تحریر:حافظ عبدالاعلیٰ درانی… بریڈفورڈ (قسط نمبر 33) ابومحمد اور ان کی اہلیہ نے عربوں کے طریقے کے مطابق بڑے بڑے طباقوں میں کھانا پروس دیا۔ ان کی اہلیہ نے معذرت کی کہ شہر کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے ہم شہر سے باہر نہیں جا سکے اور سامان خوردو نوش کم پڑگیاہے ۔کھانے کے بعد انہوں نے چھوٹے چھوٹے پیالوں میں ’’کافی‘‘ پیش کی جو بہت کسیلی تھی۔ فارغ ہوکر انہوں نے کچھ یادگار تصاویر یا گروپ فوٹو بنائے ۔ہم سب نے ابومحمد اور ان کی اہلیہ کی ان حالات میں مہمان نوازی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مسنون دعا پڑھی۔ یہ تو ان کی دوکان ہے لیکن ان کا گھر ذرا فاصلے پر ہے سب خواتین کو ان کی اہلیہ نے اپنے گھر لیجانے کا پروگرام بنا ڈالا جہاں اور بھی لوگ ملیں گے ۔ ہم سب اپنے میزبانوں ، فلسطینی بھائیوں اور مسجد اقصی کے پڑوسیوں سے ملنے کی خاطر روانہ ہوئے لیکن اسرائیلی فورسز نے ’’طریق الآلام‘‘ پر ناکہ لگا رکھا تھا انہوں نے اس قافلے کو آگے بڑھنے سے منع کردیا ۔بہتیرا سمجھایا گیا کہ ہم زائرین ہیں اور یہ ہمارے میزبان ہیں لیکن وہ نہیں مانے ۔مجبوراً ہمیں یہ پروگرام کینسل اور ہوٹل واپسی کاراستہ اختیار کرنا پڑا۔ ہم سب القدس کی تنگ گلیوں سے بڑی تیزی کے ساتھ چلنے لگے کیونکہ ماحول میں سخت کشیدگی تھی ۔ہرجگہ اسرائیلی فوجیوں نے بیرئیر لگا رکھے تھے ۔ طریق الآلام سے دمشقی گیٹ تک روکاوٹیں ہی روکاوٹیں تھیں ۔ ہم تو مہمان تھے ایک دو دن بعدہم نے اپنے وطن جانا تھا لیکن یہاں کے باسیوں کی یہ بیچارگی اور مظلومیت ہر وقت خوف کے سائے منڈلاتے دیکھ کرخاص طور پر ہم آزاد ملک (پاکستان اور برطانیہ ) کے باسیوں کو بہت دکھ پہنچا اور نعمت آزادی کی قدر دو چند ہوگئی ۔ دمشقی گیٹ سے بیرونی دیوار تک بہت اونچائی تھی باقی سب راستے بند کیے ہوئے تھے اس لیے یہاں رش بھی زیادہ تھا ۔جگہ جگہ اسرائیلی فوجی کھڑے تھے ہر آنے جانے والے کو گھورتی نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔ ہم بخیریت اپنے ہوٹل پہنچے اور اللہ کا شکر ادا کیا ۔ایک حیرتناک بات یہ ہوئی کہ ایک جگہ پاؤں پھسلنے سے اہلیہ ایک اسرائیلی عورت سیکورٹی گارڈ سے جا ٹکرائی تو اس نے بڑی خوش اخلاقی سے سنبھالا دیا اور پوچھا چوٹ تو نہیں آئی لیکن اس بات نے ہمیں بڑا حیران کیا کہ اس کی انگریزی کا لہجہ پاکستانی تھا ۔ایک پاکستانی گارڈ اور وہ بھی جوان عورت…یہ کیسے ممکن ہے۔ بعد میں کئی لوگوں نے بتایا کہ یہاں کے قادیانی خاندان اسرائیلی فوج میں شامل ہوجاتے ہیں شاید یہ خاتون بھی انہی میں سے ایک ہو زیادہ حیرانی کی بات نہیں ہے ۔ راستے میں شیخ امجد الہاشمی ہوٹل کے مالک کا پیغام ملا کہ صبح میرے ہوٹل میں تمام دوستوں کا ناشتہ ہے اس بہانے کئی مشائخ سے ملاقات ہوجائے گی ۔پھر غزہ سے فون کال ریسیو ہوئی عربی زبان میں گفتگو کرنے والے بھائی ایک نوجوان عالم دین’’ الشیخ محمود حمدان ‘‘ تھے کہ آپ کا فلسطین میں آنا بہت مبارک ہو میں نے ان سے پوچھا میرا نمبر آپ کو کیسے ملا انہوں نے بتایا۔لاہور سے الشیخ مبشرربانی صاحب نے بتایا تھا کہ آپ فلسطین آئے ہوئے ہیں ۔سنا ہے کہ آپ کے اساتذہ میں پاکستان، مصر، سعودی عرب ، سودان اور شام کے بڑے بڑے مشائخ شامل ہیں ، یوں میں آپ سے سند لینا چاہتاہوں انہیں سند حاصل کرنے کا بڑا شوق ہے۔میں نے کہا یہ کیسے ممکن ہے ہماری تو کل واپسی ہے ۔اورآپ یہاں آبھی نہیں سکتے ۔غزہ یہاں سے 80کلومیٹر دورہے ۔انہوں نے بتایا کہ ہمارے ایک اور دوست یہاں رہتے ہیں وہ صبح آپ سے ملیں گے ۔مزید پوچھاکہ اس دفعہ ممکن ہو توحج پرملاقات ہوجائے ۔ میں نے کہا ماقدر اللہ ۔ اگر اللہ کو منظور ہوا تو…الشیخ حمدان تو اس بار حج کیلئے پہنچ گئے لیکن میں حاضری نہ دے سکا لیکن انہوں نے برابر رابطہ رکھا اور جن جن مشائخ سے ملے ہماری بھی ملاقات کرواتے رہے ۔ اب وہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے کیلئے سوڈان جا رہے ہیں ۔ طول اللہ عمرہ و فضلہ۔ الشیخ امجد الہاشمی سے ملاقات اگلی صبح سوموار۔ جولائی۔17۔2017۔ شوال۔23۔1438ھ کوہم نماز تہجد کیلئے حسب معمول مسجد اقصیٰ چلے گئے ۔ اشراق پڑھ کر واپس طریق الآلام میں واقع ایک بہت خوبصورت اور جدید سہولتوں سے آراستہ ہوٹل ہے ۔ اس ہوٹل کانام الہاشمی ہوٹل ہے جسے الشیخ ابو عثمان سلہب المعروف شیخ امجد اپنے بھائی کے ساتھ چلا رہے ہیں۔اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کے بالکل متصل ہے الشیخ امجداور ان کے بھائی ان پکے نمازیوں میں سے ہیں جو ہمیشہ باجماعت نماز پڑھنے کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتے ہین ۔ اللھم اجعلنا منھم وکثر اللہ امثالھم… سچ پوچھیں تو اتنا زبردست ہوٹل اور وہ بھی طریق الآلام (پُردرد رگزرگاہ) پر جس راستے سے بقول عیسائی روایت کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوسزائے موت دینے کیلئے چلایاگیاتھا اور بھاری بھرکم صلیب ان کی پیٹھ پر لادی گئی تھی جس کاوزن وہ برداشت نہیں کرسکتے تھے اور چند ہزار میٹر کے راستے میں کم ازکم سولہ دفعہ آپ زمین پر گرگئے تھے اسے طریق الآلام way of sarow کہا جاتاہے۔ اسی راستے سے مسلمان مسجد عمر جاتے ہیں اور مسجد اقصیٰ بھی ، اسی راستے سے عیسائی کنیسۃ القیامہ جاتے آتے ہیں اور اسی راستے سے یہودی دیوار گریہ یا دیوار براق آتے جاتے ہیں گویایہ بڑی مصروف مگر تنگ سی گلی ہے ۔یہاں سے گزرتے ہوئے یہ تکلیف دہ تاریخ ذہن میں کلبلانے لگ جاتی ہے ۔ فندق الہاشمی اگرچہ کوئی بہت بڑا ہوٹل نہیں ہے لیکن اس تاریخی علاقے میں اتنی مہنگی جگہ جس کی قیمت کئی ملین کے حساب سے ہے اتنا بڑا ہوٹل بنانا اور پھر اسے چلانا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔چونکہ یہ مسجد اقصیٰ کے بالکل پڑوس اور پردرد راستے (طریق الآلام )میں واقع ہے اس لیے جب بھی مسجد اقصیٰ میں کوئی گڑبڑ ہوتی ہے ، القدس الشریف کے یہ پڑوسی اس آزمائش کا سب سے پہلے نشانہ بنتے ہیں ، شہر کے تمام دروازے بند ہوجاتے اور یہاں کے باسی محصور ہوجاتے ہیں ، تین دن پہلے جمعہ کو اسرائیلی فورسز کی وحشیانہ فائرنگ سے جوتین فلسطینی نوجوان شہید ہوچکے تھے ، اس افسوسناک سانحے کا براہ راست اثر اس علاقے پر بھی پڑا تھا،اگرچہ آج کچھ حالات ٹھیک تھے۔لیکن قابضین کی ظالمانہ کارروائیوں سے خوف و ہراس کی کیفیت موجود تھی ۔الشیخ موصوف نے ہمارا گرمجوشی کے ساتھ استقبال کیا۔وہ یروشلم ( القدس)کے مکینوں میں سے ہیں ۔فلسطینیوں کی طرح خوبصورت چوڑے چکلے ، فراخ سینہ اور کشادہ دل و دماغ کے مالک ہیں ، دینی تعلیم انہوں نے سعودیہ یونیورسٹیوں سے حاصل کی ۔ اوردونوں بھائیوں نے امریکی یونیورسٹی سے ہوٹل مینجمنٹ کی ڈگری لی ہوئی ہے۔عربی تو ان کی مادری زبان ہے لیکن انگریزی بھی بڑی فصاحت کے ساتھ بولتے ہیں ۔ اور انہیں بھی محدث زمان فضیلۃ الشیخ علامہ ناصر الدین الالبانی رحمۃ اللہ علیہ سے ایک واسطہ سے شرف تلمذ انہیں حاصل ہے ۔ علم و عمل کا نور ان کے چہرے مہرے سے ٹپک رہا ہے ۔ شیخ امجدپانچوں نمازیں باجماعت مسجد اقصیٰ میں ادا کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔ القدس میں عموماً ازرائیلی فورسز کی وجہ سے بحران پیدا ہوتا رہتاہے ، مسجدبند ہوجاتی ہے ، کوئی امام پہنچے نہ پہنچے شیخ امجد وہاں ضرور پہنچتے ہیں ۔ دودن کے تعطل کے بعد مسجد اقصی کے چبوترے پر کھڑے ہوکر اذان دینے والے یہی مرد مجاہد تھے ۔ تلاوت قرآن کریم بڑی خوبصورت کرتے ہیں ، فلاحی کاموں میں بڑھ چرھ کر حصہ لیتے ہیں فلسطینیوں کے مظلوموں کی مدد کرنے کیلئے انہوں نے ایک فاؤنڈیشن بنا رکھی ہے ۔ کئی قسم کی تصنیفات چھپواتے رہتے ہیں۔ ان کے ہوٹل کاؤنٹر پر حساب و کتاب کے رجسٹر نہیں فضیلۃ الشیخ امام ابن باز اور الشیخ ابن عثیمین کی تصانیف ترتیب سے رکھی ہوتی ہیں جو آنے جانے والوں کو ہدیہ کے طور پر دی جاتی ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے مسجد اقصی کی تاریخ ایکA3پیپر پر مختلف رنگوں میں طبع کروائی ہے۔