• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صحرائے تھر کے مخصوص حالات طویل عرصے سے اس بات کے متقاضی رہے ہیں کہ وہاں اچھی غذا، پینے کے صاف پانی، علاج معالجے اور تعلیم سمیت زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے پر خاص توجہ دی جائے۔ جب سے اس ریگستان میں زیر زمین کوئلے کے غیرمعمولی ذخیرے کا انکشاف ہوا، اس کے بعد یہ ضرورت بڑھ گئی تھی کہ وہاں سڑکوں اور انفرا اسٹرکچر کی تعمیر اور دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی کے کام میں زیادہ تیزی لائی جائے مگر وہاں کام کرنے والی مشینری کی کارکردگی پر بعض سوالات سامنے آتے رہے ہیں۔ پیر کے روز سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ نے تھرکول اتھارٹی میں اربوں روپے کی کرپشن کی آڈٹ رپورٹ پیش نہ کئے جانے پر صوبائی حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ سے چار ہفتوں میں رپورٹ طلب کی ہے۔ جسٹس گلزار احمد اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل بنچ نے کراچی رجسٹری میں اربوں روپے کی کرپشن سے متعلق سوموٹو کیس کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں نشاندہی کی 105؍ارب کی خطیر رقم خرچ ہوگئی مگر تھر کے عوام کو ایک گلاس پانی تک نہیں ملا۔ عدالت عظمیٰ نے سندھ کول اتھارٹی میں ڈیپوٹیشن پر کام کرنے والوں کی بے ضابطگیوں سے متعلق طلب کردہ آڈٹ رپورٹ کے بارے میں سوال کیا تو ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے لاعلمی ظاہر کی جس پر بنچ کے سربراہ نے وزیر اعلیٰ سندھ کو ہدایت کی کہ وہ اربوں روپے کے خطیر ترقیاتی فنڈ کے استعمال کے بارے میں رپورٹ جمع کرائیں۔ توقع ہے کہ عدالت کے حکم پر جمع کرائی جانے والی رپورٹ میں اس رقم کے استعمال اور متعلقہ اسکیموں کے بارے میں وہ باتیں تفصیل سے شامل کی جائیں گی جن کا صوبائی حکومت کی جانب سے وقتاً فوقتاً ذکر کیا جاتا رہتا ہے۔ پسماندہ علاقوں کے عوام کی حالت بہتر بنانا حکومت کی خاص ذمہ داری ہے جبکہ تھر کے علاقے کی ترقی سے تو پورے صوبے اور پورے ملک کا مفاد وابستہ ہے جس پر خصوصی توجہ دینا ضروری ہے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین