ننھا ایڈیسن جب اپنی ٹیچر کا خط لے کر ماں کے پاس آیا تو وہ خط پڑ ھ کر اس کی ماں کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس نے یہ خط ایڈیسن کو خود پڑھ کر سنایا۔ خط میں لکھا تھا،’’آپ کا بیٹا تھامس ایڈیسن بہت ذہین ہے اور اسکول اس قابل نہیں کہ اس کی تربیت کرسکے اور پڑھا سکے ۔ برائے مہربانی اپنے بیٹے کو خود ہی گھر پر پڑھائیں‘‘۔ پھر جب ایڈیسن کی ماں نے اسے اس کی ذہانت کے مطابق پڑھنے دیا تو دنیا نے اسے عظیم تھامس ایلوا ایڈیسن کے نام سے جانا۔
ایک دن ایڈیسن کو اپنی ماں کی یاد آئی تو اس نے وہ خط نکالا، جو اس کی نرسری کلاس کی ٹیچر نے لکھا تھا۔ مگر وہ خط پڑھ کر اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، خط میں لکھا تھا، ’’محترمہ آپ کا بیٹا پاگل ہے، اس کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں، ہم اس کو اسکول میں نہیں پڑھا سکتے ہے ۔ ہم آپ کو اطلاع دے رہے ہیںکہ ہم نے اسے اسکول سے نکال دیا ہے ‘‘۔ ایڈیسن نے اپنی ڈائری میں لکھا ، ’’تھامس ایلوا ایک پاگل بچہ تھا، جسے اس کی ماں نے صدی کا سب سے بڑا جینئس بنادیا ‘‘۔
دراصل ننھے ایڈیسن نےاپنے اساتذہ کا ناک میں دم کررکھا تھا، وہ عجیب وغریب سوالات پوچھتارہتا تھاجیسے کہ مرغی کے انڈے سے چوزہ کیسے نکلتاہے، پرندہ کیسے اُڑتا ہے، پانی سے آگ کیسے بجھ جاتی ہے؟ اور پھر بعد میں اس نے ان سوالات کے جوابات خود ہی کھوجنے شروع کردیے۔
ایڈیسن کی یہ کہانی سب کو ازبر ہے، لیکن سوال وہی ہے کہ اگرا س کی ماں اسے کندذہن یا پاگل سمجھ کر اس کی حوصلہ افزائی نہ کرتی یا اسے خود نہ پڑھاتی تو شاید آج ایڈیسن کا نام کوئی نہیں جانتا ۔
اگر کند ذہن یا ذہنی معذور بچوں کی بات کریں تو ان میں کوئی نہ کوئی صفت موجود ہوتی ہے۔ ہم انھیں روایتی اور روزمرہ کی سمجھ بوجھ کی کسوٹی پر پرکھ رہے ہوتے ہیںاور پھر جب وہ نتائج نہیں دیتے تو ہم ہمت ہار کر انہیں صرف کھانے پینے اور زندگی گزارنے کی راہ پر لگا دیتے ہیں۔ لازمی نہیں کہ ہم ہر اسپیشل بچے کو ایڈیسن بنانے میں کامیاب ہوجائیں، کم از کم انہیں کارآمد شہری بنانے میں اپنا کردار تو ادا کرسکتے ہیں۔
پاکستان میں ایک طرف ہزاروں بچے اسکول جانے سے محروم ہیں تو ایسے میں خصوصی بچوں کیلئے سہولیات کی امید کرنا دیوانے کا خواب ہی ہو سکتاہے۔ اس ضمن میںخصوصی صلاحیتوں کے حامل بچوں کے گھروالے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ملک میں کئی ایسے ادارے موجود ہیں، جو ان بچوں کی دیکھ بھال، تعلیم وتربیت اور پرورش کا بے لوث فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ تاہم ان اداروں پر انحصار کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں خود بھی ان خصوصی صلاحیتوں کے حامل بچوں پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
دراصل اسپیشل بچے کسی طور بھی عام بچوں سے کم نہیں ہوتے۔ حتیٰ کہ ان میں سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت عام لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے، بس انہیں نظر انداز نہ کریں، انہیں اور ان کی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے، ہر ممکن حد تک ان کی عمدہ تربیت کا انتظام کیا جائے، بالخصوص انہیں تعلیم سے محروم نہ رکھا جائے، ہوسکتاہے کہ ان میں سیکھنے کا عمل سست روی کا شکا رہو لیکن جب یہ ایک بار سیکھ جاتے ہیں تو یہ کبھی نہیں بھولتے۔
خصوصی بچے انتہائی حساس رویّے کے مالک ہوتے ہیں اورصرف چند لوگوں سے ہی مانوس ہوپاتے ہیں۔ ان بچوں کو سمجھنا اور انہی کی زبان میں بات کرنا لازمی ہوتا ہے۔ یہ بچے جب کسی بات کو سمجھ نہیں پاتے یا اپنی بات سمجھا نہیں پاتے تو ان کو شدید غصہ آتاہے اور پھر وہ تشدد آمیز روّیہ اختیار کرتے ہیں۔ انھیں جن اداروںمیں رکھا جاتاہے، وہ ان کی اس فطرت کی وجہ سے انھیں بخوبی ہینڈل کرلیتے ہیں۔
بچے جب کم عمر ہوتے ہیں تو زیادہ پریشان نہیں کرتے مگر عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ والدین کی پریشانی بڑھنی شروع ہوجاتی ہے۔ تاہم، گھبرانے کے بجائے ان کی بہتر پرورش کی ذمہ داری نبھانی چاہئے جبکہ دیگر افراد کو بھی لازمی طور پر یہ احساس دلایا جائے کہ انہیں معذور سمجھنے کے بجائے معاشرے کا حصہ سمجھیں۔
دوسرے ممالک کی بات کی جائے تو ایسے بچوں کو ہر معاملے میں رعایت حاصل ہوتی ہے، انہیں زیادہ توجہ دی جاتی ہے، ان کیلئے تعلیمی اداروں، ہسپتالوں وغیرہ میں خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں اور انہیں اسپیشل الائونس سے بھی نوازا جاتاہے۔ ان کیلئے کھیلوں کے مقابلے بھی منعقد کیے جاتے ہیں اورانہیں کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا جاتا کہ وہ دوسرے لوگوں سے کم ہیں۔ پاکستان میں بھی اسپیشل اولمپکس اور کھیلوں کے دیگر مقابلے ہوتے ہیں لیکن ان کی شرح کم ہے۔ اس ضمن میں سرکاری سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ان بچوں کیلئے کثیر تعداد میں ایسے ادارے قائم کیے جائیں، جو نہ صرف ان کو معاشرے کا فعال شہری بنائیں بلکہ ان کے والدین کی بھی رہنمائی کریں تاکہ وہ اپنے اسپیشل بچوں پر توجہ دینے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھیں۔