• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کل 23مارچ تھی،عمران خان ،مہا تیر محمداور ڈاکٹر عارف علوی نے قدم سےقدم ملا کر اس یادگار دن کا لمحہ لمحہ یادگار بنا دیا۔یہ وہی اسلام آباد ہے جہاں عمران خان نے ایک سو چھبیس دن کا دھرنا دیا تھا ۔آنسو گیس کےدرمیان روشنی اور خوشبو کا دھرنا ۔نئے پاکستان کی تعمیر کیلئے۔کرپشن سے پاک پاکستان کی تشکیل کیلئے ۔اُس پاکستان کا پہلا باقاعدہ اعلان لاہور کے منٹو پارک میں ہواتھا۔یہی دن تھا جب دو قومی نظریہ کو اپنی پوری آب و تاب سے بر صغیر کے آسمان پر ثبت کردیا گیاتھا۔پاکستان تو اُس دن وجود میں آگیا تھا جب محمد عربیﷺ نےفرمایا تھا کہ مجھے ہندکی جانب سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں ۔جب عربستان سے آنیوالے پہلے شخص کے نقشِ پااس زمین پربنے تھے۔جب اس زمین پر پہلی مسجد تعمیرہوئی تھی ۔عمران خان اُسی پاکستان کی تعمیر و تشکیل کیلئے سرگرم ِ عمل ہیں۔ ریاستِ مدینہ کے نقشِ کف ِ پا پر چلتی ہوئی ریاست ِ پاکستان ۔جہاں کرپشن کرنیوالے کونمونہ عبرت بنا دیا جائیگا ۔بے شک اس وقت گلی گلی میں بے نامی اکائونٹس اور پانامہ کیس کے مجرموں کی داستانیں بکھری ہیں ۔ماضی کے حکمران رسوا ہو چکے ہیں مگر ابھی انہیں مکمل طور پر انجام تک نہیں پہنچایا جا سکا میں اس حوالے سے بھی عمران خان کو سیلوٹ کرتا ہوں کہ کرپشن کے دونوں بڑے محاذوں پر انہوں نے بیک وقت جنگ کا آغاز کر رکھا ہے ۔ یہ مشورہ مستقل دیا جارہا ہے کہ جب تک شریف فیملی کے معاملات انجام تک نہیں پہنچتے اُس وقت تک آصف علی زرداری پر ہاتھ نہ ڈالا جائے، ن لیگ اور پیپلز پارٹی اپنے لیڈرز کی کرپشن بچانے کیلئے آپس میں مل جائینگی مگرعمران خان کے یقین کے سامنے کوئی نہ ٹھہر سکا ۔یہی وہ یقین ہے جو کرکٹ کے میدان سے وزیر اعظم ہائوس تک پہنچ گیا ۔ کل اسلام آبادکے پریڈ گرائونڈمیں جدید ترین ٹینکوں کی پریڈ، بمبار طیاروں کےحیرت انگیز کرشمے ،افواجِ پاکستان کے جرات و ہمت سے بھرے ہوئے حوصلوں کی کہکشائیں بار بار دنیا کو بتا رہی تھیں کہ یہ وہ سرزمین ہے جوصرف اپنی حفاطت کرنا ہی نہیں جانتی پورے عالم ِ اسلام بلکہ پورے عالم ِ انسانیت کی محافظ بھی ہے ۔اس موقع پر چین، سعودی عرب، بحرین ، برونائی اور آذربائیجان کے دستے اور ہواباز بھی شریک ہوئے ۔دفاعی سازو سامان کی بھرپورنمائش کی گئی جس میں دشمن کو دندان شکن جواب دینے کی صلاحیت رکھنے والے الخالد سمیت دیگر ٹینک اور میزائلوں سے بھری گاڑیاں سلامی پیش کرتے ہوئے گزریں ۔وزیر اعظم عمران خان نے اس موقع پر کہا :پاکستان اپنے دفاع کی خاطر ہر قدم اٹھانے کا حق رکھتا ہے، ہماری امن کی خواہش کو ہرگز کمزوری نہ سمجھا جائے، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا ہمیں اپنی بہادر مسلح افواج پر فخر ہے، آج کے دن ہمیں کشمیری بھائیوں کو ہرگز نہیں بھولنا جو بھارتی ریاستی دہشتگردی کا شکار ہیں۔