عابد محمود عزام
نوجوان ملک و ملت کا مستقبل ہوتے ہیں اور کسی بھی قوم میں نوجوانوں کو قوم کا قیمتی سرمایہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ دماغی و جسمانی لحاظ سے باقی عمر کے طبقوں سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ ہمت و جذبہ ذہانت، قوت اور دیگر صلاحیتیں ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہیں۔ یہ کٹھن حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔ کسی بھی قوم کی ترقی کی ضمانت نوجوانوں میں مضمر ہے۔ لیکن ان کی ایک بڑی تعداد نوکری اور روزگار سے محروم ہے، جس کی وجہ سے ان کی تمام تر سوچوں کا محور و مرکز معاش کا حصول ہے۔ پبلک سیکٹر ہر نوجوانوں کو روزگار نہیں دے سکتا، جب کہ ملکی معیشت بھی اتنی توانا نہیں اور اس میں اتنی وسعت نہیں کہ لاکھوں بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا جاسکے، اسی لیےبے روزگاری میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ ہر دور میں حکومتوں کی جانب سے بے روزگاری کے خاتمے اور نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے اعلانات کیے گئے، لیکن آج تک کامیابی نہیں مل سکی۔ یہ حقیقت ہے کہ بیروز گاری کے مسئلے پر کتنے ہی اجلاس اور سیمینار منعقد کر لیے جائیں، لیکن اس کا خاتمہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک نوجوانوں کو فنّی تربیّت فراہم کرکے ہنر مند نہ بنادیا جائے۔ ہنرمند انسان کبھی بے روزگار نہیں رہ سکتا۔ ملک کے نوجوانوں کو ہنر مند بنا کر ہی ملک کا مستقبل سنورا جاسکتا ہے۔ ہنرمندی کا راستہ ہی خوشحالی کی منزل تک پہنچتا ہے۔ اس وقت ہمارے ملک کے نوجوانوں کو تعلیم کے ساتھ ہنر کی اشد ضرورت ہے۔ نوجوان جو یوں تو صلاحیتوں سے بھرپور ہیں لیکن پھر بھی خستہ حال ہیں کیوںکہ ان کے پاس وہ راستہ نہیں ،جس پر چل کر وہ ترقی کر پائیں۔
فنی تعلیم کسی بھی معاشرے کے تعلیمی اور معاشی استحکام کی ضامن ہوتی ہے، لیکن افسوس ہمارے ہاں اس پر توجہ نہیں دی جاتی۔ ہم شاید یہ نہیں جانتے کہ جن ممالک نے فنی تعلیم کو اپنی عمومی تعلیم کا حصہ بناکر اس پر توجہ دی، وہاں معاشی ترقی کی رفتار زیادہ ہے۔ دنیا میں انہی قوموں نے تیزی سے ترقی کی منازل طے کی ہیں جنہوں نے اپنی نوجوان نسل کو عہدِ حاضر کی ضروریات سے ہم آہنگ کرتے ہوئے جدید علوم سے آراستہ کیا۔ پاکستان میں بھی انہیں جدید علوم، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق مختلف فنون و شعبہ جات میں تربیت دے کر تیز رفتار ترقی اور خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ تعلیم انسان کو شعور اور معاشرتی آداب سکھا کر معاشرے میں رہنے کے قابل بناتی ہے جسے حاصل کرنے سے انسان ایک قابل قدر شہری بن جاتا ہے جبکہ فنی تربیت انسان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے اسے باعزت روزگار کمانے کے قابل بناتی ہے تاکہ وہ معاشی طور پر خوشحال زندگی بسر کرسکے۔
