• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: قاری محمد عباس…ہڈرز فیلڈ
مذہبِ اسلام جس کے ہم تابعدار ہیںجس کی فرمانبرداری کا قلادہ ہم نے اپنی گردن میں پہن رکھا ہے۔ اور جس نے ہم کو عزت بخشی ہے، وہ صرف ایک دین ہی نہیں بلکہ ایک مستقل تہذیب و تمدن کا گہوارہ ہے۔ یہ دین محمدی انسانیت کیلئے ضابطۂ ہدایت اور ضابطۂ قانون بھی ہے جس نے قدم قدم پر ہماری رہنمائی فرمائی اور زندگی کے اصول واسلوب سکھلائے، جینے کے اطوار اور طریقے واضح کئے، آج یہاں والدین کے حقوق کو مختصر بیان کرنے کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کروں گا ارشاد خدا وندی ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حُکم دیا ہے ( سورۃ الاحقاف)۔ دوسری جگہ فرمایا انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق تاکید کی ہے (سورۂ لقمان )۔ تیسری جگہ فرمایا کہ تیرے رب نے حُکم کر دیا ہے کہ بجز اس کے کسی اور کی عبادت مت کرو اور تم اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو(سورۂ بنی اسرائیل)۔ امام طبرانی نے اس حدیث پاک کو نقل کیا ہے۔ فرماتے ہیں’’نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: طاعۃ اﷲ فی طاعۃ الوالد معصیۃ اﷲ فی معصیۃ الوالد۔ والد کی اطاعت میں اﷲ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ والدین کی نافرمانی اﷲتعالیٰ کی نافرمانی ہے۔ مشکوۃ شریف باب البر والصلۃ میں حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضوراکرم صلی اﷲعلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حسن سلوک کرنے والی اولاد جب بھی محبت کی نظر سے والدین کو دیکھے تو ہر نظر کے بدلے ﷲتعالیٰ مقبول حج اور عمرہ کا ثواب لکھ دیتا ہے۔ صحابہ رضی اﷲعنہم اجمعین نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! اگر کوئی اپنے والدین کی زیارت دن میں سومرتبہ کرے تو ؟ حضوراکرم صلی اﷲعلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ اکبر اطیب۔ ﷲتعالیٰ بہت بڑا، نہایت ہی پاکیزہ ہستی ہے‘‘۔یعنی جتنی مرتبہ بھی زیارت کرے گا اُتنے حجوں اور عمروں کا ثواب ملے گا۔ والدین کے دیدارکی فضیلت کے متعلق حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:’’محبت بھری ایک نظر پر حج مقبول اور عمرہ کا ثواب ہے‘‘۔ کاش کہ آج کا مسلمان اس حدیث شریف کی اہمیت کو سمجھتا اور محبت کی نظر سے والدین کے دیدار کی سعادت حاصل کرتا۔ مشکوۃ المصابیح میں حضرت ابوامامہ رضی اﷲعنہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ایک شخص نے رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں عرض کیا: یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم والدین کا اولاد پر کیا حق ہے؟ ارشاد فرمایا: ھماجنتک و نارک ۔ وہ دونوں تمہاری جنت اور دوزخ ہیں۔ حضرت ابوطفیل رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے’’یعنی میں نے ’’مقام جِعِّرانہ‘‘ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھا کہ گوشت بانٹ رہے تھے۔ اتنے میں ایک خاتون آئی اور نبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کے بالکل قریب چلی گئی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کیلئے اپنی چادر مبارک بچھادی، میں نے لوگوں سے کہا! یہ صاحبہ کون ہیں؟ لوگو نے بتایا یہ نبی کریم ﷺ کی والدہ ہیں۔ انہوں نے حضور پاک ﷺ کو دودھ پلایا تھا۔ اندازہ لگائیے کہ حضور اکرمﷺ اپنی رضاعی ماں کا احترام اور خدمت کا خیال کتنا رکھتے ہیں۔آج حضور پاک ﷺ کی محبت کے دعویدار ! حقیقی والدین(باپ یا ماں) سے کیسا سلوک کررہے ہیں۔آج ہم عصرحاضر کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ایسے ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں، جن کو دیکھ کر دل دہل جاتا ہے کبھی معشوقہ کی خوشی کیلئے ماں کے قلب کو چاک کیا جاتا ہے، کبھی اپنی بیوی کو راضی کرنے کیلئے والدین کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے، کبھی والدین کے سامنے زبان درازی کی جاتی ہے۔ العیاذباﷲ کبھی والدین کے ساتھ دست درازی کی جاتی ہے، تو کبھی بدسلوکی۔تمام قوموں کا جائزہ لینے کے بعد یہ پتہ چلتا ہے کہ مذہب اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے، جس نے والدین کے متعلق کہا ہے کہ:
