• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’برنس روڈ‘‘ نام کی تبدیلی کے باوجود لوگ پرانا نام نہیں بھولے

رشیدبٹ

 بات ہے کراچی کے برنس روڈ کی۔ یہاں صبح کیسی ہے؟ دن کیسا گزرتا ہے؟ رات کو کیا سماں ہوتا ہے؟ اب میں کیا کہوں۔ آج کے برنس روڈ کی کوئی کیا بات کرے؟ ہاں پینتالیس برس پہلے صبح برنس روڈ کی بات کروتو کوئی بات بنے! تب کی صبح برنس روڈ کو ’’ صبح بنارس‘‘ کے ہم پلہ تو نہیں کہا جاسکتا، بہرحال روز ہی ایک یادگار صبح نمودار ہوا کرتی تھی ۔ تب برنس روڈ اتنا گنجان بھی نہ تھا۔ ہاں رات گئے تک جاگتا ضرور تھا۔ اور پھر کچھ دیر کے لیے شاید سوبھی جاتا تھا۔ یہاں تڑکا ہوتاتھا۔ ادھر ادھر بکھرے بوڑھے پیٹروں سے پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں بھی سنائی دیتی تھیں۔ دلکش آوازیں۔ آج کل ایسی چہچہاہٹ نہیں جو دھویں اور آلودگی کے سبب چہچہاہٹ کم ، کھانسی اور کھنکھارزیادہ لگتی ہے۔

ارے میں کدھر نکل گیا؟ آئیے واپس برنس روڈ چلتے ہیں۔ برنس روڈ… آج سے کوئی ڈیڑھ سوبرس پہلے تک کراچی یا کلاچی میں ایسی کوئی سڑک نہ تھی۔بلکہ ایسا کچھ بھی نہ تھا۔ہم1843میں آتے ہیں تو میانی کی جنگ ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ انگریز حکمرانوں کی فوج اور سندھ کے ٹالپر میر حکمرانوں کے درمیان۔ اندرونی ریشہ دوانیوں اور انگریز چالبازیوں کا نتیجہ… ایک اذیت ناک فقرہ ہمیں پڑھنے کو ملتا ہے، جو جریدہ وقت پر ثبت ہے۔’’ انگریزوں کی فتح ہوئی ہے اور انہوں نے سندھ حاصل کرلیا ہے۔ میروں نے ہمیشہ کے لیے سندھ گنوادیا۔‘‘ ان دنوں کی تاریخ میںہمیں’’ رام باغ تالاب‘‘ کاذکر ملتا ہے۔ اور یہی رام باغ تالاب ہے جس کے ایک کونے سے برنس روڈ پھوٹتا ہے۔ اور ہم الٹی سمت چلیں توسابق میکلو ڈروڈ، حال کے آئی آئی چندریگرروڈمیں گم ہوجاتا ہے۔

شاعرانہ تعلی سے کام لیاجائے توجنگ میانی کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’ لوگ آتے گئے ، کارواں بنتا گیا۔‘‘ کچھ ہی عرصے بعد ہمیں بلدیہ کراچی کی عمارت زمین سے سراٹھاتی دکھائی دیتی ہے۔ آس پاس عمارتیں بننے لگتی ہیں۔ برنس روڈ اپنے نشان پکڑنے لگتا ہے۔ برسوں بعد اس کے اس نکڑ پرجہاں یہ میکلوڈروڈ یا آئی آئی چندریگر روڈ میں، گم ہوتا دکھائی دیتا ہے، ایک عمارت ابھرتی ہے ، جس کے ساتھ نچلے درجے کے ملازمین کے کوٹھری نماسرونٹس کوارٹرز کی طویل قطار چلی گئی ہے… یہ پوسٹ ماسٹر جنرل کا بنگلہ ہے یا ہوتاتھا ، میں آج تک طے نہیں کرپایا کہ یہ میکلوڈروڈ کاحصہ ہے یا برنس روڈ کا ! اس کا سامنے کارخ میکلوڈروڈ کی جانب کھلتا ہے تو سرونٹس کوارٹرز کی طویل دیوار برنس روڈ کے ساتھ ساتھ چلتی چلی جاتی ہے! ذرا ٓگے بڑھیں توایک چوک سا آتا ہے۔ اس سے لگ بھگ چھ راستے پھوٹتے ہیں۔میں نے پینتالیس چھیالیس برس کے عرصے میں اس چوک کو کئی روپ بھرتے دیکھا ہے۔ ڈیڑھ سوبرس پہلے جب یہ سڑک بننا شروع ہوئی ہوگی توجانے اس چوک کا روپ کیا ہوگا۔ سڑک پہ یاد آیا کہ آخر اس سڑک کا نام برنس روڈ کیوں رکھاگیا؟ ایک روایت یہ ہے کہ انیسویں صدی کے ابتدائی دوتین عشروں میں انگریز حکمراں اپنی فوجیں سندھ کے راستے کابل تک پہنچانے کی سازشوں میں مصروف تھے توان فوجوں کے ساتھ جمیز برنس نامی ایک ڈاکٹر بھی آیا۔ اس نے ٹالپر میر حکمرانوں کا کچھ علاج معالجہ بھی کیا جس پر وہ خوش بھی ہوئے ۔ یوں اس کا نام اچھے لوگوں میں شمار ہونے لگا۔ انگریز اپنے کارندے کے ناموں کوکسی بھی حوالے سے دوام بخشنے میں،بخل سے کام نہیں لیتے تھے ۔ چنانچہ جب کراچی شہر کا نقشہ بناتو اس میں ایسے کئی انگریزوں کے ناموں پر قدیم اور اندرون شہر کی سڑکوں کے نام رکھے گئے ۔ صرف برنس روڈ کے دائیں بائیں پھوٹتی کئی سڑکوں اور گلیوں کے نام بھی بلدیہ کراچی کے ریونیوریکارڈ میں ان ہی انگریزوں کے نام پرہیں جنہوں نے سندھ کو سلطنت برطانوی ہند کاحصہ بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔

میں بات کررہاتھا پانچ چھ سڑکوں والے چوک کی۔ اسی کے ایک سمت بلکہ سرراہ برنس گارڈن بھی ہے۔ کسی زمانے میں یہ باغ رہا ہوگا۔اب تواگر کچھ پرانے بوڑھے درختوں،گھاس کے قطعوں اور چند ایک چھوٹے چھوٹے کوارٹروں یا جھونپڑیوں کو، باغ یا گارڈن کہا جاسکتا ہے تو واقعی برنس گارڈن ہے۔ ویسے اطلاعاً عرض ہے کہ اس کی لوہے کے جال والی چار دیواری کے گیٹ پر بڑے بڑے حروف میں’’ نیشنل میوزیم آف پاکستان‘‘ کا محرابی بورڈ لگا ہوا ہے۔ اندر ایک نوتعمیر شدہ آڈیٹوریم بھی ہے۔

ویسے اس کئی سڑکوں والے برنس چوک کو معمولی نہ جانیے۔ سچ پوچھیے تواس کے اطراف میں کراچی کی علمی اور تعلیمی تاریخ بکھری پڑی ہے۔ تعلیمی ادارے اور ہاسٹل جنہیں کبھی ملک گیر شہرت حاصل تھی۔ ملک بھر سے حصول علم کے پیاسے نوجوان یہاں کھینچے چلے آتے تھے۔ تحصیل علم کے بعد یہیں رہ جاتے تھے۔ بہت سے اپنے اپنے علاقوں کو لوٹ کرعلم کے نئے نئے دیئے روشن کرتے تھے۔ پھر ان تعلیمی اداروں، دانش گاہوں کو جانے کس کی نظر کھاگئی۔ ایک طرف سندھ مسلم لا کالج ہے، تو دوسری طرف ڈی جے سائنس کالج کی پرشکوہ عمارت ہے۔ اسی کے عقب میں این ای ڈی یونیورسٹی کاسٹی کیمپس ہے۔ ڈی جے آرٹس کالج، سندھ مسلم آرٹس اینڈ کامرس کالج کی بے رنگ وروغن دیواریں ہیں۔ پہلے یہاں علم کی شمعیں روشن ہوتی تھیں۔ پھر جانے کون انہیں ہتھیاروں اور گولیوں کاروپ دے گیا۔ مٹھارام ہاسٹل تھا ۔ اس کے گیٹ پر بورڈ اسی نام کا لگا ہوا ہے لیکن اندر رینجرز کاگڑھ ہے۔ ڈی جے سائنس کالج کے پیچھے مشہور زمانہ سیواکنج ہاسٹل ہے ۔ جس کی عمارت کھنڈر ہورہی ہے۔ گراونڈ فلور پر تو پھر بھی چند ایک دکانیں اور پریس ہیں لیکن بالائی منزلوں پر چمکادڑوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ یہ اپنے وقت کے وہ تعلیمی ادارے تھے ، جو برصغیر کی تقسیم سے پہلے برسوں کی محنت کے بعد ہندووں اور مسلمانوں نے بلا تحصیص مذہب وملت نوجوانوں کو علم کی روشنی سے مالا مال کرنے کی خاطر قائم کیے تھے ۔ اب اسی نکڑ یا چوک کے کونے سے برنس روڈ کا وہ حصہ شروع ہوتا ہے جو پیٹ پوجا یاکھانے پینے کی لذیز اشیا کے لیے بقول شخصے، بدنام ہے۔ یہاں ہر چند قدم پر گلیاں اور گلیارے پھوٹتے ہیں۔ یہ آوٹ رام روڈ ہے۔ وہ کیمبل اسٹریٹ ہے۔ اس پرجی نہیں بھرا تواگلی گلی کو انگریزوں نے اپنے زمانے میں کیمبل روڈ کا نام دے دیا۔ ہمارے بھائی بند بھی کسی سے کم نہ رہے۔ ایک گلی میں دودھ سے مکھن نکالنے کا کام شروع کیا تو اسے مکھن گلی نام دے دیا۔ ساتھ ہی سبزی گوشت کی مارکیٹ بنا دی جہاں آپ کو سوتی دھاگا، زمانہ ملبوسات پر ٹکانے والے بیل بوٹے اور مٹی کاتیل تک، سب مل جاتے ہیں۔ یہ ہوئی ناں بات۔ برنس روڈ کی گلیوں اور خود برنس روڈ پر کسی چیز کی کمی نہیں۔ یہ بھی عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ صبح جس تخت پوش پر اخبار بک رہے ہیں، شام کواسی پر تازہ مچھلی کاٹ کے بیچی جارہی ہے۔

ہرسال رمضان کے دوسرے ہفتے سے ہررنگ ونسل کے افطاری کے سامان کی ریڑھیاں اور ٹھیلے اس قدر تعداد وقطار میں یہاں جمع ہوجاتے ہیں کہ فٹ پاتھوں پرچلنے کا بھی رستہ نہیں ملتا۔ اور ان خوانچے والوں کی نوع بہ نوع آوازیں،گاہکوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کا انداز… کسی کو کچھ خریدنا ہے یا نہیں، کوئی صرف آگے بڑھنے کا رستہ ڈھونڈرہاہے، یہ ان کا مسئلہ نہیں۔ وہ تو اسے روک کرکھڑے ہوجائیں گے۔ اپنے اپنے پکوان، پکوڑے،سموسے، گلگلے، مصالحہ لگے ابلے ہوئے کالے سفید چھولے، سونٹھ پانی، گول گپے، کھجلا، پھینی،پھیکی جلیبیاں،سستے داموں بیچنے کی پیش کش کرتے ہیں ۔ جوں جوں افطاری کا وقت قریب آتا جاتا ہے، ان کا نعرہ مستانہ ہر طرف بلند ہونے لگتا ہے۔ ’’ ہوگئی شام، گرگئے دام‘‘۔ ہرشے پر دلی والوں کی چھاپ ہوتی ہے۔ ہوٹلوں والے ،ڈھابوں والے، سب دلی والے۔ کسی نے حلیم کا خصوصی رمضان کاونٹر لگا رکھا ہے۔ کوئی تافتان، شیر مال اور خمیری روٹیاں تازہ تازہ نکال رہا ہے، ہر سو ان کی مہک ہے۔ دم پر رکھا قورمہ جس پر آدھ انچ موٹی تری کی تہہ چڑھی ہے۔ اور بریانی۔ گولا کبابوں کی تیاری، بڑے سے پتیلے میں ، بلبلے چھوڑتی ہوئی بٹ… ہاں بٹ پہ یاد آیا۔ میں نیا نیا کراچی آیا۔ یہی کوئی پینتالیس چھیالیس برس پہلے۔ ایک روز صبح سویرے برنس روڈ سے گزررہا تھا تودیکھا کہ ایک صاحب ریڑھی پہ انگیٹھی اور انگیٹھی پہ بڑا سا دیگچہ رکھے، اس میں اتنا ہی بڑا چمچہ یا کفگیر چلارہے ہیں۔ ریڑھی پر بڑا سا بورڈ لگا تھا ۔’’ دہلی بٹ ہاوس‘‘۔ میں رہ نہ سکا اور ان سے پوچھ لیا کہ میاں یہ آپ بٹ پکا کے بیچ رہے ہیں۔ آپ کو پتا ہے بٹ کون ہوتے ہیں؟

وہ صاحب شاید پہلے بھی کسی ایسے ہی تجربے سے گزر چکے تھے۔ میرا سوال پورا نہ ہوا تھا کہ بول اٹھے۔’’ ارے صاحب یہ وہ بٹ نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ یہ اوجھڑی ہے۔ اسے دلی والے بٹ کہتے ہیں۔‘‘ تویہ ہیں دلی والے۔ کھانے کے شوقین اور کھانا پکانے کےبھی شوقین۔کہاجاتا ہے کہ گولا کباب دلی والوں کا خاص کھاجا ہے۔ دلی میں کباب پر لپٹنے کے لیے دھاگے کی ضرورت پڑی تو انہوں نے سوت کے کارخانے بھی خود لگا لیے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ کباب بھی اپنے اور دھاگا بھی اپنا، کسی کی محتاجی کیوں کریں؟

برنس روڈ فوڈمارکیٹ یا اشیائے خوردونوش کا مرکز کب سے بنا۔ یہ تو کسی کو معلوم نہیں۔ ہاں ایک روایت ضرور چلی آرہی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد سرکاری دفاتر اسی علاقے کے قرب وجوار میں بنے کیوں کہ وہاں انگریزوں کے زمانے کی بیرکیں تھیں۔ تھوڑے بہت ردوبدل کے بعد انہیں کمروں یا بیٹھنے اور میز کرسیاں رکھنے کی جگہ میں تبدیل کرلیاگیا،۔کم تنخواہوں کا زمانہ تھا۔ اتنی فراغت نہ تھی کہ سرکاری ملازمین گھروں کوجاتے اور دوپہر کاکھانا کھاکے دفتر لوٹ آتے۔ ان سرکاری ملازمین میں بہت سے لوگ ہندوستان کے ان علاقوں سے ہجرت کرکے آئے تھے جو پڑھے لکھوں کے علاقے تھے۔ اسی طرح دلی کے پکوان والوں نے بھی ہجرت کی توبرنس روڈ کو اپنامرکز بنایا۔ دھیرے دھیرے ڈھابوں اور ہوٹلوں کی تعداد بڑھتی گئی ۔ سرکاری ملازموں کے لیے آسانی پیدا ہوگئی… ادھر ڈوبے، ادھر نکلے۔ دوپہر میں دفتروں سے نکلے اور چندقدم چل کے برنس روڈ پرمن مرضی کے ڈھابے پر پہنچ گئے۔ کھانا کھایا اور پھر دفتر میں جا بیٹھے۔ ایوب خان دارالحکومت اٹھاکے اسلام آباد لے گئے تو برنس روڈ کے ڈھابوں کی رونقیں کچھ ماند پڑیں۔ لیکن دلی والے بھی آخر دلی والے ٹھہرے۔ انہوں نے اپنے اس مرکز خوردونوش کوبند نہ ہونے دیا۔ اور آج تو ماشااللہ، اس معاملے میں کوئی علاقہ برنس روڈ کے دلی والوں کی گرد کونہیں چھو پاتا۔

