• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’تیسری نسل کا جعلی مقدموں میں ٹرائل ہو رہا ہے۔‘‘ بختاور بھٹو کا یہ بیان جزوی طور پر درست ہونے کی وجہ سے دل دکھا دینے والا ہے کیونکہ بھٹو کے سحر سے مکمل طور پر نجات حاصل کر چکنے کے بعد بلکہ باوجود بھٹو کا منافقانہ، ضیاءالحقانہ، سفاکانہ قتل مجھے آج بھی اداس کردیتا ہے۔ پاکستان آج تک اس قتل کی کسی نہ کسی شکل میں قیمت چکا رہا ہے جو بظاہر دکھائی نہیں دے رہی کیونکہ اسے دیکھنے کے لئے ’’تیسری آنکھ‘‘ ضروری ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔ میں نے ایک بار لکھا تھا کہ پاکستانیوں کی اجتماعی نفسیات پر دوگہرے زخم لگے۔ پہلا زخم سقوط ڈھاکہ اور دوسرا بھٹو کا قتل جسے دنیا عدالتی قتل قرار دیتی ہے ،سو بختاور بھٹو کا بیان جزوی طور پر درست ہے۔ اور پھر ایسا کیا تھا کہ 12 اکتوبر 99کے بعد نواز شریف کے چہیتے ’’تارا مسیح‘‘ سیف الرحمٰن المعروف احتساب الرحمٰن کو جیل میں آصف علی زرداری کے پاؤں پکڑ کر روتے ہوئے اس سے معافی مانگنی پڑی تو یہ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔ مکافاتِ عمل کا معمولی سا نمونہ تھا کہ نوازشریف کی شہہ پر اس غیر سیاسی احمق سیف الرحمٰن نے سوچے سمجھے بغیر بےنظیر بھٹو مرحومہ اور ان کے شوہر آصف زرداری پر جھوٹے مقدمات کی بھرمار، بوچھاڑ اور برسات کردی۔ بےنظیربھٹو معصوم بچوں سمیت جس طرح درد ر، شہر شہر عدالتوں میں دھکے کھاتی رہی، وہ بھی پاکستانیوں کے لاشعور میں تو یقیناًمحفوظ ہوگا۔ برسوں پہلے میں اس خاندان کی قیادت کو فکری طور پر’’ رائٹ آف‘‘ کر چکا ہوں لیکن ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں آج بھی مجھے پریشان کر دیتی ہیں۔ نواز شریف کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، سو فیصد میرٹ پر ہو رہا ہے اور اگر اسے مکافاتِ عمل کا دوسرا راؤنڈ یا ایپی سوڈ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ آج یہ باجماعت چیخ رہے ہیں جبکہ آصف زرداری نے زبان کٹوانے کے باوجود پوری شان سے ہر ٹارچر کا سامنا کیا لیکن یہ کہانی کا ایک اور پہلو ہے کہ قبائلی سردار اور دستکارسے صنعت کار بننے والوں کے رویوں میں بنیادی فرق ہوتا ہے۔ فی الحال تو یہ میرا موضوع نہیں۔ اصل بات یہ کہ میں کسی کج بحثی کے بغیر غیر مشروط طور پر اس تاریخی حقیقت کا اعتراف کر چکا ہوں کہ بختاور بھٹو کی بات جزوی طور پر درست ہے لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ اصل کہانی تو شروع ہی یہاں سے ہوتی ہے کہ اس وقت ’’تیسری نسل‘‘ کا جو ٹرائل ہو رہا ہے اس کا تیسری نسل سے تو دراصل تعلق ہی کوئی نہیں، وہ صرف شامل باجہ ہے اور اصل کھاتہ (پہلی نسل) زرداری صاحب اور مضحکہ خیز جعلی اکاؤنٹس کا ہے جس کے محیرالعقول امائونٹس، بھوکے ننگے اکاؤنٹ ہولڈرز اور آصف زرداری صاحب اینڈ کمپنی کی طلسمی تکون کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہی اور یہ ٹرائل اسی جادوئی جگاڑ کو سمجھنے کی ایک حقیر سی کوشش ہے۔ سرے محل کی سیاحت پر جائے بغیر گزارش صرف اتنی ہے کہ اگر پہلے کچھ نہ ہوا تو یقین رکھیں اب بھی شاید کچھ نہیں نکلے گا اور اس بار بھی سرخرو ہوں گے لیکن میرا اور مجھ جیسے دیگر بیوقوفوں کا مسئلہ اور سوال کچھ مختلف ہے اور وہ یہ کہ صاحبزادی! جو کچھ آپ کے والدین جنرل ضیاءالحق کی نواز شریف نامی اس سیاسی ایجاد کے بارے میں کہتے رہے اور اسے پے در پے بھگتتے بھی رہے۔۔۔۔۔ اس شخص کے ساتھ ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ کےمک مکا کو کیا عنوان دیا جائے؟یہ دو موقع پرستوں اور سیاسی مہم جوئوں کے درمیان مک مکا کی کوشش بلکہ سازش تھی ورنہ اس ملک میں کون سی جمہوریت؟ کیسی جمہوریت؟کہاں کی جمہوریت؟ جعلی دوا ہو یا جعلی دودھ، قابل نفرت ہے تو یہ جعلی جمہوریت قابل عزت کیسے ہوگئی؟جمہور اور جمہوریت کے نام پر کبھی کوئی کھٹمل اور کبھی کوئی جونک جمہور یعنی عوام کا خون نہ پیتی تو کیا آج یہ 21کروڑ ’’شناختی کارڈ نمبرز‘‘ اس حال میں ہوتے کہ ان کے بچے بھی عملاً بکے ہوئے ہیں جبکہ ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ کے پارٹنر سے منسوب پارک لین اور اربوں کھربوں ہی ختم ہونے میں نہیں آرہے تو یہ سب کیا بکواس ہے۔قاتل پکڑا جائے نہ پکڑاجائے، ثبوت ملیں نہ ملیںلاشیں گواہی دے رہی ہیں کہ کوئی نہ کوئی تو قاتل ضرور ہے۔ مجھے آج تک اس بدنامِ زمانہ ’’میثاق جمہوریت‘‘ کی سمجھ نہیں آئی کہ یہ نہ کوئی ’’میثاق‘‘ تھا نہ اس میں کسی قسم کی کوئی ’’جمہوریت‘‘ تھی کہ اس کے بعد بھی دونوں ’’مافیاز‘‘ کی پرفارمنس میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئی۔ کبھی روٹھ گئے کبھی مان گئے، کبھی گالی کبھی تالی، کبھی ایک دوسرے کے حق میں کبھی ایک دوسرے کے خلاف، کبھی دوست کبھی دشمن لیکن عوام کے ساتھ دشمنی پر ہمیشہ ’’ایکا‘‘ جس کا تازہ ترین مظاہرہ یہ کہ بختاور کا بھائی بے نظیر اور آصف زرداری کا بیٹا نواز شریف سے یکجہتی کے لئے جیل پہنچ گیا۔واقعی تم وہ ہاتھی ہو جو لڑیں تو گھاس یعنی عوام کی تباہی اور بربادی۔۔۔۔۔ تم آپس میں ’’لاڈیاں‘‘ کرو تب بھی گھاس یعنی عوام ہی کچلے، روندے، مسلے جاتے ہیں۔ تم دونوں اس ملک کے لئے’’ بوسہ ہائے مرگ‘‘ کی مانند رہے اور یہ وعدہ ہے کہ اس’’ تیسری قوت‘‘ نے بھی تم دونوں کی طرح عوام سے دھوکہ کیا تو میں اس کے خلاف بھی وہی کچھ کروں گا جو اس جمہوریت کے خلاف 26سال سے کر رہا ہوں جو جمہوریت کی ضدہے اور عوام عرصۂ دراز سے اس کی زد میں ہیں۔گر جیت گئے تو کیا کہناہارے بھی تو بازی مات نہیں85 فیصد عوام کو پینے کا صاف پانی بھی نہ دے سکنے والی اس جمہوریت کو چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا اور خوشدلی سے ٹرائل کا سامنا کرنا چاہیے کہ جعلی اکاؤنٹس، سرے محل اور پارک لین نہ ہوتے تو کم از کم پینے کا صاف پانی ہر پاکستانی کی دسترس میں ضرور ہوتا کہ یہ ’’میثاق جمہوریت‘‘ تو جمہور کے حصے کا رزق بھی کھاگئی ،پانی بھی پی گئی۔

تازہ ترین