٭ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔
٭ باپ جنت کا دروازہ ہے۔
٭ رب کی رضامندی والدین کی رضامندی پر ہے۔
٭ رب کی ناراضگی والدین کی ناراضگی پر ہے۔
٭ والدین کی فرمانبرداری میں اﷲتعالیٰ کی فرمانبرداری ہے۔
٭ والدین کی نافرمانی میں اﷲتعالیٰ کی نافرمانی ہے۔
خود غرضی،مفادپرستی اور مادیت پسندی کے اس تیرہ و تاریک دور میں بے پناہ شفقت،بے کراں مروت اور بے لوث محبت کا واحد عنوان صرف ماں ہے ۔ قدرت نے ماں کی مامتا کے مخالف کوئی بھی جذبہ ودیعت نہیں کیا، جیسے مروت کی ضد میں بے مروتی اور نفرت کی ضد میں محبت کا جذبہ رکھا گیا، ماں کی مامتا کا وصف منفرد اور یکتا ہے ؛جس کا کوئی متبادل نہیں، نظام حیات میں سیکڑوں تغیرات آئے ہوں،کائنات رنگ و بو میں ہزاروں انقلاب برپا ہوئے ہوں اور انسانیت اپنی فطرت سے ہاتھ دھو بیٹھی ہو؛لیکن ماں کی محبت میں عموماً کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔ ماں چاہے کوئی بھی ہو، کیسی بھی ہو، کسی خطے سے تعلق رکھتی ہو، کچھ بھی کرتی ہو ممتا کے جذبہ سے سرشار پائی جاتی ہے ماں سے منسلک تمام درجات مہذب دنیا ہو یا غیر مہذب، ترقی یافتہ ہو یا ترقی پذیر، تعلیم یافتہ ہو یا ان پڑھ، سب کے نزدیک یکساں ہیں۔ جنگل میں پیدا ہونے اور پرورش پانے والا بچہ ہو یا گاؤں ، قصبہ میں رہنے والا، جوان ہو یا بوڑھا، ہر ایک انسان کے دل میں ماں کے لئے محبت و عقیدت ودیعت کردی گئی ہے، اور ہر ماں کو مامتا کے جذبے سے سرشار کر دیا گیا ہے اور رب کائنات کی رحمت کا یہ اظہار،انسان ہو یا چرند پرند درند سب میں نمایاں ہے ۔ ماں کی محبت کوکبھی تولا اور ناپا نہیں جاتا ،دنیا میں کوئی ایسا پیمانہ اور میزان دنیا میں تیار نہیں ہوا جو ماں کی محبتوں اس کی بے قراریوں اور بے چینیوں کو ناپ اور تول سکے ۔ کہ’’ماں ‘‘دانیانِ دین و دنیاکی نظر میں:مقصود کائنات پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ماں کے قدموں کے تلے جنت ہے، حضرت رابعہ بصری کہتی ہیں کہ جب میں دنیا کے ہنگاموں سے تھک جاتی ہوں ،اپنے اندر کے شور سے ڈر جاتی ہوں تو پھر میں اللہ کے آگے جھک جاتی ہوں یا پھر اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کے جی بھر کے رو لیتی ہوں"۔ حضرت شیخ سعدیؒ نے کہا کہ محبت کی ترجمانی کرنے والی اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف ماں ہے، مشہور مفکر اور شاعر علامہ اقبال نے کہا سخت سے سخت دل کو ماں کی پرنم آنکھوں سے موم کیا جاسکتا ہے، الطاف حسین حالی نے کہا ماں کی محبت حقیقت کی آئینہ دار ہوتی ہے ،مشہور مغربی غیر مسلم دانشور جان ملٹن نے کہا آسمان کا بہترین اور آخری تحفہ ماں ہے۔ اسی طرح شیلے نے کہا دنیا کا کوئی رشتہ ماں سے پیارا نہیں اس کے علاوہ بھی بہت سے دانشوروں اور عالمی شہرت یافتہ شخصیات نے ماں کی عظمت اور بڑائی کا اعتراف کیا ہے۔ بوعلی سینا نے کہا: اپنی زندگی میں محبت کی سب سے اعلیٰ مثال میں نے تب دیکھی جب سیب چار تھے اور ہم پانچ تب میری ماں نے کہا مجھے سیب پسند ہی نہیں ہیں۔
یہ حقیقت ہے کوئی نصیحت نہیں
ماں سے بڑھ کر کوئی اور دولت نہیں
اپنے منہ کا نوالہ کھلاتی ہے ماں
لوریاں دے کے شب بھر سلاتی ہے ماں
اپنے بچے کو روتا ہوا دیکھ کر
اپنا چین وسکوں بھول جاتی ہے ماں
اے ماں تیری عظمت کو سلام
