بیوقوفی اور عقلمندی میں فرق یہ ہے کہ عقل و دانش تو محدود ہو سکتی ہے مگر بے وقوفی اور حماقت کی کوئی حد نہیں ہوتی۔
جب میں نے پشاور ریپڈ بس ٹرانسپورٹ منصوبے کے نقائص بیان کرتے ہوئے پہلی بار اسے دنیا کا ’’آٹھواں عجوبہ‘‘ قرار دیا تو مجھے ہرگز اندازہ نہ تھا کہ صورتحال اس قدر مضحکہ خیز ہوگی۔ اتنی سی بات تو گائوں کی چھوٹی موٹی سڑکیں بنانے والا ٹھیکیدار بھی بتا سکتا ہے کہ اگر بس کی چوڑائی 3فٹ ہے تو دو بسوں کو بیک وقت گزارنے کیلئے کم ازکم 6.5فٹ کی سڑک درکار ہوگی مگر 100ارب روپے کے منصوبے پر کام کرنے والے شہ دماغوں کو اس بات کا اِدراک تب ہوا جب آزمائشی طور پر بسیں چلانے کا مرحلہ قریب آیا۔ ابھی یہ لطیفہ ہضم نہ ہوا تھا کہ واسا پشاور کی جانب سے بی آر ٹی ریچ تھری کے ڈائریکٹر کو لکھا گیا خط سامنے آگیا کہ 3کلومیٹر پر محیط انڈر پاسز میں پانی کے نکاس کا انتظام نہیں کیا گیا اور پہلے سے موجود مین ہولز بھی بند کر دیئے گئے ہیں، جس سے نہ صرف قریبی رہائشی علاقوں کے مکینوں کو مشکلات کا سامنا ہے بلکہ بارش ہونے کی صورت میں یہ انڈر پاسز کسی نالے کا منظر پیش کر رہے ہوں گے۔ بدانتظامی اور ناتجربہ کاری کے سبب بی آر ٹی پشاور کا یہ منصوبہ سانجھے کی اس ہنڈیا میں تبدیل ہو چکا ہے جس کے ایک سے زائد باورچی خود بھی یہ نہیں جانتے کہ کیا پک رہا ہے۔ یہ منصوبہ جس سے پشاور میں ٹرانسپورٹ کے انتہائی سنگین مسئلے کو حل کیا جا سکتا تھا، اب بذاتِ خود ایک سنگین مسئلے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ یہ نوبت کیوں آئی؟ اس کیلئے بی آر ٹی منصوبے کے پسِ منظر اور بنیادی خدوخال سے واقفیت حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔
اسد عمر بطور اپوزیشن رہنما یہ دعویٰ کر چکے تھے کہ بی آر ٹی منصوبہ 8ارب روپے میں مکمل کیا جا سکتا ہے اس لئے خیبر پختونخوا حکومت کی ایشیائی ترقیاتی بینک سے ابتدائی بات چیت کے بعد بی آر ٹی پشاور کا جو پہلا پرکیورمنٹ پلان آیا اس کے مطابق منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 12.35ملین ڈالر لگایا گیا اور یکم جنوری 2019ء کو اس منصوبے کو مکمل ہونا تھا۔ تکنیکی امور پر مہارت کے حامل افراد نے سمجھانے کی کوشش کی کہ اتنے پیسوں میں یہ بی آر ٹی منصوبہ مکمل نہیں ہو سکتا۔ اے ڈی بی حکام سے دوبارہ مذاکرات ہوئے اور نہ صرف لاگت پر نظر ثانی کی گئی بلکہ مدت تکمیل بھی بڑھانے پر اتفاق ہوا۔ اے ڈی بی کی دستاویزات کے مطابق اس منصوبے کی لاگت بڑھ کر 59 ملین ڈالر ہوگئی جبکہ کام مکمل کرنے کیلئے 31دسمبر2021ء کی تاریخ مقرر کی گئی۔ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی غرض سے دو غلط بیانیاں کیں۔ پہلی منصوبے کی لاگت سے متعلق کی اور کہا گیا کہ اس منصوبے پر 49ارب روپے خرچ ہوں گے۔ دوسری غلط بیانی اس منصوبے کی مدت سے متعلق کی گئی اور وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے کہا کہ 6ماہ میں بی آر ٹی منصوبہ مکمل کرلیا جائے گا۔ میں نے19مارچ 2018ء کو ’’پشاور میں دنیا کا آٹھواں عجوبہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے کالم میں لاگت اور مدت سے متعلق درست حقائق بیان کئے تو مجھے برا بھلا کہا گیا مگر بعد ازاں حکومت کو تسلیم کرنا پڑا کہ اس منصوبے کی لاگت 68ارب روپے ہو چکی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور فرانس سے بی آر ٹی کیلئے وصول کئے گئے 20ارب روپے کے اضافی قرضے کو شامل کر لیا جائے تو بی آر ٹی منصوبے کا سفید ہاتھی 100ارب روپے میں پڑ رہا ہے۔ اب آتے ہیں مدت تکمیل کی طرف۔ پرویز خٹک نے 19اکتوبر 2017ء کو یہ منصوبہ مکمل کرنے کی پہلی ڈیڈ لائن دی اور اب تک اس منصوبے کو مکمل کرنے کیلئے 8ڈیڈ لائنز دی جا چکی ہیں۔ صوبائی حکومت تحلیل ہونے سے چند روز قبل بھی بھرپور کوشش کی گئی کہ بسیں منگوا کر فیتہ کاٹ لیا جائے لیکن ٹرانس پشاور کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
اب اس منصوبے کا افتتاح 23مارچ کو کیا جانا ہے لیکن زمینی حقائق کیا ہیں، آپ خود ہی ملاحظہ فرمائیں۔ بی آر ٹی منصوبے کو دو بنیادی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، روٹ اور تعمیراتی کام۔ روٹ کو پھر تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ریچ ون، ٹو اور ریچ تھری۔ جبکہ تعمیراتی کام میں 3بس ڈپو، 3پارک اینڈ رائڈ پلازے، بائیسکل لین اور بائیسکل اسٹینڈ شامل ہیں۔ پہلی دلچسپ حقیقت تو یہ ہے کہ اس منصوبے کا ٹھیکہ ان کمپنیوں کو دیا گیا ہے جن سے متعلق پی ٹی آئی پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف پر یہ الزام لگاتی رہی ہے کہ انہیں نوازا گیامگر پشاور بی آر ٹی کیلئے تینوں بس ڈپو اور پارکنگ پلازے بنانے کا ٹھیکہ انہی کمپنیوں کو دیا گیا ۔ اسی طرح روٹ کے تینوں سیکشنز ریچ ون، ٹو اور تھری کا ٹھیکہ دیا گیا ہے۔ یہ موضوع الگ تفصیل کا متقاضی ہے اس پر پھر کبھی بات ہوگی، فی الحال یہ جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا 23مارچ کو افتتاح ممکن ہے؟ پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے ایشیائی ترقیاتی بینک کو اس منصوبے پر پیشرفت سے متعلق جو تازہ ترین رپورٹ بھیجی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ ریچ ون پر 72فیصد ،ریچ ٹوپر 64فیصد جبکہ ریچ تھری پر 70فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ حیات آباد بس ڈپو اور پارکنگ پلازہ پر 81فیصد کام نامکمل ہے، چمکنی ڈپو پر 76فیصد کام ہونا باقی ہے، ڈبگری ڈپو اینڈ پارکنگ پلازہ پر 57فیصد کام ادھورا ہے جبکہ بائیسکل لین اور اسٹینڈ پر ابھی کام شروع ہی نہیں ہو سکا۔ 450میں سے 20بسیں چین سے منگوائی گئی تھیں جو زرغونی مسجد کے قریب کنونشن سنٹر میں کھلے آسمان تلے سڑ رہی ہیں۔ اے ڈی بی کو بھیجی گئی رپورٹ میں جو کام مکمل ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے اس میں بھی نقائص کی بھرمار ہے تو ایسے میں 23مارچ کو افتتاح کیسے ممکن ہے؟
ان حالات کے باوجود حکومت بی آر ٹی کا فیتہ کاٹنے کیلئے بیتاب ہے اور اب 23مارچ کے افتتاح کو ’’سوفٹ اوپننگ‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے لیکن ٹرانس پشاور اور پی ڈی اے حکام بتاتے ہیں کہ ’’سوفٹ اوپننگ‘‘ کو ’’ٹیسٹ ٹرائل‘‘ کہا جائے تو زیادہ موزوں ہوگا کیونکہ موجودہ حالات میں محض یہی ممکن ہے کہ فیتہ کاٹنے کیلئے بسوں کو نمائشی اور آزمائشی طور پر کنونشن سنٹر سے نکال کر بالا حصار تک لایا جائے اور پھر سے کھلے آسمان تلے سڑنے کیلئے چھوڑ دیا جائے۔ پشاور کی اکلوتی سڑک جی ٹی روڈ، جہاں ٹریفک پہلے ہی جام رہتی تھی، وہاں ناگفتہ بہ صورتحال کے پیش نظر عوام یہی کہتے نظر آتےہیں کہ بس ریپڈ ٹرانسپورٹ بنانے والو! اب بس کر دو بس۔