کیا کاروباری دنیا بالآخر اس عظیم چیلنج سے نمٹنے کے لیے آنکھیں کھول چکی ہے، جو ماحولیاتی تبدیلی (کلائمیٹ چینج)کی صورت میں سامنےآچکا ہے؟ رواں سال ڈیووس میں منعقدہ ’ورلڈ اکنامک فورم‘کم از کم اس سلسلے میں اُمید کی ایک کرن ضرور دیتا ہے۔
اس سال ڈیووس اجلاس کی ایک خاص بات، 16سال کی نوعمر لڑکی گریتا تھنبرگ کو ماحولیاتی تبدیلی کے پینل میں اسٹیج پر مدعو کرنا تھا۔ گریتا تھنبرگ کا تعلق سویڈن سے ہے۔ تھنبرگ ماحولیاتی تبدیلی کی ایک ’بڑی‘ سماجی کارکن کے طور پر سامنے آئی ہے، جسے نہ صرف دنیا کے بڑے بڑے سربراہان خاموشی اور توجہ سے سنتے ہیں بلکہ اس نے دنیا بھر میں لاکھوں طلباء کو بھی ماحولیاتی تبدیلی کے لیے کھڑا ہونے کی راہ دِکھائی ہے۔
’’مجھے آپ لوگوں سے کوئی اُمید نہیں چاہیے۔ میں چاہتی ہوں کہ آپ لوگ خوف کھائیں اور کچھ کریں‘‘۔ گریتا تھنبرگ نے ڈیووس میں ان الفاظ سے اپنی تقریر کا آغاز کیا۔
وہ دنیا کے چند طاقتور ترین لوگوں کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کرنے سے خوفزدہ نہیں تھی۔ اس کی آواز میں وہ سچائی اور طاقت تھی، جسے کوئی بھی مالیاتی، سیاسی اور میڈیا ادارےکا سربراہ نظرانداز نہیں کرسکتا تھا۔
16سالہ گریتا تھنبرگ جانتی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں دنیا کو رہنے کے قابل نہیں چھوڑیں گی۔ ’’ہمارے گھر کو آگ لگ چکی ہے۔ ڈیووس میں لوگ کامیابی پر بات کرنا پسند کرتے ہیں لیکن مالیاتی کامیابی ایک قیمت پر حاصل کی گئی ہے اور ماحولیات کے مسئلے پر ہم (پوری دنیا) بُری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ جب تک ہم اپنے سسٹم کی ناکامی کو تسلیم نہیں کریں گے، دنیا کو مشکل کا سامنا رہے گا: ایسی مشکل جس کے متعلق غالباً کوئی بولنے کو تیار نہیں ہے‘‘۔
گریتا تھنبرگ ایک ننھی سماجی کارکن ہے لیکن اس کی آواز میں وہ معصومیت اور سچائی ہے کہ ایک دنیا اسے سُننے اور اس کا ساتھ دینے کے لیے تیار نظر آتی ہے۔
تھنبرگ سمجھتی ہے کہ عمومی تاثر کے برعکس ماحولیات کوئی پیچیدہ مضمون نہیں ہے۔ وہ بڑے لوگوں (بڑی عمر کے بالغ اور سمجھدار افراد) کی یہ باتیں سُن کر بیزار آچکی ہے کہ ڈھانچہ جاتی اصلاحات قدرے مشکل، حساس، پیچیدہ اور طویل مدتی ایجنڈا ہے اور یہ کہ کچھ بھی سیاہ اور سفید میں نہیں ہوتا۔ وہ کہتی ہے، ’’یہ ایک بڑا جھوٹ ہے۔ ہمارے پاس دو انتخاب ہیں، اب یہ ہم پر ہے کہ ہم کس کا انتخاب کرتے ہیں۔ ہم درجہ حرارت کو 1.5ڈگری سیلسیس سے بڑھنے دے سکتے ہیں یا پھر نہیں۔ہم اپنے ایکو سسٹم کو بچانے کے لیے اقدامات لے سکتے ہیں یا پھر نہیں۔ ماحولیات، سیاہ و سفید کا معاملہ ہی ہے۔ اس لیے اب ہم نے ایک انتخاب کرنا ہے۔ یا تو ہم عمومی طریقہ کاروبار اور زندگی گزارنے کے طور طریقوں کو بدلیں یا پھر سب کچھ اسی طرح جاری رکھیں اور آنے والے چند برسوں میں سب ایک ساتھ ڈوب جائیں‘‘۔