الشیخ امجد نے معروف بزرگ بشر الحافی کا قول ذکر کیا کہ ’’ما بقی عندی لذات الدنیا الا ان استلقی علی جنبی تحت السماء بجامع بیت المقدس ‘‘ کہ زندگی کی بس ایک ہی آرزو رہ گئی ہے کہ میں مسجد اقصی کے پڑوس کی زمین پر لیٹ کر کھلا آسمان دیکھنا چاہتاہوں ۔میں نے کہا اور آپ نے کھلے آسمان کو دیکھنے کیلئے ہوٹل ہی بنا لیا۔ انہوں نے مسجد اقصیٰ کی جو تصویر اپنے وال پیپر پر لگارکھی ہے اس میں مسجد اقصی پررات طاری ہے یعنی مسلمانوں کی اس مسجد پر رات کی تاریکی سیاہی کی طرح چھائی ہوئی ہے ،جو لگتی تو مسجد اقصیٰ کی عمارت پر ہے لیکن دراصل یہ مسلمانوں کی قسمت پر ہے ۔جون1967میں اسرائیلی فورسز نے شہر قدس الشریف پر ناجائز حملہ کرکے وہاں کے مکینوں کو بھگا دیاتھا اور دنیا بھر میں رسوا ہونے والے یہود کو یہاں لا بسایااور اس محلے کو گرا کر دیوار گریہ تک راستہ یہود کیلئے آسان کردیا۔ ہوٹل الہاشمی کا نیچے والاپورشن بہت قدیمی سٹائل سے مرصع کیا گیا ہے ، ہوٹل میں طبعی رنگ انہوں نے بھررکھے ہیں ۔پرانی کرسیوں ، آبشاروں اور پرانی غاروں کا خوابناک ماحول بنایا گیا ہے ، تاکہ مہمان کسی اور دنیا میں اپنے آپ کو محسوس کریں ۔ اوپر والی منزل تک جانے کیلئے لفٹ بھی موجود ہے ۔ چھت والا حصہ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ اسی دوران امام مسجد اقصی الشیخ علی العباسی بھی تشریف لے آئے ۔بھارت سے تعلق رکھنے والے برطانوی زائرین کا ایک ہجوم ناشتے میں موجود تھا ۔ہر قسم کی چیزیں بوفے میں موجود تھیں ، ہم نے کھانے سے زیادہ وہاں کے متاثرکن ماحول کا جائزہ لیا ۔اسی طرح مسجد اقصیٰ اوقاف کے سینئر رکن الشیخ عثمان سے تعارف اور ملاقات بھی ہوگئی ۔ ان کی اسی بازار میں تاریخی اشیاء کی دوکان ہے ۔جہاں سے ہم نے کچھ نوادرات کی شاپنگ کی۔ موبائل کی بیٹری کا مسئلہ ہر جگہ رہتاہے ان کی دوکان جو باب حطہ کے بالکل قریب تھی وہاں پہنچتے ہی فون چارج پر لگادیا۔کافی دیر وہاں رکنا تھا جب واپس جانے لگے تو فون چارجر میں ہی لگارہا لیکن جلد ہی احساس ہوگیا اور مجھے واپس آنا ۔ موبائل کا مطلب ہی ہوتاہے وائرلیس لیکن جب اس طرح کا وقوعہ ہوجاتاہے تو آدمی سوچتا ہے کہ اس کے ساتھ وائر ہونی چاہیے تھی۔اس طرح انسان کی فطری کمزوری کی طرف قرآن کریم نے جو اشارہ فرمایا ہے وکان الانسان کفورا کی حقیقت سمجھ میں آجاتی ہے ۔ناشتے سے فارغ ہوکرالشیخ امجد ہمیں لفٹ کے ذریعے چوتھی منزل پر لے آئے جہاں نسبتاً کھلا ماحول تھا۔ بے شماراصلی اور مصنوعی درخت اور ننھے ننھے پودے بہار پیدا کررہے ہیں ، ان پودوں کے درمیان آدمی خود کو بہت ریلیکس محسوس کرتا ہے ، چھت پر کھڑے ہوجائیں تودنیا کا ایک گنجان آباد، قدیمی اور تاریخی شہرکی حیثیت سے پورا یروشلم آپ کو نظر آتا ہے ۔ شیخ امجد نے ہوٹل کی چھت پرسے پورے یروشلم کانظارہ کروایا وہاں کی تاریخ بتائی ،اور اس گنجان آباد شہر کے سارے محلوں کا تعارف کروایا۔ ہم نے اس نظارے کی وڈیو بنائی ۔ پورے القدس الشریف کا یہ نظارہ کبھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ عیسائیوں کے محلہ کامین دروازے پر بنی بلڈنگ کاانداز دیکھ کر ابتدائی عمر میں عیسائیوں کے خط و کتابت سکول کورس میں ولادت عیسیٰ علیہ السلام کے ضمن میں بعض عمارات کا نقشہ ایسے تھا ۔بچپن کی بعض باتیں ذہن پر نقش ایسی ہوجاتی ہیں کہ زندگی بھر مسلط رہتی ہیں ۔ باتوں باتوں میں الشیخ امجد نے غزہ والے نوجوان عالم دین کاذکر کیا کہ انہوں نے جو نمبر دیا تھا وہ تو آپ کا نکلا ۔ بہرحال بڑی خوشی ہوئی آج کی ملاقات سے ۔کافی دیر ہم الہاشمی ہوٹل کی ضیافت سے مادی و روحانی لطف اٹھاتے رہے اور پھر گیارہ بجے کے قریب ہم اپنے ہوٹل واپس پہنچ گئے ۔ کل چونکہ واپسی ہے اس لیے کافی مصروف رہے ۔ یروشلم کی گلیاں احتجاجی نعروں سے گونجتی رہیں کیونکہ اسرائیلی فورسز نے مسجد اقصی کے اکثر دروازے بند کیے ہوئے تھے ۔ اور وہ دروازوں کے باہر ڈیٹیکٹر نصب کررہے تھے جس کا انہیں کوئی حق نہ تھا ۔اس کے خلاف پورے القدس الشریف میں نوجوان اشتعال میں تھے ۔ یہ مصیبت جو اہل قدس اور اہل فلسطین پر آئی ہوئی ہے کوئی نئی بات نہیں ہے ۔پچھلی صدی کے ابتدائی سالوں میں حالات دگر گوں ہونا شروع ہوگئے تھے ۔فلسطین کے علاقے پر اسرائیلی ریاست کے قیام کا فیصلہ بھی برطانیہ نے ہی کیا تھا جس کے بعد سے مقبوضہ کشمیر کی طرح مقبوضہ فلسطین بھی مسلسل تباہی وبربادی میں مبتلاہے ۔یہاںآئے دن نوجوانوں کو قتل کیا جارہاہے اور ان کے گھروں کو مسمار کردیا جاتاہے۔ باپردہ خواتین کے ساتھ زیادتیاں کی جاتی ہیں ۔ اسرائیل ایک ایسا خنجر ہے جو جنگ عظیم دوئم کے زمانے کی عالمی سپر طاقت برطانیہ کے وزیر اعظم بالفور نے مشرق وسطی کے قلب میں گھونپ دیا تھا۔تاکہ تیل کی دولت سے مالا مال اس علاقے پرسامراجی تسلط قائم ہوسکے ۔ اسرائیل نے اپنے قیام کے ساتھ ہی توسیعی پالیسی کے تحت فلسطینی علاقوں پر قبضہ شروع کرکے اسرائیلی بستیاں قائم کرنا شروع کردیں اور مزاحمت کرنے والے فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرکے ان کی زرخیز زمینوں کوہتھیانا شروع کردیا۔معلوم نہیں ظلم کی یہ سیاہ رات کب تمام ہوگی ؟ ۔