صدرپاکستان عارف علوی نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ’’مگر ہماری اصل جنگ غربت اور افلاس کے خلاف ہے۔‘‘بے شک غربت سے رہائی کا جذبہ جب اپنے علم لہراتا ہے تو اس کے ہزار رنگ ہوتے ہیں۔یہی رنگ اس وقت پاکستان کی فضائوں میں پھیل رہے ہیں ۔اعتزاز احسن کی ایک نظم کے چند مصرعے یاد آرہے ہیں جو شاید زرداری خاندان کی محبت میں انہیں بھول گئے ہیں ’’ایک طرف تھی جنتا ساری۔۔ایک طرف چند گھرانے۔۔ایک طرف تھے بھوکے ننگے۔۔ایک طرف تھے قارون کے خزانے۔۔ایک طرف تھیں مائیں بہنیں۔ایک طرف تھے تحصیل اور تھانے۔ایک طرف تھی تیسری دنیا۔۔ایک طرف بیداد پرانے ۔ایک طرف تھے سچل اور باہو۔‘‘ بے شک سلطان باہو نے کہا تھا ’’ادھی لعنت دنیا تائیں ساری دنیا داراں ہو ۔‘‘انکے نزدیک مساواتِ محمدیؐ ہی وہ واحد راستہ ہے جو دنیا کوامن اور آشتی کی جنت میں لے جاسکتا ہے لیکن افسوس کہ خود چارہ سازبیکساں پیغمبر انسانیتﷺ کے ماننے والوں نے صرف نماز اور روزہ کو دین سمجھ رکھا ہے۔ یہ ایک اہم موضوع ہے جس پر اس ملک کے اہل دانش و بینش کو غور کرنا ہو گاکہ انسان کہاں کھڑاہے، اشتراکیت ناکام ہوچکی تھی،سرمایہ دارانہ نظام کے عفریت نے انسانیت کا بند بند مضمحل کر رکھاہے ۔ اسلامی نظام جسے ہم انسانیت کیلئے نجات دہندہ سمجھتے ہیں اسے چودہ سو سال گزرنے کے باوجود آج تک کسی نے نظام حکومت کے طور پر پیش نہیں کیا۔عمران خان کی حکومت کواب یہ دیکھنا ہو گا کہ پاکستان ریاست ِمدینہ کے نقشِ قدم پر کیسے چلے گا ۔عدالتی نظام کیسا ہوگا؟، یہ سب کہتے ہیں کہ اسلام میں جاگیرداری حرام ہے مگرقانون ملکیت پرکھل کر کبھی کسی نے بات نہیں کی۔ ریاست ِ مدینہ میں زراعت کا نظام صحت عامہ کا نظام،تعلیم کا نظام، آبپاشی کا نظام کیسا تھا،اسے پاکستان میں کیسے نافذ کیا جا سکتا ہے۔ اکیسویں صدی کا آغاز بڑی روشن امیدوں کے ساتھ ہوا تھا انسان کا خواب تھا کہ اب بہت زیادہ حکمت و دانش آگئی ہے، قومیں تعلیم یافتہ ہوگئی ہیں پہلے کی سی جہالت اور ہوس گری کے مظاہرے نہیں ہونگے مگر اسکی ابتدا ہی بڑے خونی حادثات سے ہوئی دہشت گردی عام ہو گئی۔ پاکستان اس دہشت گردی کا خاص شکار بنا۔ فلم ختم ہو گئی۔ آرٹ مردہ ہوگیا۔ انسانیت کے نام لیوا اپنی جانیں بچانے کےلئے ہجرتیں کرنے لگے۔ فلم اور آرٹ کی طرف کوئی زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ ایک وقت تھا جب ہر ضلع میں آرٹ کونسل اسٹیج ڈرامے کرایا کرتی تھی۔ موسیقی کی تقریبات ہوتی تھیں۔ لوگ کلاشنکوفیں ہاتھ میں نہیں قلم کان پر رکھ کر گھروں سے نکلتے تھے۔ عمران خان کو ایک ایسے نئے پاکستان کی تشکیل کےلئے کیا کیا کرنا ہے، اس کیلئے انہیں اپنی ٹیم میں ایسے لوگ بھی شامل کرنے چاہئیں جن کا دستِ تحقیق تاریخ کے سینے پر رکھا ہو،جن کی علوم بھری آنکھیں اگلی صدی تک دیکھنے کی اہلیت رکھتی ہوں ۔جن کی انگلیاں معاشرے کی نبض پر ہوں ۔جن کی فکرِرسا ہر لمحہ اللہ اکبر کے نعرے لگا رہی ہو۔جنکے دل دھڑکتے ہوں۔

تازہ ترین