّے داریاں نبھائیں، آپ کو آپ کا کوئی حق مانگنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘‘
معروف افسانہ نگار، ناول نویس، سفر نامہ نگار، سلمیٰ اعوان صاحبہ کا کہنا تھا کہ ’’پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا رشتوں، ناتوں، حقوق و فرائض کے ضمن میں مخصوص ایّام منانے کی کوئی ضرورت ہے۔ چلیں، آپ اسے دورِ حاضر کے تقاضوں، رجحانات کے کھاتے میں ڈال دیں، مگر یہ اس قدر بے ہودگی، عامیانہ پن، لچر انداز، تہذیب و اخلاق سے یک سر عاری باتیں، فحش تحریریں کیا ہمارے معاشرے کی 95فی صد عورتوں کے جذبات و خیالات کی غمّاز ہیں۔ یہ صرف 5فی صد سوکالڈ لبرل عورتوں کی اپنی فرسٹریشن ہے۔ کیا اس آزادی مارچ میں کوئی ایک نعرہ ایسا گونجا، جس میں دیہی خواتین کی تعلیم، تعلیمِ بالغاں کے عزم کا اظہار ہو۔ زچہ و بچّہ کی صحت، علاج معالجے، عورت کے وراثت میں حق کی بات کی گئی ہو۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبّہ کی مثالوں کے ساتھ عورت سے حُسنِ سلوک کی تعلیم دی گئی ہو۔ جی تو چاہتا ہے، ان نام نہاد ترقی پسند خواتین کو چیخ چیخ کر بتائوں کہ ’’بیبیو!ہم عام، شریف عورتوں کے مسائل یہ نہیں، جنہیں تم اُجاگر کررہی ہو، ہمارے مسائل کیا ہیں، درحقیقت تمہیں ادراک ہی نہیں کہ ایک عام پاکستانی عورت اور تم جیسی چندفی صد عورتوں کے مسائل یک سر الگ الگ ہیں۔ ہمیں تمہارے مظاہروں، نعروں کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم اپنے مسائل سے نکلنا، نمٹنا جانتی ہیں اور نمٹ رہی ہیں۔
معروف و مستندشاعرہ، بہترین نثر نگار، ڈاکٹر فاطمہ حسن نے ان الفاظ میں اظہارِ خیال کیا’’سچ تو یہ ہے کہ مجھے یہ پوسٹرز دیکھ کر بہت دُکھ ہوا۔ جو سماج عورتوں کو ذہنی طور پر کم تر اور ناقص العقل ثابت کرنے کے لیے تحریر و تقریر کے سب حربے استعمال کرتا رہا۔ اُن کے ذہن و دانش کے بجائے بدن اور لباس کو موضوع بناتا رہا، یہ پوسٹرز اُسی سماج کے ایجنڈے کو مضبوط کررہے ہیں۔ ان کے پیچھے کون سے ذہن کام کررہے ہیں اور اصل عوامل کیا ہیں، زیادہ غور طلب بات یہ ہے۔‘‘
خوش بخت شجاعت کے نام کو کسی تعارف کی حاجت نہیں۔ معروف میزبان، مقررہ، ماہرِ تعلیم، سماجی کارکن ہونے کے ساتھ سیاست دان کی حیثیت سے بھی خود کو منوانے والی، اسمبلی اور اسمبلی سے باہر عام خواتین کی ایک دبنگ آواز ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’یہ عورت مارچ، کوئی نیا مارچ نہیں، مگربات یہ ہے کہ کسی بھی کام کو کرنے کا طریقہ اگر غلط ہوگا، تو پھر ردّعمل بھی منفی ہی آئےگا۔ ویسےعموماً ’’عالمی یومِ خواتین‘‘ کےموقعے پرجو یہ چند خواتین اکٹھی ہوجاتی ہیں، یہ عام خواتین نہیں، یہ ویمن ایکٹویسٹ کہلانا پسند کرتی ہیں۔ ممکن ہے ان میں سے چند ایک استحصال زدہ خواتین کے لیے دل میں درد بھی رکھتی ہوں۔ لیکن پھر بھی احتجاج کرنے، حقوق مانگنے کا یہ کون سا طریقہ ہے۔ دنیا کی کوئی عورت ہے، جس نے دُکھ، غم، تکلیفیں نہیں اٹھائیں۔ کیا آپ کی ماں نے، میری ماں نے نہیں اٹھائیں اور کیا مسائل صرف عورتوں کے ساتھ ہیں، مَردوں کے ساتھ نہیں۔ مانا کہ عورت خصوصاً پاکستانی عورت نسبتاً زیادہ مشکلات، مسائل میں گِھری ہوئی ہے، لیکن اگر عورتوں کے لیےایک یوم مختص کر ہی دیا ہے، تو اس دن کے توسّط سے عورت کو ہمّت دینی ہے، مضبوط بنانا ہے۔ اُسے سکھانا ہے کہ وہ اپنی کم زوری کو طاقت کیسے بناسکتی ہے، نہ کہ اُسے ان منفی پروپیگنڈوں میں الجھادیا جائے۔ دیکھیں، اگر یہ مارچ کسی مثبت سوچ کے تحت بھی کیا گیاتو معاملہ برعکس ہوگیا۔ معاشرے کے وہ مرد بھی، جو عورت کو بہت عزت دیتے ہیں، اُسے برابری کی سطح پر رکھتے ہیں۔ اس کے حق کےلیے آواز اٹھاتے ہیں، انہوں نے بھی ان نعروں کا بہت بُرا منایا ہے۔ یوں بھی وقت کے ساتھ ساتھ شعور و آگہی کی بدولت مرد وعورت کی سوچ میں خاصی پختگی آچکی ہے۔ آج کی عورت ہر شعبہ ہائے زندگی میں کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہے۔ مُلکِ عزیزکی ہی اَن گنت خواتین دنیاکے لیےقابلِ تقلید مثال ہیں اور انہوں نے یہ مقام و مرتبہ اپنی حدود و قیود میں رہتے ہوئے حاصل کیا۔ اس کے لیےانہیں دوپٹا اتارنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور نہ صنفِ مخالف پر طعنہ زنی کی۔ انہوں نے اپنی پہچان اپنے کردار و عمل سے کروائی۔ مَیں تو کہوں گی، یہ جو ہرسال چند سو عورتیں، عورتوں کےحقوق کی عَلم بردار بن کرکھڑی ہوجاتی ہیں، انہیں اپنی توانائیاں کچھ تعمیری سرگرمیوں پرلگانی چاہئیں۔ کسی ہنرمند کو روزگار دلوادیں۔ کچھ غریب بچّیوں کو تعلیم کےزیورسےآراستہ کردیں۔ کسی مفلس خاتون کی زچگی، علاج معالجے کابوجھ اٹھالیں۔ کسی بھی چھوٹے نیک عمل سے تعمیر و اصلاح کا آغاز تو کریں، یہ خالی خولی چیخ و پکار، بلاوجہ کی محاذ آرائی سے بھلا کیا حاصل ہوگا، کچھ کرنا ہی ہے تو عورت کے مفاد میں تو کریں۔‘‘
بھابیز ہیلتھ اینڈ بیوٹی کلینک کی روحِ رواں، ایک انتہائی محترم رشتے ’’بھابھی‘‘ سے اپنی شناخت بنانے والی، روحانہ اقبال نے چند جملوں میں اپنے جذبات کی عکّاسی کچھ اس طرح کی’’دینِ اسلام نے عورت کو جو حقوق دیئے ہیں، اگر صرف اُن پر عمل درآمد ہوجائے، تو کیا پھر کوئی رائٹ، منصب، حق، اختیار مانگنے کی کوئی ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ میرے خیال میں تو حق چھیننے کی بجائے، جو حقوق ہمیں حاصل ہیں، پہلےان کا احترام ہونا چاہیے۔ عورت کو اپنا وقار بہرصورت برقرار رکھنا ہوگا۔ عالمی یومِ خواتین ہو یا کوئی بھی دن، ہمیں تو معاشرے کو یہ باور کروانا ہے کہ وہ عورت، جسے ہمیشہ صنفِ نازک سمجھاگیا، جسمانی طور پر کم زور ہوکر بھی، اعصابی طورپر بہت مضبوط ہےاور دیکھیں، کوئی بھی معاشرہ مرد و زن کے بغیر مکمل نہیں۔ ہمیں مَردوں سے لڑبِھڑ کر، انہیں ظالم ٹھہرا کے، غلط ثابت کرکے کیا حاصل کرنا ہے۔ مرد کا کوئی ایک ہی رُوپ تھوڑی ہے۔ جو آپ کی تخلیق کا باعث ہے، آپ کا باپ، وہ مرد ہے۔ آپ کا مان، آپ کا بھائی مرد ہے۔ آپ کا نصف بہتر، عُمر بھر کے دُکھ سُکھ کا ساتھی، اپ کا شوہر مرد ہے اور پھر جس کےسبب آپ ماں جیسے مقدّس منصب پر فائز کردی گئیں، اپ کے جگر کا ٹکڑا، آپ کا بیٹا بھی تو مرد ہے اور بھی بے شمار رشتے ہیں، جس طرح عورت، ہر رشتے میں قابلِ احترام ہے۔ اسی طرح مرد کے بھی سب رُوپ قابلِ تعظیم ہیں۔ آپ عزت دیں گی،تو عزت ملےگی اورمیں سمجھتی ہوں کہ جب اسلام نے بہت واضح طور پر مرد و عورت کے حقوق و فرائض کا تعیّن کردیا ہے، تو اس کے بعد تو ایک دوسرے کو اس کا حق، فرض بتانے کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ عورت اپنے حصّے کا کام کرے، مرد اپنے حصّے کا اور یہ فضول، بے مقصد ریلیاں جن میں عورت کو ایک کموڈٹی (جنس) کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، ان کو بند ہونا چاہیے، خاص طور پر اس بار جوکچھ ہوا، مجھے تو اس کے پیچھے اور ہی عزائم نظر آتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ یہ سارا ڈراماکچھ غیر ملکی سیکولر، لبرل تنظیموں سے اشیر باد کے لیے اسٹیج کیا گیا ہو۔ بہرحال، اللہ ہمارے حال پہ رحم فرمائے اور یہ سلسلہ یہیں رک جائے۔‘‘
ڈاکٹر صغریٰ صدف جیسی ہمہ جہت شخصیت سے کون واقف نہیں۔ محقق، شاعرہ، ادیبہ، کالم نگار، کمپیئر، اسکرپٹ رائٹر اور PILACکی ڈائریکٹر جنرل، انہوں نے بھی اس ویمن مارچ، درحقیقت اینٹی ویمن مارچ پر سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’مَیں کافی لبرل، روشن خیال نظریات کی حامل عورت ہوں، مگر اس آزادی مارچ نےتو مجھے بڑا شرمندہ کیا۔ دیکھیں، جب ہم روشن خیالی، لبرل ازم کی بات کرتے ہیں، تو اس سے مُراد ہمارا ظاہری پیراہن نہیں، ہمارے تصوّرات،خیالات اور قول و فعل کی پختگی ہے۔ ہمارے یہاں اگر عورتوں کو مختلف مسائل فیس کرنا پڑتے ہیں، تو کیا مَردوں کو نہیں کرنے پڑتے۔ ہمیں تو بہ طور انسان ایک سخت طبقاتی تفریق کا سامنا ہے۔ ایک طبقہ وہ ہے، جسے ہر طرح کے حقوق، سہولتیں، وسائل مہیّا ہیں اور ایک طبقہ وہ، جو بنیادی حقوق تک سے محروم ہے، تو ہماری لڑائی تو مشترکہ ہونی چاہیے، نہ کہ ہم ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرانا شروع کردیں۔ اورپھر اس مارچ میں جن ایشوز کو اچھالا گیا، وہ بھلا کوئی ایشوز ہیں۔ یہ تو سیدھا سیدھا ننگ پن ہے۔ ان باتوں سے عورت کو آزادی نہیں ملے گی، مزید بربادی مقدر بنے گی۔ ان سے تو رہی سہی اخلاقیات، اقدار و روایات بھی پامال ہوگئیں۔ سچّی بات ہے،مَیں تو ان بینرز کو دیکھ کر افسوس سے ہاتھ ہی ملتی رہ گئی کہ یہ بھلا کیا تماشا لگایاگیا ہے۔ عورت کے ساتھ کچھ بھلائی کرنی ہی تھی، تو اس کے کچھ جینوئن مسائل تو ہائی لائٹ کیے جاتے۔ اصل پرابلمز وہیں کے وہیں ہیں، الٹا عام عورت کا مذاق بنوادیا۔ وہ جو پہلے ہی رجعت پسند ہیں، ان کو تو اور موقع مل گیا۔ میرے خیال میں تو اس نام نہاد مارچ کے ذریعے عورت کے ساتھ سخت دشمنی کی گئی ہے۔ حکومت اس کا سخت نوٹس لےاور ایسی واہیات سرگرمیوں کوفوری روکا جائے۔‘‘
شعر و سخن کی دنیا کا بہت معروف نام، بہت خُوب صُورت شاعرہ، ڈاکٹر شاہدہ حسن نے اپنے خیالات منظوم شکل میں بیان کرتے ہوئے کہا ؎ ’’عُمر بھر اور نہیں اشک پرو سکتی مَیں.....سچ ہے اب اوروں کے آگے نہیں روسکتی مَیں.....اب مِرے چہرے پہ ہے علم و یقیں کا غازہ.....اپنے چہرے سے یہ غازہ نہیں دھوسکتی مَیں.....میری ہستی کا یہ دشوار سفر جاری ہے.....اس سفر میں ابھی پل بھر نہیں سو سکتی مَیں.....جہل اور ظلم کے ہر رُوپ سے ہےجنگ مِری.....عزمِ پیہم کی یہ منزل نہیں کھو سکتی مَیں.....گفتگو میری مِرا فن بھی ہے،معیاربھی ہے.....بات کرنے کا سلیقہ نہیں کھو سکتی میں.....پر یہ لہجہ یہ تخاطب مری پہچان نہیں.....اس قدر غیر مہذّب نہیں ہوسکتی مَیں۔ اور ؎ یہ احتجاج، یہ غصّہ درست ہے لیکن.....غلیظ لفظ نہیں راس اس دہن کے لیے.....ہے اِک سلیقۂ اظہار ہی مزاج مِرا.....دلیل و عقل ہی معیار ہے سخن کے لیے۔‘‘
ڈیپلیکس اور اسمائل اگین فاؤنڈیشن کی بانی، سی ای او، عزم و ارادے، دُھن کی پکّی، ایک مقصد کے لیے زندگی وقف کرنے اور اپنے نام کے عین مطابق غم و الم کی تصویر بنےچہروں پر مسرتیں، مسکراہٹیں بکھیرنے والی، مسرت مصباح کا نام ہی اُن کی شناخت، اُن کا حوالہ ہے۔ انہوں نے بھی اس ’’عورت آزادی مارچ‘‘ کے تھیم پر سخت اعتراضات اُٹھاتے ہوئے کہا’’اس قسم کی ریلیاں، جلسے جینوئن لوگوں کے کازِز، مقاصد کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ وہ دردمند پُرخلوص لوگ، جوواقعتاً معاشرتی سنوار میں کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں یا ادا کر رہے ہیں، ان کی جدّوجہد ، محنتوں پر بھی پانی پھر جاتا ہے۔ کسی بڑے فورم پر اگر اس طرح غیر سنجیدگی کا مظاہرہ ہو، تو پھر لوگ سب ہی کو غیر سنجیدہ لینا شروع کر دیتے ہیں۔ مَرد و عورت کے حقوق و فرائض جیسی اہم بات اگر مذاق، تماشا بن جائے، تو اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا۔ سنجیدہ مسائل پربات بھی بہت تہذیب وشائستگی اور پوری سنجیدگی سے ہونی چاہیے۔ مبہم باتیں، ذو معنی جملے، غلط جیسچر اور تمیز و تہذیب، اقدار و روایات کے منافی انداز اپنا کر بھلا کسی بھی تحریک یا کاز کو کیا فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے۔ دو افراد کے درمیان گھر کی چار دیواری میں بھی گفتگو ہو رہی ہو تو اخلاقیات کا دامن تو وہاں نہیں چھوڑا جاسکتا، کجا کہ آپ پوری دنیا کےسامنے خود کو بے توقیر کر دیں۔ خواتین خود اعتمادی ، آزادی، مساوات کی بات ضرور کریں، مگر عورت کی عزّت و حرمت کمپرومائز نہیں ہو نی چاہیے۔ ورنہ ایسی ساری تحریکیں، آوازیں ایک لایعنی شور میں دب کےرہ جائیں گی، جیسا کہ اس عالمی یومِ خواتین کے موقعے پر ہوا۔‘‘
جماعتِ اسلامی کی رہنما، قومی اسمبلی اور اسلامی نظریاتی کاؤنسل کی سابق رکن، ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے اس مارچ کی شدید الفاظ میں مذمّت کرتے ہوئے کہا ’’میرے خیال میں تو وہ پلے کارڈز، بینرز خود بتا رہے تھے کہ اُنہیں اٹھانے والوں کا تعلق کس قبیل سے ہے۔ مجھے بہت سے لوگوں نے کہا کہ آپ کچھ اظہارِ خیال کریں، مگر وہ جو قر آن کی آیت کا مفہوم ہے کہ ’’جب جاہل ان کے منہ لگیں یا گلے پڑیں، تو وہ اُن کو سلام کر کے الگ ہو جائیں‘‘ تو میں تو اب تک ’’نو کمنٹس‘‘کہہ کر نظر انداز ہی کر تی رہی، مگر جب دیکھا کہ اس ’’دھمال‘‘ پر تو لبرل سے لبرل، روشن خیال سے روشن خیال بھی چیخ اُٹھا ہے، توچُپ نہ رہ سکی۔ ایک آزاد خیال کا کہنا ہے کہ ’’اِنہوں نے ہمارا کام بہت مشکل کر دیا ہے‘‘ جب کہ میرا خیال ہے کہ انہوں نے اسلام پسند عناصر اور پاکستان سے محبّت کرنے والوں کا کام آسان کردیا ہے۔ لوگوں کو پتا چل گیا ہےکہ یہ کس سوچ کےحامل افراد ہیں۔ یہ ہماری عورتوں، نسلِ نو کی بچّیوں کے خلاف ایک منظّم چال ہے۔ یہ لوگ معاشرے میں انارکی، فتور پھیلانا چاہتےہیں۔ ہمارےخاندانی نظام، اکائیوں میں دراڑیں ڈال رہے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کو بھی مادر پدر آزاد معاشرہ بنا دینا چاہتے ہیں، تب ہی نکاح کے خاتمے، گھروں کو توڑنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا سسٹم (ربّانی ادارہ) توڑ کے ایک شیطانی معاشرہ تشکیل دیناچاہتے ہیں۔ آخر ان ٹیڑی میڑھی گندی لکیروں، انتہائی خراب لکھائی اور خراب اُردو میں لکھے گئےپوسٹرز، بینرز کے پیچھے کون سا مقصد کارفرما ہے۔ مجھے تو حیرانی حکومتِ وقت پر ہےکہ دعوے تو ریاستِ مدینہ کے کیے گئے اور اعمال میں یہود و نصاریٰ کو بھی پیچھے چھوڑدیا۔ ایک ایسے بے ہودہ منظّم مارچ کی اجازت کیوں کردی گئی۔ یہ تو آئینِ پاکستان کےبھی منافی ہے۔ اور پھرفیمینزم کی تحریک تو اب اُن معاشروں میں بھی دم توڑ رہی ہے، جنہو ں نے اس کی بنیاد ڈالی، تو مملکتِ خداداد، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسے کس کے ایماء پر ابھارا جا رہاہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسی تمام چالوں، حربوں کو آہنی ہاتھوں سے کچل کر ناکام بنائے۔ اس بڑھتی ہوئی فحاشی و عریانی کو فوری لگام دے تاکہ آئندہ کسی کی دینِ اسلام، سنّتِ رسولؐ اورآئینِ پاکستان کا اس طرح مذاق اُڑانے کی ہمّت نہ ہو۔‘‘
ڈاکٹر زیبا افتخار، جامعہ کراچی کے شعبہ اسلامی تاریخ سے بطور ایسو سی ایٹ پروفیسر وابستہ ہیں۔ 4 تحقیقی کتب کی مصنفہ ہیں۔ 2018ء میں صدارتی ایوارڈ بھی حاصل کر چکی ہیں۔ انہوں نے چند جملوں میں اپنا موقف کچھ اس طرح بیان کیا ’’جس قسم کے حقوق اور آزادی کی یہ خواتین ڈیمانڈ کر رہی ہیں، اُن کی تو نہ دینِ اسلام میں کوئی جگہ ہے اور نہ ہی ہمارے معاشرے میں۔ در اصل یہ دورِ حاضر کے تناظر میں بات کر رہی ہیں۔ انہیں اگر اپنے حقوق اور آزادی کی جھلک دیکھنی ہے، تو پہلی صدی ہجری کا اسلام دیکھیں۔ وہاں انہیں عورت کی پوری آزادی نظر آئے گی۔ وہ عورت تعلیم حاصل کرتی ہے، تو استاد بھی ہے۔ بازاروں میں تجارت کر رہی ہے، تو باغوں میں کام کر تی ہے۔ لکڑیاں چُن کے لاتی ہے، کھانا بناتی ہےاور مرد کے شانہ بشانہ بھی چلتی ہے۔ اور پہلی صدی ہجری کے مَردوں کی بات کی جائے تو کیا اللہ کے رسول ﷺ کے اپنی ازواج، بیٹیوں، دایہ اور دیگر خواتین کے ساتھ حُسنِ سلوک سے بہتر مثال دُنیا میں کہیں مل سکتی ہے۔ یہ جو آج کی عورت آزادی کا مطالبہ لے کر میدان میں آگئی ہے، تو اس میں دینِ اسلام کا کوئی قصور نہیں، قصور ہے تو مَردو خواتین کی ذہنیت و تربیت کا۔ گرچہ میرےخیال میں مَردوں کو تربیت کی زیادہ ضرورت ہے، لیکن عورتوں کو بھی اپنے طرزِ عمل کا جائزہ ضرور لینا چاہیے۔‘‘
بشریٰ انصاری کو کون نہیں جانتا۔ مُلک میں بھی اور مُلک سے باہر بھی، جہاں جہاں پاکستان کا نام جانا جاتا ہے، لوگ بشریٰ آپا کا نام نہایت محبّت و چاہت سے لیتے ہیں۔ وہ چند لوگ جنہوں نے شوبز انڈسٹری کو اعتبار و وقار دیا، اُن میں بشریٰ انصاری بھی شامل ہیں۔ بشریٰ آپا نے اس مارچ کے تناظر میں خیالات کا اظہار کچھ ان الفاظ میں کیا ’’دیکھیں، آزادی نسواں ضروری ہے، لیکن اس طور نہیں۔ اس ’’عورت آزادی مارچ‘‘ کے پلے کارڈز، بینرز میں جو زبان استعمال کی گئی، وہ انتہائی بے ہودہ تھی۔ ایسا لگ رہا تھا، جیسے کسی پلاننگ کے تحت ایسے سلوگنز لکھے اوران کی تشہیر کی گئی۔ تاکہ ایسی تحریکیں باقاعدہ تنقید کی زد میں آئیں۔ اب بھلا یہ کیا بکواس ہے ’’لو بیٹھ گئی صحیح سے‘‘ کوئی شرم، کوئی حیا ہوتی ہے۔ بیٹا/لڑکا بھی اگر صحیح سے نہ بیٹھے، تو کیا اُسے سمجھایا نہیں جاتا۔ یہ تو گھروں کی عام پریکٹس ہے۔ عورت کو مساوی حقوق، برابری کی سطح پر آنے کے لیے صرف یہ نہیں کہنا کہ’’کھانا خود گرم کرلو‘‘ اور’’مجھے کیا پتا تمہارا موزہ کہاں ہے؟‘‘ اور بھی کئی باتیں ہیں، جن پر توجّہ مرکوز ہونی چاہیے۔ اور مَیں تو کہتی ہوں کہ اگر مائیں، اپنے بیٹوں کی بچپن سے درست تربیت کریں، تو سارا جھگڑا آپ ہی آپ ختم ہوجائے۔ مائیں، بیٹوں کو بہنوں کی عزّت کرنا سکھائیں، تو وہ کل کو اپنی بیویوں، بیٹیوں اور معاشرے کی ہر عورت کی عزّت کریں گے اور پھر یہ سلسلہ نسل در نسل چلے گا۔ یہ اس عورت مارچ سے تو صرف عورت کی تضحیک ہوئی ہے اور کچھ حاصل نہیں ہوا۔ ‘‘
ڈاکٹرعنبریں حسیب عنبر، نوجوان نسل کی نمایندہ، پسندیدہ شاعرہ، اپنے منفرد اسلوب، خُوب صُورت انداز، تہذیب و شائستگی کے سبب ہر جگہ جانی پہچانی اور بہت چاہی، سراہی جاتی ہیں۔ انہوں نے بھی اس ضمن میں اپنے چند قیمتی، زرّیں خیالات کا اظہار کیا’’صرف ہم ہی نہیں، پاکستان کی کوئی ذی ہوش عورت ان نعروں، مطالبات کی تائید کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ ان باتوں نے ایک طرف عورتوں کےسرشرم سے جُھکا دئیے ہیں، تو دوسری طرف حقوقِ نسواں کے لیے برسوں سے کی جانے والی تحریک کو سخت نقصان پہنچایا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایک عام پاکستانی عورت کے بنیادی مسائل کیا ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم کے حق، وراثت سے محرومی، علاج معالجے کی عدم دستیابی، غیرت کےنام پر قتل، گھریلو تشدّد وغیرہ، مگر ان مسائل پر بات کرنےکےبجائے ہاتھوں میں چند واہیات پوسٹرز اٹھانے کامقصد ایک عام عورت سے دشمنی کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم شاعر ادیب برادری سے ہیں، جہاں خواتین نے بڑے احسن، منظّم انداز سے مَردوں تک یہ بات پہنچائی کہ ہم اُن کی حریف نہیں، حلیف بن کر ساتھ چلنا چاہتی ہیں۔ تاکہ ترقّی کی رفتار کو بڑھایا جاسکے۔ تو ہم غیر مُلکی فنڈنگ یا مغرب کی مصنوعی چکا چَوند سے متاثر ان چند عورتوں کو ہر گز یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ آزادیٔ نسواں کے نام پر تضحیک ِ نسواں کا سامان پیدا کریں۔ مَردوں سے ناحق تصادم کی فضا کسی صُورت پیدا نہیں ہونی چاہیے۔ ہم اس شدّت پسندی کی مخالفت کرتے ہیں کہ یہ کسی کے لیے فیشن سہی، مگر ہماری عام عورت کےحقوق کے قتل کا سامان ہے۔ اس سلسلے کو یہیں روکنا ہوگا، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔ ؎ نہاں دونوں میں تکمیلِ جہاں ہے…زمیں گم ہو تو پھر کیا آسماں ہے۔‘‘