انسانی زندگی میں والدین کا مقام بہت بلند ہے۔ والدین کا مقام جاننے اور احترام کا حق ادا کرنے سے خاندان کا نظام مستحکم ہوتا ہے اورخیر و برکت انسان کا مقدر بنتی ہیں۔ انسان ادب واحترام کا جتنا خیال رکھے گا معاشرہ اتنا ہی مہذب کہلائے گا ورنہ پوراسماج تہذیب سے عاری اور اللہ کی رحمت سے دور ہو گا۔ ہر معاشرے اور مذہب میں والدین کو اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ اللہ سبحان تعالیٰ نے انسان کو ان دو نعمتوں سے نواز کر بندے کو ایثار اور قربانی کا مفہوم سمجھا دیا۔ یہ وہ رشتے ہیں جو آخرت میں بھی ساتھ ہوں گے، روزِ قیامت انسان انہی رشتوں سے پکارا جائے گا۔ ماں باپ کے چہروں کو دیکھنا زیارت کعبہ کے مترادف ہے ۔ قرآن میں مختلف مقامات پر والدین کا ذکر آیا ہے خصوصاً چار جگہوں پر توحید کے ساتھ والدین کی فرمان برداری کا حکم دیاگیا، عظمت والدین کے لئے یہی کافی ہے کہ پروردگار عالم نے جب اپنی محبت کو عیاں کیا تو پیکر شفقت’’ ماں‘‘ کی ممتا کو بے لوث محبت کی چادر میں چھپاکر کائنات کی بساط پر پھیلادیا حضور اکرم ﷺ نے تو اپنی تعلیمات میں جا بہ جا والدین بالخصوص ماں کی عظمت شان اور رفعت مکاں کو ظاہر کیا۔ ایک بار ایک صحابیِ رسول، نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا :یا رسول اللہ ﷺمیں نے اپنی ماں کو اپنے کاندھوں پر بٹھا کر حج کروایا ہے، کیا میں نے ماں کا حق اداکر دیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں ، تو نے ابھی اپنی ماں کی ایک رات کے دودھ کا حق بھی ادا نہیں کیا ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک شخص نے حضور ﷺکی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا :یا رسول اللہ ﷺسب سے زیادہ کون اس کا مستحق ہے کہ میں اس کے ساتھ نیک رفاقت (خیر خواہی)کروں؟ فرمایا: تیری ماں ۔عرض کیا پھر؟فرمایا :تیری ماں۔ عرض کیا پھر؟ فرمایا: تیری ماں۔ عرض کیا پھر؟ فرمایا: تیرا باپ۔ (بخاری )۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ ﷺسے عرض کیا:عورت پر سب سے بڑا حق کس کا ہے ؟ فرمایا: شوہر کا۔ میں نے عرض کیا: اور مرد پر سب سے بڑا حق کس کا ہے ؟ فرمایا: اس کی ماں کا(مستدرک حاکم ) ماں کے بلندترین مقام کو واشگاف کرنے کے لئے عہد نبویﷺ کا یہ واقعہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص قریب المرگ تھا مگرنہ تواُس کی زبان سے کلمہ جاری ہوتاتھا اور نہ ہی اُسے موت آتی تھی۔ وہ نہایت تکلیف میں تھا۔ صحابہؓ میں سے کچھ لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ساری کیفیت بتائی۔ آپﷺنے پوچھا کیااس شخص کی والدہ زندہ ہے ؟ بتایاگیازندہ ہے مگراس سے ناراض ہے۔ تب آپﷺ نے فرمایا اس کی والدہ سے کہاجائے کہ وہ اسے معاف کردے جب والدہ نے معاف کرنے سے انکار کیا تونبی کریمﷺ نے صحابہؓ کوحکم دیا کہ وہ لکڑیاں اکٹھی کریں تاکہ اُس شخص کو جلادیاجائے جب اُس کی ماں نے یہ حالت دیکھی تو فوراًمعاف کردیاجب ماں نے اُسے معاف کیا تو پھر اس شخص کی زبان سے کلمہ بھی جاری ہوگیا۔ یہ اور اس طرح کی بے شمار روایتیں، احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں؛ لیکن درد کی بات ہے کہ دنیا جتنی تیزی کے ساتھ ترقیات کے منازل طے کر رہی ہے اسی تیزی کے ساتھ اخلاقی تنزلی آتی جا رہی ہے ،آج دلوں میں ماں کی عظمت کا احساس نہیں، اس کی خدمت کا شعور نہیں، اس کی ضرورتوں کا احساس نہیں، اس کی بیماری کا مداوا نہیں ،ایک بے حسی سی سارے عالم پر چھائی ہوئی ہے، ایک نحوست پس و پیش منڈلارہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ والدین کے احسانات کو یادکیاجاتا،ان کی خدمات کا بدلہ دیاجاتا،انہیں پرسکون گھر اور اسباب حیات مہیاکئے جاتے اور ہر قسم کی تعب و تھکن سے انہیں مامون کردیاجاتا اورہر بیٹا زبان حال وقال سے یہ ترانہ گنگناتا ہے یہ کسی صاحب فراست حکیم اور دانا کے پُروئے موتی ہیرے اور جواہرات سے بھی قیمتی پڑھئے
میری ماں کی عظمت مِرے روبرو ہے
اسی کی محبت، فقط جستجو ہے
اگر کوئی رشتہ ہے چاہت کے قابل
فقط میری ماں ہے یہی آرزو ہے
تیری ہر خوشی پر میں صد بار صدقے
تو ہی تو ہے محفل تو ہی گفتگو ہے
تیرا ساتھ ہر دم رہے ہر قدم پر
یہی آرزو ہے یہی آرزو
تازہ ترین