• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معروف عالمی اداروں کی درجہ بندی کے مطابق دنیا کے تیسرے طاقتور ترین سیاسی رہنما، مقبولیت کے لحاظ سے دنیا کے نویں مقبول ترین سیاستدان اور کرکٹ کے میدان کو فتح کرنے کے بعد پاکستان کے سیاسی میدان کو تسخیر کرنے والے عمران خان کو عوام اپنے مسائل، مشکلات اور بحرانوں سے نکالنے کیلئے نجات دہندہ کے طور پر انقلابی رہنما سمجھ رہے ہیں۔ 8ماہ پہلے اقتدار سنبھالنے والے عمران خان کی حکومت کو آغاز ہی سے بدترین معاشی اور کئی محاذوں پر سخت سفارتی چیلنجز کا سامنا ہے، اربوں ڈالر کے قرضے، ملکی وغیر ملکی سرمایہ کاری کی عدم موجودگی اور روپے کی گرتی قدر جیسی مشکل نے عمران خان کو اقتدار کا ہنی مون پیریڈ کا مزہ بھی نہیں لینے دیا، دوسری طرف عمران خان کا اکیلے بطور ایماندار قائد، وزراء کی ایک ایسی فوج سے سامنا ہوا جس نے اس انقلابی لیڈر کو اپوزیشن میں رہ کر سابقہ حکومتوں پر لگائے گئے سخت الزامات کی دھول چٹانے پر مجبور کردیا، شاید کرپشن کے سوا اب کوئی بھی بدترین الزام یا سخت جملہ ایسا نہ ہو گا جس کا اعادہ خود بطور وزیراعظم عمران خان کرنے پر مجبور نہ ہوئے ہوں، کابینہ ارکان اور دو اہم صوبوں میں وزرائے اعلیٰ کے چناؤ میں کپتان کی سلیکشن کے معیار سے لیکر آج ان کی آٹھ ماہ کی کارکردگی تک سوالات ہی سوالات ہیں، جس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ اس پر مستزاد کہ خود وزیراعظم کو اپنے ایک ایک کھلاڑی کی کوتاہیوں کی آئے روز وضاحت بھی دینا پڑتی ہے۔ کئی مرتبہ تو کھلاڑیوں کی جنگ کو ٹھنڈا کرنے اور معافی تلافی کرانے کا فریضہ بھی انجام دینا پڑتا ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے، پیٹرول، گیس، بجلی اور عام اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے، ٹیکسز نہ بڑھانے، عوام کو ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر دینے سمیت تمام اعلانات آج تبدیلی سرکار کو شرمسار کررہے ہیں، پہلے دو ماہ میں قومی خزانے کے لٹیروں کو الٹا لٹکانے اور لوٹے ہوئے اربوں ڈالر پاکستان لانے سمیت اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے دعوے منہ چڑھا رہے ہیں۔ کپتان کے اوپنر اسد عمر نے خزانہ عوام پر لٹا کر جو پرفارمنس دی، اس نےعوام کی آس و امید کو جھنجھلا کر رکھ دیا ہے۔ شاید وزیر خزانہ نے درست نشاندہی کی کہ ’’مافیا کی چیخیں نکل رہی ہیں“ جی ہاں اسی مافیا کی جس نے آپ کو ووٹ دے کر اس لئے اقتدار سونپا کہ آپ ان کی حالت کو سنواریں گے، مہنگائی کم کر کے ان کی برسوں کی غربت مٹانے کی راہ متعین کریں گے، ملک کے ساٹھ فیصد نوجوانوں کو روزگار اور اسکول نہ جانے والے کروڑوں بچوں کو مکتب دیں گے، صحت، صاف پانی اور چھت کی سہولت فراہم کریں گے، سماجی و عدالتی نظام کی بہتری کی قانون سازی اور ہر سطح پر انصاف