امریکی سیاست دان نیوٹ گنگرج جب 1994ءمیں ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر منتخب ہوئے تو انہوں نے اپنی ری پبلکن پارٹی کے ارکان کیلئے سات کتابوں کی ایک فہرست مرتب کی اور ہدایت کی کہ جب ارکان اجلاس میں شرکت کیلئے آئیں تو یہ تمام کتابیں پڑھ کر آئیں۔ ان سات کتابوں میں امریکہ کی تاریخ اور معاشرے کے علاوہ افسانوی ادب کے دو شاہکار بھی شامل تھے۔ دونوں سے آپ شاید واقف ہوں۔ ایک تو ’’گون ود دا ونڈ‘‘ کہ جس پر مبنی 1939کی ہالی وڈ فلم نے سینما کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا اور دوسرا ناول وہ جس کا ذکر ہماری حالیہ سیاسی تاریخ میں کیا جا چکا ہے۔ میں ’’گاڈ فادر‘‘ کی بات کر رہا ہوں۔ موجودہ چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ نے نواز شریف سے متعلق اپنے ایک فیصلے میں ’’گاڈ فادر‘‘ میں شامل ایک مقولے کا حوالہ دیا تھا۔ نکتہ کچھ یہ تھا کہ ہر بڑی جائیداد یا دولت کے پردے میں کوئی جرم چھپا ہوتا ہے۔ ’’گاڈ فادر‘‘ اور سسلی کے مافیا کی ایک اور بازگشت بھی اعلیٰ عدالت میں سنی گئی تھی۔ جسٹس کھوسہ کا مزید ذکر ابھی آئے گا۔ یہاں میں صرف اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہوں کہ ان سیاست دانوں کیلئے جن پر قانون سازی کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیوں یہ بہت ضروری ہے کہ وہ تاریخ اور ادب اور دوسرے علوم سے خاطر خواہ حد تک واقف ہوں۔ میرا خیال ہے کہ یہ صلاحیت صرف سیاست دانوں کیلئے ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں قائدانہ کردار ادا کرنے والے افراد کیلئے بھی لازمی ہے۔ بل گیٹس ہر سال ان کتابوں کی ایک فہرست مرتب کرتے ہیں جنہیں انکے خیال میں سب کو پڑھنا چاہئے۔
اس تناظر میں اگر ہم اپنی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی اجتماعی علمی اور فکری استعداد کا جائزہ لیں تو پتا نہیں کیسی تصویر بنے گی۔ جب میں ’’جیو کتاب‘‘ کا پروگرام کر رہا تھا تو نیوٹ گنگرج کو یاد کرکے میں نے سوچا کہ کراچی یونیورسٹی کے تمام اساتذہ کے مشورے سے میں بھی ایسی سات کتابوں کی فہرست بنائوں کہ جنہیں ہمارے منتخب سیاست دان ضرور پڑھیں۔ یہ منصوبہ کئی وجوہات کے سبب مکمل نہ ہو سکا، ایک دوست نے تو یہ چٹکی بھی لی کہ کیا تمہیں یقین ہے کہ ہر استاد نے ایسی سات کتابیں خود بھی پڑھ رکھی ہوں گی۔ پھر بھی، میرا جی چاہتا ہے کہ اس تجویز پر عمل کیا جائے کیونکہ ایوانوں میں اور ٹیلی وژن کے ٹاک شوز میں جس قسم کی گفتگو کی جاتی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیاست دانوں میں سے کئی شاید کتابوں سے مسلسل پرہیز کرتے ہیں۔ لیکن وہی بات، بعض دانشور جو ان کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں ان کی گفتگو سن کر بھی کسی کے علم اور معلومات میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ مطلب یہ کہ ہمارے معاشرے میں مطالعے کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ اس اخبار میں اپنے ابتدائی کالموں میں سے ایک میں مَیں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ اگر ہم کسی امیر علاقے کے ہر دروازے یعنی گیٹ پر گھنٹی بجا کر یہ پوچھیں کہ کیا آپ کے گھر میں ’’دیوانِ غالب‘‘ ہے تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ جہاں تک اس مشورے کا تعلق ہے کہ کس کو کون سی کتاب پڑھنا چاہئے تو میں بتائوں کہ ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ میں ہر ہفتے کسی ادیب یا دانشور کا جو انٹرویو شائع ہوتا ہے کتابوں کے بارے میں تو اس میں اب یہ سوال شامل ہوتا ہے کہ کسی ایک ایسی کتاب کا نام بتائیں جو آپ کے خیال میں صدر ٹرمپ کو ضرور پڑھنا چاہئے۔اس بات کا امریکیوں کو بہت دکھ ہے کہ ان کا موجودہ صدر کتابیں نہیں پڑھتا۔ اس مرحلے پر مجھے خود کو ذوالفقار علی بھٹو کے ذکر سے روکنا پڑے گا کیونکہ کتابوں سے ان کے عشق کی کہانی طویل ہے۔ ابھی جمعرات کو ہم نے بھٹو کی چالیسیویں برسی منائی اور سارے منظر پر آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری چھائے رہے۔اچھا، اب میں آپ کو یہ بتائوں کہ میں نے اس ہفتے اس موضوع کا انتخاب کیوں کیا ہے اور سیاسی گرما گرمی اور معیشت کی ابتری سے پیدا ہونے والی چپقلش کو چھوڑ کر کتابوں کی بات کیوں کر رہا ہوں اور ہاں، جسٹس کھوسہ کا نام بھی میرے اس بیان میں شامل ہے، ہوا یہ کہ گزرے ہوئے اتوار کے دن میں نے اخبار میں جسٹس کھوسہ کی ایک تقریر کی خبر پڑھی جو انہوں نے لاہور کے ایک لاء کالج میں کی تھی۔ انہوں نے قانون کے طالبعلموں سے کہا کہ ایک اچھے وکیل کے لئے یہ ضروری ہےکہ اسے تاریخ، ریاضی اور ادب پر عبور حاصل ہو۔ اور اس طرح وہ ایک ہمہ گیر شخصیت بن سکے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ یہ دکھ کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں آج کل ہر سماجی، اقتصادی اور سیاسی مسئلہ بالاخر عدالت کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے۔ گویا ایک وکیل کے علم اور اس کی سمجھ کے دائرے کو کافی وسیع ہونا چاہئے۔ یہاں بھی اس مشق کی گنجائش رہے کہ ایک وکیل کے مطالعے کیلئے آپ کن کتابوں کا انتخاب کریں گے۔ جسٹس کھوسہ نے وکیلوں کے نصاب میں ادب کو جو شامل کیا ہے کہ اس کے بارے میں بہت کچھ کہہ سکتا ہوں۔ میں نوجوانوں سے اپنی گفتگو میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ افسانوی ادب اور شاعری کے بغیر ہم ادھورے ہیں۔ ہمارا پیشہ یا کاروبار کچھ بھی ہو، ہمیں خود کو اور اس دنیا کو سمجھنے کیلئے افسانوی ادب کے سہارے کی حاجت ہے۔ میں نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ اگر شاعری نہیں پڑھو گے تو عشق کرنے کے آداب کیسے سیکھو گے۔کتابوں کے ذکر کا دوسرا حوالہ میرے پاس یہ ہے کہ 2اپریل کو بچوں کے ادب کا عالمی دن منایا گیا۔ بچوں کی پرورش میں جتنی والدین کے پیار کی اہمیت ہے، اتنی ہی ان کہانیوں کی ہے جو وہ سنتے اور پڑھتے ہیں۔ میں تو یہ کہوں گا کہ کسی بھی بڑی قوم کی تخلیق ان خوابوں کی کاشت سے ہوتی ہے جو اس کے بچے دیکھتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ اس موضوع کے ساتھ بھی یہاں انصاف نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں! ایک مثال مجھے یاد آتی ہے۔ امریکہ کی لائبریری آف کانگریس نے کتابوں کی ایک فہرست بنائی جنہوں نے ملک کی تشکیل کی، اس کے خدوخال متعین کئے۔ سادہ لفظوں میں، وہ کتابیں جنہوں نے امریکہ کو امریکہ بنایا۔ اس فہرست میں 88کتابیں شامل تھیں اور ان کی ایک خصوصی نمائش بھی منعقد کی گئی۔ یہ ایک انتہائی دلچسپ اور بصیرت افروز فہرست ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں افسانوی ادب بھی نمایاں ہے کہ جو کسی بھی معاشرے کی ذہنی اور جذباتی تربیت میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ فی الحال میں صرف بچوں کی کتاب کا ذکر کر رہا ہوں۔ جی ہاں، ان کتابوں کی فہرست میں کہ جنہوں نے امریکہ کی تشکیل کی، بچوں کے لئے لکھی گئی کئی کہانیوں کی ایک کتاب بھی شامل ہے۔ اس کتاب کا نام ہے ’’گڈ نائٹ مون‘‘۔ آپ اسے ’’شب بخیر چندا ماما‘‘ کہہ لیں۔ یہ کتاب 1947میں لکھی گئی اور بہت مقبول ہوئی۔ والدین بچوں کو سلاتے وقت اسے پڑھ کر سناتے ہیں۔ اسی قسم کا کام ہماری دادیاں اور نانیاں بھی کیا کرتی تھیں لیکن اب نہ صرف ہمارے بچوں بلکہ ہماری قوم کو کس طرح پالا جا رہا ہے، یہ ایک دوسری کہانی ہے۔