• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی شخص گنہگار ہے یا بے گناہ؟ اس فیصلہ کا اختیار حقوق العباد کی حد تک ملکی قانونی و آئینی عدالتوں کے پاس ہے، رہ گئے حقوق اللہ جیسے نماز، روزہ، حج اور دیگر فرائض و امور،ان میں کوتاہی پر فیصلے کا اختیار صرف اور صرف پروردگار عالم کو ہے۔ زکوٰۃ کا تعلق چونکہ حقوق العباد سے ہے، اس لئے اس کی عدم ادائیگی پر قانون یا ریاست کو کارروائی کا حق حاصل ہے جبکہ اس کے بالمقابل کوئی شخص اگر نماز، روزہ اور حج جیسے بنیادی اسلامی فرائض کی ادائیگی نہیں کرتا تو یہ خدا اور بندے کا معاملہ ہے۔ خدائے رحمٰن و رحیم چاہے تو پکڑ کرے اور چاہے تو معاف کر دے۔ کوئی ریاست یا ریاست کا کوئی ادارہ یا فرد یا کوئی اور فرد ان معاملات کی عدم ادائیگی پر باز پُرس یا تادیب کا قطعی کوئی حق نہیں رکھتا ہے۔ اب ہم اپنے اصل مدعا پر آتے ہیں۔ اسلام میں انسانی حقوق یا حقوق العباد کی اشد اہمیت ہے۔ پیغمبر اسلامﷺ کی زندگی کے کتنے زیادہ واقعات ملتے ہیں کہ لوگوں نے آپؐ کے ساتھ طرح طرح کی زیادتیاں کیں لیکن آپؐ نے بدلے میں اُن کے ساتھ زیادتی نہیں کی۔ اسی وجہ سے قرآن آپؐ کو رحمۃ للعالمین کا خطاب دیتا ہے۔ ایک یہودی بوڑھی خاتون جو روز آنجنابؐ پر کوڑا پھینکتی تھی، عامۃ المسلمین سے ہمارا یہ سوال ہے کہ اس پر آنجنابؐ کا ردِعمل کیا تھا؟ اور قرآن ہی ہمیں پابند کر رہا ہے کہ اے مسلمانوں ’’لقد کَان لکُم فِی رسولِ اللہ اُسوۃ حسنۃ‘‘ رہ گیا یہ سوال کہ تم میں سے جو استطاعت رکھتا ہے وہ بدی کو اپنے ہاتھ سے روکے یا پھر زبان سے روکے اگر اس کی بھی طاقت نہیں ہے تو کم از کم دل میں برا خیال کرے تو ہمارے لوگوں نے اس ہدایت کو شاید درست طور پر نہیں سمجھا اور انفرادی طور پر اس کو بانٹ دیا ہے، حالانکہ یہ درجہ بندی تھی استطاعت کے حوالے سے۔ طاقت سے بدی کو روکنے کا اختیار صرف اور صرف ریاست اور متعلقہ اتھارٹی کو حاصل ہے۔ آپ ریاست کی معاونت کر سکتے ہیں مگر آپ اس کو افراد یا گروہوں میں بانٹیں گے تو سوسائٹی میں بدترین انارکی پھیلے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں مسلح جتھوں بمعنی قتال کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ جہاد کے لیے روزِ اول سے سخت ترین شرائط عائد ہیں۔ اگر کوئی ان میں سے کسی ایک کا بھی خیال نہیں رکھے گا تو وہ مقدس جہاد نہیں دہشت گردی کا مرتکب ہو گا۔ اس نکتے کو واضح کرنے کیلئے درویش نے ایک پوری کتاب پیش کر رکھی ہے جس کا نام ہے ’’جہاد یا دہشت گردی؟‘‘ تاکہ نسل نو پر ہر دو اصطلاحات کا فرق واضح ہو سکے۔ لہٰذا طاقت کی استطاعت سے مراد ریاستی یا حکومتی طاقت ہے اس لیے یہ اُسی کا کام ہے کہ اگر کہیں کوئی برائی ہوتی دیکھے تو اسے قوت سے روکے۔ زبان یا الفاظ سے بدی پر اظہارِ نفرین کے لیے فی زمانہ میڈیا موجود ہے۔ ماقبل اس نوع کا کام مبلغین کرتے تھے۔ ان دنوں مبلغین کا ایک طبقہ اپنے غیر ذمہ دارانہ رویوں کی وجہ سے کسی حد تک خرابی کا باعث بن رہا ہے۔ میڈیا کو تو کہیں نہ کہیں جا کر کنٹرول کیا جا سکتا ہے جبکہ مبلغین کو کنٹرول کرنا کتنا مشکل ہے، اس کا ہمارے ہر فرد کو بخوبی ادراک ہے۔ رہ گئے عامۃ المسلمین تو وہ برائی کو کم از کم اپنے دل سے برُا سمجھ لیں تو بڑی بات ہے، وگرنہ ورغلانے والے انہیں بدی کرنے والوں کی حمایت میں کھڑا کر سکتے ہیں۔ اسی طرح جو یہ کہا گیا ہے کہ تم میں سے ہر کوئی راعی یا نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت یا زیر دستوں کے بارے میں پوچھا جائے گا تو اس فرمان میں بھی یہ حد بندی مقرر کر دی گئی ہے کہ اپنی استطاعت یا ذمہ داری سے بڑھ کر چھلانگیں مارنے کی کوشش نہ کرو۔ بلاوجہ دوسروں پر حاکم بننے کی کوشش مت کرو، اپنی حدود و قیور کے اندر رہو۔ وہ بھی محض تادیب کے لیے نہیں حقیقی فرائض یا ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے۔ اب ہم اپنی اصل بات پر آتے ہیں کون گنہگار ہے اور کون بے گناہ؟ اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف اور صرف پروردگارِ عالم کو حاصل ہے، جس نے فیصلے کا ایک دن بھی مقرر کر رکھا ہے۔ باقی رہ گئے انسانی معاملات یا حقوق العباد کے ایشوز تو ان میں اگر کوئی گنہگار ہے تو اس کے فیصلے کا حق کسی فرد یا گروہ کو سرے سے حاصل نہیں، یہ ریاست، حکومت یا عدالت کا اختیار ہے۔ اگر کوئی فرد بندوق یا چھری پکڑ کر یہ حق یا اختیار اپنے ہاتھ میں لیتا ہے تو اُسے قرآن کا یہ فرمان یاد رکھنا چاہئے کہ ’’جس نے کسی ایک انسان کو ناحق قتل کیا اُس نے گویا پوری انسانیت کا ناحق قتل کیا‘‘۔ اگر کوئی تنظیم یا گروہ اس حوالے سے ریاست کی اتھارٹی کو چیلنج کرتا ہے یا فتنے کا مرتکب ہوتا ہے تو ریاستی طاقت کے ذریعے اس کی گو شمالی لازم ہےاور پورا میڈیا اس کی پشت پر کھڑا نظر آئے۔ میڈیا کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس تمام تر فتنہ انگیزی کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے عامۃ الناس کے سامنے ایسے سانحات کی تفصیلات و وجوہات رکھے جنہوں نے ہمارے سماج کو ایسی پستی میں دھکیل دیا ہے کہ لاکھوں ناسمجھ قاتلوں کی حمایت میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس پروپیگنڈے کا پردہ چاک کرنا اور سوسائٹی کو عقل و شعور سے بہرہ ور کرنا ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین