ایک صاحب میرے جاننے والے ہیں ان کا دل علامہ طاہر القادری کے لئے بغض اور کینے سے بھرا ہوا ہے، اس کی وجہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ یہ صاحب بھی خود کو ”شیخ الاسلام“ ہی سمجھتے ہیں، میں نے انہیں کئی بار سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ بھائی اسلام میں شیخ نہیں ہوتے، مسلمانوں میں شیخ ہوتے ہیں، میں نے انہیں شیخوں کے کئی لطیفے بھی سنائے اور یہ بھی بتایا کہ کالم نگار اور اینکر اگر علامہ صاحب کو ”شیخ الاسلام“ کہنے لگے ہیں تو آپ پریشان نہ ہوں، وہ ایسا سنجیدگی سے نہیں کر رہے بلکہ انہوں نے اپنے طور پر یہ علامہ صاحب کی ’چھیڑ“ بنا لی ہے، لہٰذا تم اپنے دل سے شیخ الاسلام کے لئے بغض ختم کر دو مگر جس دل میں حسد اور عناد بھرا ہو، وہ مشوروں سے تو پاک صاف نہیں ہوتا۔ انہی صاحب نے علامہ صاحب سے میری عقیدت کا عالم جاننے کے باوجود گزشتہ روز مجھ سے پوچھا ”طاہر القادری کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟“ میں نے کہا ” ان سے میری محبت پوری دنیا پر عیاں ہے، مگر تم مجھ سے یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟“ بولے ”یہ میں بعد میں بتاؤں گا، پہلے تم یہ بتاؤ کہ عرفان صدیقی کو تم کیسا آدمی سمجھتے ہو؟“ میں نے کہا ”تم عجیب بے ربط سوال کررہے ہو“ بہرحال وہ میرے بھائیوں جیسے دوست ہیں، صرف دوست نہیں، میں ان کے کالموں کا بہت بڑا مداح بھی ہوں“ کہنے لگے ”کیا تم اپنے کسی رقیب سے محبت کرسکتے ہو؟“ میں نے جواب دیا ”ہرگز نہیں، میں تو اس کی جان عذاب میں ڈال دوں گا“ بولے ”پھر عرفان صدیقی کی خبر لو،وہ بھی عاشقان قادری میں شامل ہوگیا ہے“ تب مجھے یاد آیا کہ یہ شخص صحیح کہتا ہے، گزشتہ کالم میں عرفان صدیقی نے واقعی علامہ صاحب سے اظہار عشق کرکے میرا پتہ کاٹنے کی کوشش کی تھی۔ اس پر میری طبیعت میں بہت ابال آیا مگر میں پی گیا دراصل مجھے غالب# یاد آگئے تھے :
بن گیا رقیب خاطر تھا جو راز داں اپنا
چنانچہ میں نے دل کو سمجھایا کہ یہ تو سب کے ساتھ ہوتی چلی آئی ہے اور ایک بات یہ بھی ذہن میں آئی کہ عرفان صدیقی نے میرے محبوب کی مجھ سے بڑھ کر تعریف کی ہے، مجھے تو ان کا ممنون ہونا چاہئے، اس کے علاوہ ایک خیال یہ بھی ذہن میں در آیا کہ علامہ صاحب سے میرا عرفان صدیقی صاحب اور بے شمار دوسرے کالم نگاروں اور اینکرز کا عشق، عشق مجازی نہیں عشق حقیقی کی ذیل میں آتا ہے ۔یوں انہیں رقیب سمجھنا غلط ہے کیونکہ عرفان صدیقی اور یہ سب لوگ تو دراصل اب میرے ”پیر بھائی“ ہیں، یہ سب باتیں میں نے ان صاحب کو بتائیں، اور اس مرتبہ وہ بد مزہ ہوئے ۔
یہ صاحب اگرچہ میری باتوں سے بہت بدمزہ ہوئے،مگر وہ ہمت نہیں ہارے، وہ مجھے علامہ صاحب سے بدظن کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہے، چنانچہ انہوں نے پینترا بدلا اور بولے ”تمہیں پتہ ہے طاہر القادری کو اچانک پاکستان کیوں بھیجا گیا ہے؟“میں نے کہا ”یہ سوال تو ہر کوئی پوچھ رہا ہے ، سوائے میرے کہ میں جانتا ہوں علامہ صاحب خوابوں میں آنے والے غیبی اشاروں کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے!“فرمایا”تو پھر سن لو کہ مسلم لیگ (ن) کی ضمنی انتخابات میں کامیابی مسلم لیگ کے گلے پڑ گئی ہے، اسٹیبلشمنٹ کو یقین ہوگیا ہے کہ جنرل انتخابات میں اس جماعت کا راستہ اب روکا نہیں جاسکے گا۔ چنانچہ آپ کے علامہ صاحب کی آمد اس پس منظر میں ہے اور ان کی ساری محنت انتخابات ملتوی کرانے اور ایک عبوری سیٹ اپ کے قیام کے لئے ہے!“ مجھے اس شخص کی اس بدگمانی پر ہنسی آئی اور میں نے کہا ”بھائی خدا سے ڈرو، نواز شریف کی حکومت نے تو انہیں کروڑوں روپے کی اراضی ان کے ادارے کے قیام کے لئے مہیا کی تھی اور اس کے علاوہ بھی انہوں نے علامہ صاحب کی محبت اور عقیدت میں ذاتی طور پر بھی وہ کچھ کیا جس کا ان دنوں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، خود علامہ صاحب بھی نواز شریف کو ”کشمیری فرشتہ“ قرار دے چکے ہیں چنانچہ مجھے آپ کی ان بہکی بہکی باتوں کی سمجھ نہیں آرہی” اس پر ان حضرت نے فرمایا ”دراصل نواز شریف کے نمک میں اثر نہیں ہے، جس کسی نے بھی یہ نمک کھایا، اس کی تاثیر الٹی ہی نکلی اور جہاں تک تمہارے علامہ صاحب کا تعلق ہے ان کے لئے نمک تو کیا ، کھیوڑے کی پوری کان بھی ناکافی ہے!“ مجھے ان صاحب کی یہ واہیات گفتگو سخت ناگوار گزر رہی تھی، سو میں نے کہا ”اب آپ براہ کرم مجھ سے اس مسئلے پر کوئی بات نہ کریں“ بولے ”اتنی اندھی عقیدت بھی ٹھیک نہیں، میں جو بات کہہ رہا ہوں، اس کا یقین پوری دنیا کو 14جنوری کو آجائے گا جب تمہارے علامہ صاحب کا سارا شور شرابہ لاہور اور پنجاب کے چند دوسرے شہروں تک محدود ہوگا۔
کراچی اور حیدر آباد وغیرہ میں الطاف بھائی اپنی تنظیمی صلاحیت کی وجہ سے کچھ ہلا گلا کرلیں گے، جبکہ اسلام آباد اور وفاقی حکومت کے زیر انتظام دوسرے علاقوں میں رام عمومی طور پر بھلی ہی کرے گا!“ یہ کہتے ہوئے ان صاحب نے میری طرف غالباً دادبھری نظروں سے دیکھا لیکن جب میرے چہرے پر انہیں داد کی بجائے بے دادکے تاثرات نظر آئے تو بولے ”رحمان ملک اور طاہر القادری کی ملاقات کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ ملک صاحب کہتے ہیں، ان کی جماعت کو شیخ الاسلام کے ایجنڈے سے لفظ بہ لفظ اتفاق ہے اور یہ بھی کہ بی بی بے نظیر اور شیخ الاسلام کے درمیان عقیدت مندی کے علاوہ گھریلوتعلقات بھی تھے چنانچہ وہ شیخ الاسلام کی اہلیہ محترمہ کو فون کرکے کہا کرتی تھیں“ بھابی ، میں لاہور آرہی ہوں، آپ کے ہاتھ کی سویاں میں نے کھانی ہیں، وہ تیار رکھیں!“ اللہ جانے یہ صاحب کیا ثابت کرنا چاہتے تھے تاہم اب میں ان کی کسی بدگمانی کا جواب نہیں دینا چاہتا تھا سو میں خاموش رہا بلکہ اپنا ردعمل ریکارڈ کرانے کے لئے میں اپنا منہ دوسری طرف کرکے بیٹھ گیا تاکہ انہیں احساس ہو کہ ان کی باتیں میرے لئے کتنی تکلیف دہ ہیں؟ لیکن ان صاحب نے احساس ذلت سے بے نیازی ظاہر کرتے ہوئے اپنا بیان جاری رکھا اور فرمایا ”ایک“ اور بات سنو طاہر القادری کینیڈا کے شہری ہیں اور پاکستان کے بھی، انہوں نے ملکہ کی وفاداری کا حلف بھی اٹھایا اور وہ خود کو پاکستان کا وفادار بھی کہتے ہیں، تم اس کے باوجود ان کا دم بھرتے ہو، تمہیں شرم نہیں آتی؟“میں اگرچہ تہیہ کر چکا تھا کہ انکی کسی بات کا جواب نہیں دوں گا لیکن ان کی اس بدزبانی پر مجھ سے رہا نہ گیا، میں نے کہا ”تم اپنا دل عناد اور بغض سے پاک کرو توتمہیں بات سمجھ میں آئے، علامہ صاحب کئی مرتبہ وضاحت فرما چکے ہیں۔ آئین دہری شہریت کی اجازت دیتا ہے، مگر تم جیسے لوگ بار بار یہ الزام دہراتے جا رہے ہیں“ اس پر وہ بدطینت شخص بولا ”آئین دہری شہریت کی اجازت دیتا ہے، اسے لازمی تو قرار نہیں دیتا۔
اپنے علامہ صاحب سے کہو کہ اسلام میں چار شادیوں کی بھی اجازت ہے وہ اسے بھی خود پر لازمی قرار دے ڈالیں“۔
میں نے ان صاحب کو ”آپ، آپ“ کہتے ”تم“ کہنا شروع کر دیا تھا اور میرا لہجہ بھی سخت ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں بالآخر اس نے وہاں سے جانے ہی میں عافیت سمجھی!
یہ بدگمان شخص اگرچہ اٹھ کر جا چکا ہے لیکن اس کی باتیں کسی بدروح کی طرح ابھی تک میرا پیچھا کر رہی ہیں!