تبدیلی کے عمل کا سب سے بڑا اقدام اگلے 12برسوں میں کاربن کے اخراج میں 50فی صد کٹوتی کا ہوگا۔ ’’ہمیں اپنے غلط اقدامات کو سُدھارنے کے لیے صرف 12سال کا عرصہ رہ گیا ہے‘‘۔
گریتا تھنبرگ ابھی ووٹ دینے کے لیے چھوٹی ہے۔ اس کے پاس اپنا سرمایہ بھی نہیں ہے کہ وہ کسی مقصد پر خرچ کرسکے۔ اس کے پاس دنیا کے عمومی طریقۂ کاروبار میں بدلاؤ لانے کے لیے مطلوب طاقت بھی نہیں ہے۔ اس کے پاس اگر کوئی ایک چیز ہے تو وہ ’آواز‘ ہے اور وہ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ اس کی آواز کو سُنا جائے۔
اپنی آواز کو بلند کرنے کے لیےوہ ہر جمعہ کے دن، طاقتور اداروں کی چوکھٹ پر ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کے لیے احتجاج کرتی ہے۔ چاہے وہ اسٹاک ہوم میں سویڈن کا پارلیمان ہاؤس ہو یا پھر ڈیوو س، وہ ماحولیات کے لیے احتجاج کرکے ’زیرو کاربن‘ کے ایجنڈے پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے اپنی آواز بلند کرتی ہے۔
گریتا تھنبرگ، ماحولیات کے مسئلے پر ہڑتالیں و احتجاج کرتی ہے اور اب تک دنیا بھر سے ایک لاکھ سے زائد نو عمر لڑکے اور لڑکیاں اس کے ساتھ اظہارِ یکجہتی اور اس کے مقصد کو سپورٹ کرنے کے لیے ہر جمعہ کے دن اپنے اپنے اسکولوں میں پلے کارڈز اُٹھا کر احتجاج کرتے ہیں۔
’’ہم تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر ہیں، جہاں ضمیر رکھنے والے ہر شخص کو اپنے اپنے معاشرے میں ضروری تبدیلی لانے کے لیے اپنے کردار کا تعین کرنا ہوگا‘‘، وہ کہتی ہے۔ ’’جس کا کاربن اخراج میں زیادہ کردار ہے، اس پر ذمہ داری بھی اتنی ہی زیادہ عائد ہوتی ہے‘‘۔
تھنبرگ سمجھتی ہے کہ ماحولیات کو گرم کرنے والے عناصر کو مزید اعانت فراہم نہیں کی جاسکتی۔ ’’میں اکثر بالغ افراد سے سُنتی ہوں کہ ’ہمیں آنے والی نسل کو اُمید دینی چاہیے‘ لیکن یہاں مجھے یہ کہنے دیں کہ مجھے آپ سے کوئی اُمید نہیں چاہیے۔ میں چاہتی ہوں کہ آپ وہ خوف محسوس کریں جو میں ہر روز محسوس کرتی ہوں اور میں چاہتی ہوں کہ آپ کچھ کریں۔ میں چاہتی ہوں کہ آپ اس طرح محسو س کریں کہ ہمارے گھر کو آگ لگ چکی ہے کیونکہ اسے حقیقتاً آگ لگ چکی ہے لیکن ہر کوئی ایسے ظاہر کررہا ہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے‘‘۔
دنیا کو بچانے کے لیے گریتا تھنبرگ کی جدوجہد کا نوٹس لیا جارہا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اسے امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔
گریتا تھنبرگ کو امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کرنے کا سہرا ناروے کے تین اراکینِ اسمبلی کو جاتا ہے۔
اس سے پہلے پاکستان کی ملالہ یوسفزئی امن کا نوبل انعام 17سال کی عمر میں حاصل کرچکی ہیں اور اگر گریتا یہ انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو وہ دنیا کی کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ شخصیت بن جائے گی۔