یہاں ایسے ڈھابے یاتھلے بھی ہیں کہ صبح سویرے حلوہ پوریاں بنانا شروع کرتے ہیں۔ سہ پہر تک بیچتے، کھاتے اور کھلاتے ہیں اور شام کو اسی تھلے پر بیٹھ کر مزے سے تاش کی بازی لگاتے ہیں۔

ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ہی لوگوں نے کھانوں کے ساتھ ساتھ تمبوقناتوں کاکام بھی سنبھال لیا۔ شادی بیاہ کہیں بھی ہو، کھانے اور تمبو قناتیں مہیا کرنے کا اجارہ برنس روڈ والوں ہی کے ہاتھوں میں رہتا ہے۔ عین اس مقام پہ بائیں ہاتھ پر وہ رام باغ ہے جا کا ذکر ہم پہلے بھی کرچکے ہیں۔ یہ ہندووں کا ایک مقدس مقام اور تفریح کا سامان تھا۔ اس سارے علاقے میں مکانوں،بڑی بڑی رہائشی عمارتوں، دکانوں اور پلاٹوں کے نمبر علاقے کی مناسبت سے آربی(RB)سے شروع ہوتے ہیں جو رام باغ کا اختصار یا مخفف ہے۔پاکستان بننے کے بعد دوتین سخن گسترانہ مسائل کھڑے ہوگئے۔ خودبرنس روڈ کا نام مذہبی تقاضوں سے لگا نہیں کھاتا تھا ۔ اس کا نام محمد بن قاسم رکھدیاگیا۔ لیکن یہ نام چل نہ سکا۔ کسی دوسرے علاقے میں رکشا ٹیکسی والے سے کہیں کہ محمد بن قاسم روڈجانا ہے تو وہ ہونقوں کی طرح آپ کا منہ دیکھنے لگتا ہے۔ دل میں یقیناً سوچتا ہے کہ بڑے میاں شہر میں نئے آئے ہیںشاید بتیاں دیکھنے۔ہاں برنس روڈ کہیں تو فوراً چلنے کوتیار ہوجائے گا۔ رام باغ کے ساتھ ذرا احتیاط برتی گئی۔ صرف رام کو آرام کردیاگیا۔ اور یہ چل نکلا۔ اب یہ آرام باغ ہے۔ اب تھوڑا ساحصہ رہ گیا ہے برنس روڈ کا۔ آگے اپنے وقت کا مشہور مولوی مسافر خانہ ہے۔ پاکستان بننے سے بہت برس پہلے کسی شریف آدمی نے یہاں ایک مسافر خانہ کھولا ۔ اس شریف آدمی کا نام(سندھی) میں مولاڈینو یاعام فہم الفاظ میں مولا دین تھا… یہ مولا ڈینو مسافر خانہ تھا۔ اندرون سندھ سے آنے والوں کے لیے سستی رہائش گاہ۔ نام بگڑتے بگڑتے’’ مولوی مسافر خانہ‘‘ ہوگیا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی کچھ عرصہ تک یہ علاقہ اسی نام سے معروف رہا، مگر دھیرے دھیرے لوگ اس کو بھولتے گئے۔ اور یہ جامع کلاتھ مارکیٹ بن کے رہ گیا۔ ریونیو ڈپارٹمنٹ اور ڈاک خانے کے پتے میں اسے شاید اب بھی مولوی مسافر خانہ ہی لکھا جاتا ہے۔ چند برس پہلے تک یہاں ایک بینک کی برانچ کے بورڈ کے نچلے حصے میں چھوٹے حروف میں لکھا ہوا تو میں نے بھی دیکھا ۔’’ مولوی مسافرخانہ برانچ‘‘۔1965تک روزنامہ جنگ کا دفتر اسی علاقے میں تھا۔

تازہ ترین