• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدالتی نظام کو سچ سے انحراف کا بہت نقصان ہوا، تھوڑے جھوٹ پر بھی ساری گواہی مسترد، گواہ ہر جگہ جھوٹا سمجھا جائے گا، سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ نے جھوٹی گواہی کے ذریعے بیگناہ شخص کو پھانسی کے تختے تک پہنچا دینے سے متعلق فوجداری مقدمہ کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیاہے کہ آئندہ کسی فوجداری مقدمہ کی سماعت کے دوران کسی گواہ کی شہادت کا ایک حصہ بھی جھوٹا ثابت ہوا تو اسکی مکمل گواہی کو ہی جھوٹا تصور کرتے ہوئے اس جھوٹے گواہ کیخلاف بھی قانون کے مطابق مقدمہ درج کیا جائیگا اورگواہ کو ہرجگہ جھوٹاسمجھاجائیگا، عدالت نے قراردیا ہے کہ ہم نے آج سے سچائی کی جانب سفر شروع کردیا ہے، جھوٹی گواہی کی وجہ سے ہمارے نظام انصاف کو سخت نقصان پہنچا ہے، جھوٹی گواہی ناانصافی کو جنم دیتی ہے،انصاف کا خون کرتی ہے، عوام کے تحفظ اورسکیورٹی کیلئے بھی خطرہ ہے، اس خرابی کو جڑسے اکھاڑ پھینکنے کاوقت آگیا، ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان فیصلے کی نقول تمام عدالتوں کوبھجواکراسے اسکی روح کے مطابق لاگوکریں۔ بدھ کے روز جاری کیا گیا 31صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے قلمبند کیا ہے ، فاضل عدالت نے اپنے تاریخی فیصلے میں ملک بھر کی تمام عدالتوں کو فوجداری مقدمات میں uno, falsus in omnibus کے لاطینی مقولہ ،(یعنی کسی ایک چیز کے بھی جھوٹ ہونے سے ساری چیزیں ہی جھوٹی ہوجاتی ہیں) کو اس کی روح کے مطابق ملک بھر کی عدالتوں میں لاگو کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے قرار دیاہے کہ کسی گواہ کے تھوڑے جھوٹ پر نہ صرف اس گواہ کی ساری شہادت ہی کو جھوٹ تصور کیا جائے گا بلکہ متعلقہ ٹرائل کورٹ کا جج فوری طور پر اس کے خلاف قانونی کارروائی بھی کرنے کا پابند ہوگا ،سپریم کورٹ نے کہاکہ عدالتیں جھوٹے گواہ کے خلاف کسی قسم کی لچک نہ دکھائیں، عدالت نے اس اصول کو اپنے اصول قانون ( یعنی، جیورس پروڈنس )کا جزولاینفک قرار دیتے ہوئے اپنے آفس کو اس فیصلہ کی نقول ملک بھر کی ہائی کورٹس کے رجسٹرار حضرات کو بھجوانے کا حکم جاری کیاہے ،جبکہ تما م ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کوحکم جاری کیا گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ کار میں آنے والی تمام عدالتوں کے ججوں کو اس فیصلے کی نقول بھجواتے ہوئے فوجداری مقدمہ میںuno, falsus in omnibus کے اصول کو اس کی روح کے مطابق لاگو کرنے کا پابند بنائیں ،عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ جو عدالتی نظام جھوٹی گواہی کی اجازت دیتا ہے وہ تباہ و برباد ہوجاتا ہے اور جو معاشرہ اسے قبول کرتا ہے وہ اپنی موت آپ ہی مرجاتا ہے ،عدالت نے قرار دیاہے کہ سچائی انصاف کی بنیاد ہے جبکہ انصاف ہی ایک مہذب معاشرہ کی بنیاد ہوتا ہے ، گواہی کے معاملے میں مصلحت پسند رویہ کسی بھی مہذب اور صاف شفاف معاشرے کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہوتا ہے، عدالت نے قرار دیاہے کہ سچ پر سمجھوتہ دراصل معاشرے کے مستقبل پر سمجھوتہ ہے، عدالتی نظام کو سچ سے انحراف کا بہت نقصان ہوا، اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس خرابی کو اس کی جڑ سے ہی اکھاڑ پھینکیں، عدالت نے قرآن پاک کے حوالے سے قرار دیاہے کہ اسلام نہ صرف سچی گواہی دینے کاحکم دیتا ہے بلکہ گواہی کو چھپانے سے بھی منع کرتا ہے، جھوٹی گواہی معاشرے میں ناانصافی کو جنم دیتی اور انصاف کا خون کرتی ہے ،یہ شفافیت اور انصاف پر اثر انداز ہونے کیساتھ ساتھ عام عوام کے تحفظ اور سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال دیتی ہے۔

تازہ ترین