اسکرپٹ پرانا ہے جو نہ پہلے اپنے مقاصد حاصل کرسکا تھا اور نہ ہی اس بار امکان ہے کہ کامیاب ہوگا مگر اب اس کی ٹائمنگ بہت اچھی ہے۔ ایم کیو ایم اپنی تاریخ کے سخت ترین دور سے گزر رہی ہے اور پرانی شراب کو نئی بوتل میں ڈال کر آزمانے کا مقصد صرف اسے مزید دبائو میں لانا ہے لہٰذا اس وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کا ا سکرپٹ اچھا ہے ۔ پہلے جب کئی بار ایم کیو ایم پر الزام لگایا گیا کہ وہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ سے مالی مدد اور دہشت گری کی ٹریننگ لیتی رہی ہے تاکہ پاکستان میں تخریب کاری کی جائے اور ملک کی سالمیت پر کاری ضرب لگائی جائے تو نہ تو اس وقت کسی عدالت میںکوئی مقدمہ درج کرایا گیا تاکہ یہ الزام ثابت کیا جائے اور اس پر قانون اور آئین کے تحت پابندی لگا دی جائے اور نہ ہی اس بار ایسا کچھ ہونے والا ہے۔ آصف ہارون جو 1992ء کے ملٹری آپریشن میں پاک فوج میں بریگیڈیئر تھے ریٹائرمنٹ کے بعد اب بھی وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں جناح پور کے نقشے ایم کیو ایم کے دفاتر سے ملے تھے مگر وہ اپنا یہ دعویٰ سچ ثابت کرنے کیلئے کسی عدالتی فورم پر نہیں لے گئے تھے تاکہ اسے سچ ثابت کیا جاسکے۔ 2005ء میں الطاف حسین نے بھارت میں ایک کانفرنس میں جب یہ کہا تھا کہ پاکستان کا بننا ایک بہت بڑی تاریخی غلطی تھی تو یقیناً انہوں نے پاکستان کے آئین کی نہ صرف خلاف ورزی کی تھی بلکہ ہر پاکستانی کا دل بھی دکھایا تھا مگر پرویز مشرف نے کوئی کارروائی نہیں کی تھی بلکہ ایم کیو ایم تو ان کی بہت قریبی اتحادی تھی اور وفاقی اور سندھ حکومت میں اہم عہدوں پر فائز تھی۔
90ء کی دہائی میں آفاق احمد اور عامر خان کو سامنے لایا گیا جنہوں نے حقیقی بنائی مگر مشرف نے ایم کیو ایم کو خوش کرنے کیلئے ان دونوں رہنمائوں کو 2004ء میں قید کر دیا تھا جنہیں بالآخر 7 سال بعد عدالتی حکم پر رہائی ملی ۔ اس عرصے کے دوران حقیقی کے بہت سے کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی ۔ تاہم اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت کے باوجود حقیقی ایم کیو ایم میں کوئی بڑا ڈینٹ نہ ڈال سکی اور 2002ء کے عام انتخابات میں وہ صرف ایک قومی اسمبلی کی اور ایک سندھ اسمبلی کی سیٹ حاصل کرسکی۔ حقیقی اسٹیبلشمنٹ کی کتنی بڑی اتحادی تھی اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جب فوج نے کراچی میں ایم کیو ایم کے نوگوایریاز ختم کرنے کیلئے آپریشن کیا تو اس کے اہم لیڈر ملٹری کے ساتھ تھے۔ اس ساری مشق کا مقصد صرف یہی تھا کہ ایم کیو ایم کے عسکری ونگ اور انتہائی سنگین جرائم جیسے ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری میں ملوث افراد کو ختم کیا جائے اور اب بھی مشن یہی ہے کہ اس کے جرائم پیشہ افراد کو کچلا جائے۔
اب مصمم ارادہ یہ ہے کہ مائنس ون فارمولا یعنی ایم کیو ایم بغیر الطاف حسین کے پر عمل کیا جائے۔ اسٹیبلشمنٹ یہ فارمولا کئی بار مختلف جماعتوں پر آزما چکی ہے مگر اسے کامیابی کبھی بھی نہیں ہوئی کیونکہ پاپولر سیاستدانوں کو اس طرح منظر سے نہیں ہٹایا جاسکتا۔ نون لیگ اور پی پی پی کو بھی کئی بار اس طرح کے فارمولے کا سامنا کرنا پڑا تھا جو کہ ناکام ہوا تھا۔ تاہم الطاف حسین کی صورتحال مختلف ہے۔ وہ گزشتہ 24 سال سے پاکستان سے دور ہیں، ان کی صحت انتہائی خراب ہے اور اب تو وہ ویل چیئر پر ہی براجمان ہیں ،برطانیہ میں بھی انہیں کئی مقدمات کا سامنا ہے اور پاکستان میں وہ سیاسی منظر نامے سے اس لحاظ سے بالکل غائب ہیں کہ عدالتی پابندی کی وجہ سے ان کی کوئی تقریر میڈیا پر نہیںآسکتی۔ان کیلئے پریشانیاں ہی پریشانیاں ہیں اور اس کی وجہ سے ایم کیو ایم پاکستان میں سخت مشکلات میں مبتلا ہوئی ہے۔ رینجرز کے آپریشن نے اس کو سخت دھچکے لگائے ہیں اور یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے۔ ایک وقت تھا کہ ایم کیو ایم کسی نہ کسی طرح ہر حکومت میں شامل ہو جاتی تھی مگر اب ایسا کوئی امکان نظر نہیں آرہا کیونکہ ہر سیاسی جماعت اس سے دور ہی رہنا چاہتی ہے لہذا وہ سیاسی میدان میں تن تنہا ہے۔ ان تمام حالات کے باوجود بھی ابھی تک ایم کیو ایم تیار نہیں ہے کہ وہ الطاف حسین سے جان چھڑائے اور اپنی مصیبتیں کم کرکے ایک عام سیاسی جماعت کی طرح کام کرسکے۔ ایم کیو ایم کے خلاف عدالتوں میں کیا ثابت ہوتا ہے اور کیا نہیں یہ ایک الگ بات ہے مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ستمبر 2013ء میں جب رینجرز نے آپریشن شروع کیا اور خصوصاً جب پچھلے سال اس کے ہیڈ کوارٹر نائن زیرو پر ریڈ کیا گیا تو اس کے بعد کراچی میں ایک مثالی امن قائم ہوا ہے، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری ختم ہوگئی ہے، کاروباری سرگرمیاں زوروں پر ہیں اورکراچی کے لوگوں کو کم از کم تین دہائیوں بعد ایسا پرامن ماحول میسر ہوا ہے۔
ایسے حالات میں کراچی کے سابق ناظم مصطفیٰ کمال جو ایک زمانے میں الطاف حسین کے انتہائی پسندیدہ تھے نے نعرہ مستانہ بلند کیا ہے۔ انہوں نے اپنا ایک سافٹ امیج پیش کیا ہے اور ایم کیو ایم کو پیغام دیا ہے کہ وہ اپنے چیف سے جان چھڑائے کیونکہ انہوں نے نہ صرف کراچی بلکہ پوری مہاجر کمیونٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ان کی پہلی پریس کانفرنس میں اگرچہ باتیں پرانی تھیں جو کہ ایم کیو ایم کے مخالفین کئی بار پہلے کہہ چکے تھے مگر انہوں نے جس انداز میں ان کو اکٹھا کر کے پیش کیا وہ متاثر کن تھا۔ ان کا ٹارگٹ صرف اور صرف الطاف حسین تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ الطاف حسین صرف لاشیں چاہتے ہیں تاکہ اپنی سیاست چمکا سکیں، اب تو ایم کیو ایم چیف کی شراب پینے کیلئے دن رات کی تمیز ہی ختم ہوگئی ہے، کم از کم ان کی سیاست کی وجہ سے ہماری دو نسلیں برباد ہوگئی ہیں ،پاکستان بنانے والے را کے ایجنٹ بن گئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اگرچہ مصطفیٰ کمال ایک عرصہ تک ایم کیو ایم کا حصہ رہے مگر بظاہر کوئی ایسے شواہد موجود نہیں ہیں جو یہ ثابت کرتے ہوں کہ وہ مجرمانہ سرگرمیوں میں کوئی اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ تاہم یہ بات ان کے ساتھی انیس قائمخانی کے بارے میں نہیں کہی جاسکتی کیونکہ ان پر الزام ہے کہ وہ تو ٹارگٹ کلنگ کے آرڈرز آگے متعلقہ افراد کو دیتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا نام بلدیہ ٹائون فیکٹری کو آگ لگانے جس میں 260 افراد زندہ جل گئے تھے میں بھی آتا ہے اور ان پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ دہشتگردوں کا علاج ڈاکٹر عاصم حسین کے اسپتال سے کروانے کیلئے سفارش کرتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صغیر احمد جو کہ مصطفیٰ کمال اور انیس قائمخانی کے قافلے میں شامل ہوئے ہیں کے بارے میں کوئی سنگین الزامات نہیں ہیں۔ بلدیہ ٹائون فیکٹری کو جلانے میں ایک اہم کردار حماد صدیقی تھے جو اس سانحہ کے وقت ایم کیو ایم تنظیمی کمیٹی کے انچارج تھے اور جن کی طرف سےہی فیکٹری مالکان سے اپنی جماعت کیلئے 25 کروڑ کا بھتہ مانگا تھا اور نہ ملنے کی صورت میں اس کو جلا دیا تھا۔ یہ ساری باتیں جوائنٹ انوسٹیگیشن ٹیم کی رپورٹ میں موجود ہیں۔ ایم کیو ایم کو نقصان پہنچانے کیلئے مصطفیٰ کمال کا نئی بے نام پارٹی بنانے کے اعلان کے چند روز بعد حماد صدیقی بھی اچانک دبئی سے کراچی پہنچ گئے ہیں۔ یوں لگ رہا ہے کہ وہ بھی ان کے مشن میں شامل ہو جائیں گے۔ مگر نہ صرف اسٹیبلشمنٹ بلکہ ہر ایک کو ان ساری کارروائیوں میں 260 ورکرز کو زندہ جلانے کے سانحے کو سامنے رکھنا چاہئے اور اس کے مجرموں کو قرار واقعی سزا دینی چاہئے۔