مانچسٹر (غلام مصطفیٰ مغل) یوم پاکستان کے حوالے سے وائٹ فیلڈ ہائوس میں تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب میں سالیسٹر مظہر اسلم، سالیسٹر منصور احمد کاہلو سالیسٹر راجہ شاہد حسین،سالیسٹر محمد جیند ماجد، ایڈووکیٹ سجاد احمد خان،یوسف محمود،شازیہ بٹ، سالیسٹر مشتاق آفریدی،میاں نثار احمد کے علاوہ دیگر افراد نے خطاب کئے۔ مقررین نے خطاب کرتے ہوئےکہا ہے کہ قائد اعظمؒ نے قانون کے دائرے میں رہ کر ساری جدوجہد کی ،انہوں نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر دلیل کے ذریعے اپنے مشن کو کامیاب اور پاکستان کو تخلیق کیا۔انہوں نے کہا کہ قائد اعظم پالیمنٹیرین تھے وہ قانون پسند شخص تھے انہوں نے قانون کے دائرے میں رہ کر اپنی ساری جدوجہد کی۔ ان کی ساری جدوجہد کا حسن یہ ہے کہ وہ دلیل کے ساتھ بات کرتے رہے، قائد اعظمؒ نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہمیشہ دلیل کے ذریعے اپنے مشن کو کامیاب کیا اور پاکستان کو تخلیق کیا۔ انہوں نے کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف مسلمان مفکرین ہی نہیں بلکہ کئی ہندو بھی ایسے تھے جو ہندو اور مسلمانوں کو دوقومیں قرار دیتے تھے۔ اگرچہ وہ اس کا الگ نتیجہ نکالتے تھے اور کہتے کہ مسلمانوں کو یہاں حقوق حاصل نہیں ہونے چاہئیں کبھی کہا کہ مسلمانوں اور ہندوئوں کو دو خطوں میں بانٹ دیا جائےتو ہندوئوں کی جانب سے بھی ایسی سوچ سامنے آتی رہی۔ مسلمان مفکرین بھی بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمان اکثریتی علاقوں میں الگ مملکت قائم ہو جانی چاہئے۔ مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ مسلمان مملکت کے لئےسندھ مسلم لیگ نے 1938 میں قرارداد پاس کی تھی اور مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ اس اجلاس کی صدارت قائداعظمؒ نے کی تھی اور پھر مسلم لیگ کی ایک کمیٹی بنا دی تھی اور 1939 میں باقاعدہ ایک قرارداد پر غور کیا اور اس مطالبے کو ایک آئینی شکل دینے کی کوشش کی اور1940 میں یہ بات پہلی دفعہ نہیں سامنے آئی۔ سندھ مسلم لیگ تو 1938 میں قرارداد بھی پاس کر چکی تھی۔ اس قرارداد میں سبجیکٹ کمیٹی میں 15 سے 16 ترامیم ہوئیں اور ایک ترمیم خود قائد اعظم کے ہاتھ سے ہے۔ اور یہ قرارداد مسلم لیگ کی دستاویز میں شامل ہے اور یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ قرارداد کہاں سے آئی، کس نے ڈرافٹ کی اور اس میں کیا ہوا ۔ تقریب سے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انگریزوں نے’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کی بنیاد رکھی اور پہلا سربراہ سول سرونٹ تھا ۔ اس پر سر سید احمد نے تقریر میں کہا کہ انڈیا ایک قوم نہیں ہے یہ کئی قوموں کا گھر ہے۔ انہوں نے سرسید احمد خان کے انگریزی کے حروف بتاتے ہوئے کہا کہ سر سید احمد خان کے الفاظ تھے India is land of many nations . India is a continent not country . انہوں نے کہا کہ یہ دو قومی نظریہ مختلف ادوار میں ہر زمانے کے سیاسی حالات کے مطابق ترقی کرتا 1930 کے خطبہ الہٰ آباد تک پہنچا اور کہا کہ علامہ اقبالؒ کے قائداعظمؒ کو لکھے خطوط سے ثابت ہوتا ہے کہ قرارداد پاکستان علامہ اقبالؒ کے خیالات کی سیاسی ترتیب ہے ۔ 1876 میں جالندھر کی تقریر میں سر سید احمد خان نےکہا کہ ’’یہ نا ممکن ہے کہ ہندو اور مسلم ایک دوسرے کے حاکم اور محکوم بن کر رہ سکیں ، میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کے سر پر کلمے کا تاج ہو گا اور آپ اچھے رہیں گے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ قائد اعظمؒ کے خیالات کو ڈھالنے میں علامہ اقبالؒ کے خطوط کا اہم کردار ہے۔ علامہ اقبالؒ کی برسی کے موقع پر قائد اعظمؒ نے کہا کہ’’ آج اگر اقبال زندہ ہوتے تو وہ کتنے خوش ہوتے کہ ہم نے وہ کر دکھایا جو وہ چاہتے تھے‘‘۔نظریاتی بنیاد علامہ اقبالؒ کے ان خطوط نے ہی رکھی، علامہ اقبالؒ نے قائد اعظمؒ کو تجویز دی کی اب وقت آ گیا ہے کہ آپ اس کا مطالبہ کریں۔ علامہ اقبالؒ نے قائدا عظم محمد علی جناحؒ کو جو 35 سے 37 خطوط لکھے ان کا بڑا اہم کردار تھا اور اس کا اعتراف خود قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے کیا ۔ جب تک پاکستان ایک مطالبہ اور ایک تحریک تھی اس وقت تک 23 مارچ کو پورے جوش وخروش سے یوم پاکستان منایا جاتا رہا اور جب پاکستان قائم ہو گیا تو پھر جو یوم آزادی تھا ہمارا 14 اگست اس کو بنیادی اہمیت حاصل ہو گئی اور یوم آزادی کےطور پر ہم نے اسی دن کو منایا۔