• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’کارپوریٹ لیڈر شپ‘‘ کیا آپ چیلنج کیلئے تیار ہیں؟

ایک کامیاب کارپوریٹ لیڈر بننا کوئی آسان کام نہیں، اس کے لیے بہت محنت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آئیے جانتے ہیں کہ دنیا کے چند کامیاب کارپوریٹ لیڈرز، کامیابی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔

ڈریو ہوسٹن، سی ای او ڈراپ باکس

’آپ کو اپنی زندگی میں نظم و ضبط پیدا کرنے اور خود کو ایک سسٹم کے تحت لانے کے لیے اپنی تربیت کرنا پڑتی ہے‘، ڈراپ باکس کے بانی اورچیف ایگزیکٹو آفیسر ڈریو ہوسٹن (Drew Houston) کہتے ہیں۔ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو وہ کچھ سیکھنا ہے، جو آپ نہیں جانتے اور یہ کام آپ کے لیے کوئی اور نہیں کرنے والا، آپ کو خود ہی کرنا ہوگا‘۔

دنیا کے ٹاپ چیف ایگزیکٹو آفیسرز کا خیال ہے کہ آپ ایک کاروباری ادارے کو اس وقت ہی کامیابی کے ساتھ چلا سکتے ہیں، جب تک آپ اپنی ’پرسنل گروتھ‘ کو کمپنی کی ترقی سے آگے رکھیں گے۔ بطور سی ای او، آپ کا کردار ہر ڈیڑھ سال بعد تبدیل ہوتا جائے گا اور یہ بات آپ کو کوئی بتانے والا نہیں۔ اس کا تعین آپ کو خود ہی کرنا ہوگا اور اس کے لیے آپ کو شاباشی بھی نہیں ملے گی۔ مثلاً، ابتدا میں آپ صرف اپنے پراڈکٹ کی پروٹوٹائپ بنانے میں مصروف ہوتے ہیں۔ پراڈکٹ تیار ہونے کے بعد آپ کو اس کے صارفین چاہیے ہوتے ہیں۔ آپ اس کی ڈسٹری بیوشن کیسے کریں گے؟ مارکیٹ میں فروغ کیسے پائیں گے؟ یہ ایک 360ڈگری چیلنج ہے۔ ڈسٹری بیوشن حاصل کرنے کے بعد آپ کا اسکور کارڈ ایک بار پھر صفر پر آجاتا ہے۔ اب آپ کو آمدنی چاہیے اور ساتھ ہی ’ورکنگ بزنس ماڈل‘ بھی درکار ہوتا ہے۔ مارکیٹ میں آنے کے بعد آپ کو مسابقت (Competition)کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد آمدنی سے زیادہ اہم یہ ہوتا ہے کہ آپ کیش فلو یا منافع کس طرح حاصل کریں گے۔ ان باتوں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہر ’بریک پوائنٹ‘ پر اسکور کارڈ بدل جاتا ہے۔ بطور سی ای او، یہی آپ کے کام کا سب سے مشکل پہلو ہے، آپ کو جیسے ہی لگتا ہے کہ آپ نے ایک سطح پر مہارت حاصل کرلی ہے، ایک نیا اور اَن دیکھا چیلنج پہلے ہی آپ کے سامنے ہوتا ہے۔

ٹِم آرمسٹرانگ، سی ای او ’اوتھ‘

یاہو اور AOLکے انضمام کے بعد وجود میں آنے والی نئی کمپنی کا نام Oathہے۔ ٹِم آرمسٹرانگ اس کمپنی کے چیف آپریٹنگ آفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سی ای او کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ جو کوئی بھی کام کرے گا، اس میں خطرے کا امکان ہمیشہ رہے گا، یہاں تک کہ ناکامی بھی ہوسکتی ہے۔ ’دنیا کا کوئی بھی انسان ناقابلِ شکست منصوبہ نہیں بناسکتا۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ آپ کو اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے پہلے ناکام ہونا پڑےگا۔ اگر آپ کو پتہ ہے کہ آپ کا مقصد یا منزل کیا ہے اور اسے حاصل کرنے کے لیے آپ کی سمت درست ہے تو آپ گِر کر اُٹھ جائیں کیونکہ آپ درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں، جہاں منزل آپ کے انتظار میں ہے‘۔

اسکاٹ بیلسکی، امریکی انٹرپرینیور

کارپوریٹ لیڈر کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کمپنی بنانے کا واحد مقصد صرف پیسہ کمانا نہیں ہوسکتا۔ یقیناً، جب آپ صارفین کے فائدے کے لیے کچھ کریں گے تو آمدنی ہونا فطری عمل ہے، تاہم آپ کو ا س کےلیے بھی تیار رہنا چاہیے کہ کاروبار میں ناکامی بھی ہوسکتی ہے اور مشکل وقت سے گزرنا پڑسکتا ہے۔ ’اس مشکل مرحلے سے گزرنے کے لیے آپ کی ’صرف پیسہ کمانا‘ والی سوچ کارگر نہیں ہوگی اور آپ ناکام ہوکر ایک طرف ہوجائیں گے۔’اگر آپ مشکل اور چیلنجنگ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو آپ کو سی ای او نہیں بننا چاہیے۔ اگر آپ مشکل کام کرنا پسند نہیں کرتے یا نئی چیزیں تخلیق نہیں کرسکتے، جو پہلے وجود نہیں رکھتیں تو آپ کو ایک اسٹارٹ اَپ انٹرپرینیور نہیں بننا چاہیے‘، امریکی سرمایہ کار اور انٹرپرینیور اسکاٹ بیلسکی کہتے ہیں۔ ’کہا جاتا ہے کہ آج کل اسٹارٹ اَپس میں بہت پیسہ ہے لیکن یاد رکھیں یہ ایک عالمی انڈسٹری ہے، جس کا آپ ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔ اس میں پیسہ تو ہوسکتا ہے لیکن اس پیسے کو کمانے کے لیے آپ کو پہلے اپنی اہلیت اور صلاحیت کو اپنے کام سے ثابت کرنا ہوگا‘۔ اسٹارٹ اَپ انٹرپرینیور بننے کی ایک قیمت بھی ہے۔ ’کیا آپ کا دماغ ہر وقت کی غیریقینی کو مینیج کرسکتا ہے؟ یہ بالکل اس طرح ہے کہ آپ نے RAMکا 20فیصدایک ایسے کام کے لیے وقف کیے رکھنا ہے، جو ہر وقت جاری رہتا ہے۔ آپ کبھی بھی اپنی فیملی او ردوستوں کے لیے مکمل طور پر دستیاب نہیںہوتے کیونکہ آپ ہر وقت کچھ نہ کچھ کررہے ہوتے ہیں‘۔

ڈین شلمان، سی ای او پے پال

پے پال (PayPal)کو بین الاقوامی ادائیگیوں کا مؤثر ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ ڈین شلمان پے پال کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنی ٹیم کو کامیابی کا کریڈٹ دیناسب سے اہم ہے۔ ’جب آپ کامیابی کا کریڈٹ پوری ٹیم کو دیتے ہیں تو زیادہ سے زیادہ لوگ آپ کی ٹیم کا حصہ بننے کے خواہاں ہوتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں لوگ ایک ٹیم کی صورت میں کام کرتے ہیں اور ان کا کریڈٹ ان سے کوئی نہیں چھینے گا‘۔ ڈین شلمان کہتے ہیں ’لیڈرشپ دراصل اپنی ٹیم میں اُمید پیدا کرنے اور اس جذبے کو جگائے رکھنے کا نام ہے‘۔

تازہ ترین