ضرورت اس امر کی ہے عمومی تعلیم کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم کو بھی لازمی طور پر رائج کیا جائے۔ اس کے لیے مڈل اور میٹرک کی سطح سے ہی ایک ٹیکنیکل کورس بطور لازمی مضمون شامل کیا جائے، تاکہ طلباء کا فنی تعلیم کی جانب رجحان پیدا ہو اور وہ ضرورت پڑنے پر ہنر سے استفادہ حاصل کر سکیں۔ فنی تعلیم کے شعبے کے فروغ اور آگہی کیلئے ایک طویل المدت اور جامع منصوبہ بندی کی جائے۔ اس کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ محض ایک بورڈ تشکیل دینے پر ہی اکتفا نہ کرے، بلکہ جدید دور کے تقاضوں اورمارکیٹ کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے تیزی سے ہنرمند افرادی قوت تیار کرنے کیلئے ٹھوس و جامع اقدامات کرے۔ اس ضمن میں مختلف شعبوں کے ماہرین پر مشتمل ٹیم تشکیل دی جائے، جو نجی و سرکاری اداروں کے تعاون سے فنی تعلیم و تربیت کے فروغ کیلئے عملی قدم اٹھائے۔ ہرتربیّت کا معیار بلند کرنے اور اسے بین الاقوامی سطح تک لانے کے لیے عالمی سطح کے نصاب سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔
اس شعبہ پر توجہ دینے سے نہ صرف روزگار کے مواقع بڑھ سکتے ہیں بلکہ اس کے فروغ سے ہم بیش قیمت زرِمبادلہ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ ہماری آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جس میں 63فیصد تعداد نوجوانوں کی ہے جو کسی بھی ملک کے لیے خوش آئند امر ہے، لیکن تعلیم اور ہنر مندی سے محروم یہ نوجوان ملکی معیشت کا سہارا بننے کے بجائے بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی وجہ سے بوجھ ثابت ہورہے ہیں۔ یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے طلباء بھی ڈگری ہولڈر ہونے کے باوجود عملی تربیت اور ہنر نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگاری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اگر ان کے نصاب میں کوئی ایک بھی فنی کورس شامل ہوتا تو انہیں مایوسی کا سامنا ہرگز نہ کرنا پڑتا۔ دنیا کے جن ممالک نے فنی تعلیم کو اپنی بنیادی تعلیم کا حصہ بنایا، وہاں معاشی ترقی کی رفتار بہت زیادہ ہے۔ ملک میں کئی سرکاری تربیتی مراکز ہیں، لیکن یہ مراکز اتنی استطاعت نہیں رکھتے کہ لاکھوں نوجوانوں کی پیشہ ورانہ تربیت کی ضروریات کو پورا کر سکیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں پورے ملک میں پیشہ ورانہ تربیت کے مراکز کا ایک پورا جال بچھا دیں۔ یوں شہری اور دیہی علاقوں میں خواندہ، نیم خواندہ حتیٰ کہ ناخواندہ نوجوانوں کو بھی پیشہ ورانہ تربیت دے کر ان کے سماجی اور اقتصادی رویوں پر اثر انداز ہوا جا سکتا ہے۔
بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ جب تک اعلیٰ اسکول کی تعلیم، ڈگریاں یا کسی کی سفارش نہ ہو کوئی بھی شخص کامیاب زندگی نہیں گزار سکتا۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو کسی بھی قسم کی محنت کرنے سے گریز نہیں کرتے، بلکہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر کسی نہ کسی ہنر کو سیکھتے رہتے ہیں اور پھر اس ہنر کی بدولت وہ کامیابیوں کی طرف قدم بڑھاتے ہیں۔ انہیں کبھی ذلت کی زندگی نہیں گزارنی پڑی۔ ہنر وہ فن ہے کہ جس کے پاس ہے وہ کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ بے شک کچھ عرصہ یا کچھ وقت مشکلات میں ضرور گزارے گا ،مگر کسمپرسی کی زندگی سے محفوظ رہتا ہے۔ وہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بہتر یہ سمجھتا ہے کہ ایک وقت کی روٹی کھالے، مگر اپنی محنت کی کمائی سے اور یہی جذبہ اسے خودار زندگی گزارنے کا حوصلہ دیتا ہے۔