• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احمد حسین صدیقی

 کراچی ابتداء ہی سے ایک تجارتی شہر رہا ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس کی آبادکاری کا اصل سبب ہی یہ تھا کہ کچھ تاجروں کو اپنی تجارت برقرار رکھنے کے لئے ایک نئی بندرگاہ کی ضرورت تھی۔ ایک ایسے شہر کی تاریخ کو مرتب کرتے ہوئے یہ قطعاً نامناسب ہوگا اگر اس شہر کی تجارت سے متعلق’’چیمبر آف کامرس‘‘ کا تذکرہ تفصیل سے نہ کیا جائے۔ (موجودہ کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری) کراچی چیمبر آف کامرس نے اپنی صدسالہ تقریبات کے موقع پر جو 1960ء میں منائی گئیں۔ ایک برطانوی مصنف ہربرٹ فیلڈ مین کو یہ فریضہ تفویض کیا کہ وہ چیمبر کی ایک مستند تاریخ بھی مرتب کرے۔ ہربرٹ فیلڈ کا کہنا ہے کہ اس نے اس تاریخ کو مرتب کرتے ہوئے چیمبر کے ریکارڈ بہ طور خاص اس کی سالانہ رپورٹوں سے استفادہ کیا۔ اس طرح کراچی اور سندھ بلکہ اس وقت کے برِصغیر کی مستند معاشی اور انتظامی تاریخ ابھر کر سامنے آئی۔ ہربرٹ فیلڈ مین کے مطابق کراچی چیمبر آف کامرس کی پہلی رپورٹ میں پہلا اندراج اپریل 1860ء میں ملتا ہے۔ اس وقت چیمبر کے بنیادی اراکین سات تھے، جن کے نام میکیور اینڈ کمپنی، فنلے اینڈ کمپنی، جے۔کے۔ ڈنلے اینڈ کمپنی اور ایش برنر بیل اینڈ کمپنی تھے۔ سال کے آخر تک اس میں چھ اور کمپنیوں کا اضافہ ہوا۔ ان ابتدائی تیرہ کمپنیوں میں سے دو ہندوستانی تھیں یعنی ایس۔طیب جی اینڈ کمپنی اور اردشیر اینڈ کمپنی۔ اس وقت تجارت پر ہندو چھائے ہوئے تھے لیکن چیمبر آف کامرس کے قیام کے پہلے سال کسی بھی ہندو تاجر نے اپنی کمپنی کا اندراج چیمبر میں نہیں کرایا تھا۔ یہ بات بھی واضح اور ظاہر ہے کہ چیمبر کا قیام اس لئے عمل میں لایا گیا تھا کہ یورپی تجارتی مفادات کا تحفظ کیا جاسکے۔ اسی لئے ابتدا سے ہی اس کی رکنیت حاصل کرنے کا رجحان یورپی کمپنیوں میں زیادہ رہا اور تقسیم کے وقت تک وہ چیمبر آف کامرس پر چھائے رہے۔ چیمبر کے پہلے چیئرمین مسٹر ڈی۔میک آیور تھے۔ سفید داڑھی والے اس وکٹورین اور باوقار بوڑھے کی تصویر آج بھی کراچی چیمبر آف کامرس کے بورڈ روم میں آویزاں ہے۔

ابتدائی برسوں میں کراچی چیمبر آف کامرس کی اپنی کوئی عمارت نہ تھی اور اس کے اجلاس رکن کمپنیوں کے دفتروں میں ہوتے تھے۔ 1863ء میں حکومت نے چیمبر آف کامرس کو ووڈ اسٹریٹ پر ایک قطعہ اراضی لیز پر دیا۔ چیمبر کی عمارت چندے اور قرض کے ذریعے تعمیر کی گئی، 30؍مارچ 1865ء کو چیمبر کے دفاتر کا باقاعدہ افتتاح ہوا۔ چیمبر کی رکنیت فیس ابتدائی دنوں میں 50روپے تھی اور رکن کمپنیوں کو ہر مہینے 20روپے بہ طور چندہ دینا پڑتے تھے تاہم وقتاً فوقتاً اس رقم میں کمی بیشی ہوتی رہی۔ کراچی کی تجارتی اور اقتصادی سرگرمیوں میں ایک سنگ میل 1861ء کا سال ثابت ہوا ۔ کراچی سے کوٹری تک سو میل لمبی ریل کی پٹڑی بچھائی گئی اور ان دونوں شہروں کے درمیان باقاعدہ ریل کی آمد و رفت شروع ہوگئی۔ اس وقت تک ہندوستان میں 18سو میل لمبی ریل پٹڑیاں بچھ چکی تھیں جو بمبئی اور مدراس سے مختلف شہروں اور بستیوں کو جوڑتی تھیں لیکن 1861ء سے پہلے تک کراچی کا شمار ان شہروں میں نہیں ہوتا تھا جو ریل سے جڑے ہوئے تھے اور اسی لئے کراچی کو بنیادی طور پر تجارتی رابطوں کے لئے دریائے سندھ پر انحصار کرنا پڑتا تھا اور تجارتی سامان کی آمد و رفت کشتیوں کے ذریعے ہوتی تھی۔

1861ء میں برصغیر سے دس ہزار میل دور ایک واقعہ رونما ہوا جس نے ہندوستانی تجارت پر اچھے اور برے دونوں اثرات مرتب کئے۔ یہ واقعہ امریکی خانہ جنگی تھی۔ اس خانہ جنگی کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستانی کپاس کی مانگ میں اس قدر زیادہ اضافہ ہوا کہ ایک مختصر مدت کے لئے کپاس کی تجارت سونے کی کان سمجھی جانے لگی۔ اس کا اثر کراچی پر یہ ہوا کہ اس کی بندرگاہ سے برآمد ہونے والے مال کی سالانہ مالیت چھ کروڑ چھیاسٹھ لاکھ روپے (Rs. 6,66,00,000) تک جا پہنچی اور اس رقم میں سے اسی لاکھ روپے (Rs. 80,00,000) کی صرف کپاس برآمد کی گئی لیکن صرف پانچ برس بعد برآمدات کی رقم کم ہوکر تین کروڑ اٹھاسی لاکھ (Rs. 3,88,00000) رہ گئی اور کپاس کی برآمدات پچاس لاکھ (Rs. 50,00,000) سے بھی کم ہوگئیں۔ اس نوعیت کے ہنگامی اتار چڑھائو نے کراچی کی کئی کمپنیوں کو شدید نقصان پہنچایا اس کے باوجود بیشتر بیوپاریوں کو فائدہ ہوا اور وہ راتوں رات دولت مند ہوگئے۔

اس زمانے میں کراچی کی تجارتی سرگرمیوں میں اصل چیز نمک کی برآمد تھی۔ دریائے سندھ سے حاصل کردہ عمدہ قسم کا لاکھوں ٹن نمک دوسرے شہروں اور ملوں کو برآمد کیا جاتا تھا۔ 1854ء میں ’’کراچی سالٹ کمپنی‘‘ قائم کی گئی جس کا کام اعلیٰ درجے کے نمک کو اکٹھا اور برآمد کرنا تھا۔ اس زمانے میں صوبہ سندھ میں نمک کی برآمدپر ایکسائز ڈیوٹی عائد ہوتی تھی، بعد میں بنگال پریزیڈنسی میں نمک کی درآمد پر ایکسائز ڈیوٹی لگا دی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لیور پول سے کلکتہ پہنچنے والا نمک زیادہ سستا ہوگیا کیونکہ اس پر کسی قسم کی درآمدی ڈیوٹی نہیں تھی۔ چنانچہ آہستہ آہستہ ’’کراچی سالٹ کمپنی‘‘ کے نمک کی کھپت کم ہوتی گئی ،اس کمپنی کو آخرکار بند کردیا گیا۔

کراچی کے لوگوں کو نمک کی پیداوار کے لئے صرف دریائے سندھ ہی پر انحصار نہیں کرنا پڑتا تھا۔ کیونکہ شہر کے مغربی حصے میں زمین کے ایسے متعدد بڑے بڑے قطعات تھے جن پر نمک کی موٹی تہہ بچھی ہوئی تھی اور کراچی کے باشندے اس نمک کو اکٹھا کرکے نہ صرف اپنے شہر کی ضروریات پوری کرتے بلکہ یہ نمک دوسرے شہروں کو بھی بھیجا جاتا تھا۔ اس زمانے میں آڑھت بازار میں ایک اونٹ پر لدے ہوئے پانچ چھ من نمک کی قیمت دس آنے ہوتی تھی اور یہی نمک عام شہریوں کو دو سیر پیسے کے حساب سے فروخت ہوتا تھا، بعد میں برطانوی حکومت نے سارے سندھ میں نمک کی پیداوار اور اس کی فروخت کے معاملات کی دیکھ بھال کے لئے ’’نمک ڈپارٹمنٹ‘‘ قائم کردیا تھا۔ نمک کے علاوہ یہاں سے تیل کے بیج، غلہ، کپاس، اون برآمد کی جاتی اور بنی بنائی مصنوعات کراچی کی بندرگاہ پر اترتیں۔ ان میں کپڑا، مختلف دھاتیں، ریشم اور صاف کی ہوئی شکر کے علاوہ دیگر بعض اشیاء شامل تھیں۔ جب تک کہ پورے ملک میں سڑکوں اور ریل کی پٹڑیوں کا جال نہیں بچھ گیا اس وقت تک ملک بھر کے تاجر برآمدی سامان ضلع وار اکٹھا کرتے اور پھر اسے مختلف ذرائع سے کراچی پہنچایا جاتا۔ اس ساری سرگرمی میں یورپی کمپنیاں حصہ لیتیں اور یہ سارا سامان ان کے گوداموں میں رکھا جاتا اور پھر مختلف بحری جہازوں میں لاد کر دنیا کے مختلف علاقوں کو روانہ کردیا جاتا۔ اسی طرح درآمد ہونے والا سامان بھی ان ہی گوداموں میں رکھا جاتا اور پھر یہاں سے ہندوستان بھر کے تاجروں اور دکانداروں کو ارسال کیا جاتا۔

1887ء میں کراچی پورٹ ٹرسٹ قائم ہوا جس کے بورڈ آف ٹرسٹیز دو نشستیں کراچی چیمبر آف کامرس کے ممبران کے لئے مخصوص کردی گئیں۔ چیمبر کی طرف سے جو پہلے دو ممبران نامزد کئے گئے ان میں سے ایک بینک آف بمبئی کے جیمز گرانٹ اور دوسرے ولکارٹ برادرز کے آگسٹس تھول تھے۔ پورٹ ٹرسٹ کا قیام کراچی کی بندرگاہ کی بہتری اور ترقی کا ایک بنیادی سبب تھا۔ یہی وجہ تھی کہ 1880ء سے کراچی نے گیہوں کی برآمد میں کلکتہ کو پیچھے چھوڑ دیا اور بمبئی کے قریب پہنچنے کی کوشش کرنے لگا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر سے گیہوں کی برآمد سب سے بڑی اقتصادی سرگرمی تھی اور گیہوں برآمد کرنے والے شہروں اور ملکوں کے درمیان ایک دوڑ سی لگی ہوئی تھی۔

بیسیویں صدی کا آغاز کراچی چیمبر آف کامرس کے لئے ایک نیک شگون کے طور پر ہوا۔ اس کی نہ صرف شہرت میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا بلکہ اس کی دولت بھی دن دونی رات چوگنی بڑھ رہی تھی۔ 1902ء میں کراچی پوٹ ٹرسٹ ترمیمی ایکٹ نے چیمبر کو اس کا موقع فراہم کیا کہ پورٹ ٹرسٹ کے بورڈ میں اس کے ایک اور نمائندے کا اضافہ ہو جائے۔ 1904ء میں اس کی تجارتی سرگرمیاں عروج پر پہنچ گئیں اور کراچی کے تاجروں کا شمار اب برصغیر کے دولت مندوں میں ہونے لگا۔

ہمارا موضوع چونکہ کراچی چیمبر آف کامرس کی تاریخ بیان کرنا نہیں ہے اس لئے ہم اس تذکرے کو یہ کہہ کر مختصر کریں گے کہ پہلی جنگ عظیم کے آغاز کے ساتھ ہی کراچی کی بندرگاہ اور اس کے چیمبر کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوگیا ا ور یہ کراچی ہی تھا جس نے جنگ عظیم کے آغاز کا اعلان سنتے ہی کراچی کی بندرگاہ پر لنگر انداز جرمن جہاز BRAUNFILS کو گرفتار کرلیا اور متعلقہ حکام کے سپرد کردیا۔

آج کا کراچی نہ صرف ایشیا بلکہ دنیا کا ایک اہم ترین شہر ہے۔ اس کی ترقی کا جو بیج ڈیڑھ دو سو سال قبل چند دور اندیش تاجروں نے بویا تھا، اب ایک تناآور درخت کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ کراچی کے اس عروج و کمال کی کہانی ہمیشہ دل چسپی سے پڑھی جاتی رہے گی۔

تازہ ترین