کی فراہمی کے اسباب پیدا کریں گے، اپنے گھر کو صاف کر کے ہمسائیوں اور دنیا کے ساتھ مل کر امن اقدامات کو فروغ دیں گے لیکن عوام تو بے چارے اپنے ووٹ کی پرچی کا استحصال اور اپنے ارمانوں کا خون روز دیکھنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ جی ہاں آپ نے درست کہا اسی معصوم ’’مافیا“ کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اکیلا کپتان ہے اور مافیا کے منتخب ’’قابل و ایماندار‘‘ کھلاڑی جو کپتان کو ہی چیلنج کئے ہوئے ہیں کہ روک سکو تو روک لو! ابتدا میں کپتان کو یقین تھا کہ وہ ان کھلاڑیوں کو ایک آدھ ماہ میں قابو کر کے سیدھا کر لے گا لیکن ان کی آنکھ تب کھلی جب پہلے چار ماہ کی کارکردگی کا حساب لیا تو تین درجن سے زائد وزراء میں سے ایک دو وزراء کے سوا کوئی اپنی کارکردگی سے مطمئن تک نہ کر سکا، پرانے کھلاڑی شیخ رشید نے ریلوے وزارت کو پہلے دن سے چابک دستی سے کنٹرول کر کے سابق وزیر کیخلاف اربوں روپے کا اسکینڈل نکالا بلکہ خصوصی الاؤنس سے ملازمین کے دل جیت کر کئی بند ٹریک کھول کر نئی ٹرین سروسز بھی شروع کردیں، پہلی مرتبہ وزیر بننے والے مراد سعید نے مواصلات کی وزارت میں اربوں کے غبن پکڑنے، خرچے کم کر کے ٹھیکوں کی شفافیت کو یقینی بنانے کے اقدامات سے کپتان کا دل جیت لیا۔ اسی اجلاس میں تین چار وزراء کی مشتبہ حرکتوں کا کپتان نے نوٹس لیکر باز آنے کی وارننگ بھی دی، ان میں سے ایک آدھ نے سنجیدگی دکھائی باقی پرانے کھلاڑی اپنے ماضی کے تجربات کی روشنی میں پھر جت گئے۔ ان میں سے ایک پرانے کو بلا کر وزیراعظم نے تو وزارت چھوڑنے کا کہہ بھی دیا ہے لیکن وہ ابھی مارے ’’غیرت“ وزارت چھوڑنے پر ازخود آمادہ نہیں۔ اس کے علاوہ بھی بری کارکردگی والے کپتان کے نوٹس میں ہیں۔ اب گزشتہ آٹھ ماہ کی کارکردگی کا اسی ماہ دوبارہ جائزہ ہو گا تو کپتان کو شاید عام اعلان کے ذریعے ان موصوف سمیت کئی ایک کو ہٹانا پڑے گا؟ بدقسمتی سے ملکی خزانہ لوٹنے والے اصلی مافیا تو سکون اور محفوظ ہاتھوں میں ہیں، کپتان سمجھیں کہ جو چیخیں وہ سن رہے ہیں، دراصل وہ مجبور و محصور عوام کی چیخیں ہیں، جن کیلئے آپ کچھ نہیں کرپا رہے۔ کپتان سوچیں ایسا کب تک چلے گا؟۔ برسوں سے مسلسل مہنگائی میں پسنے والے عوام آئی ایم ایف کی نئی ڈیمانڈز اور ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں کےمتحمل نہیں ہو سکتے۔ عالمی ادارے نشاندہی کر رہے ہیں کہ ترقی کی شرح تین سے گر کر 2.2فی صد اور مہنگائی دس فیصد کو چھونے جارہی ہے، ایسے میں آس اور امید لگائے اس پریشان ’’مافیا‘‘ کے لئے آپ کو ہی کچھ کرنا ہوگا، محض سیاستدانوں کے احتساب کا بیانیہ بھی بدلنا ہو گا، آئندہ دو تین ماہ میں کچھ غیر معمولی اقدامات اور فیصلے لینا ہوں گے۔ خدانخواستہ حالات ایسے ہی رہے تو بڑی خرابی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین