• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ماضی میں کراچی میں بنائی جانے والی چند سڑکیں اور ریلوے ٹریک‘‘

 محسن بن رشید

کسی بھی ملک یا شہر کی ترقی اس کے ذرائع نقل و حمل کی ترقی سے مر بوط ہوتی ہے ۔جب کراچی شہر پر انگریزوں نے 1839 میں قبضہ کیا تو اس شہر نے ترقی کا نہ رکنے والا سفر شروع کیا انگریزوں نے اس شہر کو سڑکوں، ریلوں، ٹراموں، ڈاک، وتار، بجلی اور پانی سمیت دیگر سہولیات مہیا کیں۔ انگریز گورنر سر چارلیس نیپئر نے نظام سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے فصیل شہر توڑ دی اور اس کی جگہ سڑک تعمیر کی گئی، اس کے بعد چھاگلہ اسٹریٹ اور مولجی اسٹریٹ تعمیر ہوئیں۔ پھر کئی سڑکیں تعمیرہوئیں، جن میں بندر روڈ بھی شامل ہے۔ بندرگاہ کی نسبت سے اس کا نام بندر روڈ رکھا گیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت کراچی میں بجلی نہیں تھی لہذا کراچی کی سڑکوں پرگیس لیمپ لگائے گئے، جنہیں روشن رکھنے کے لئے دن کے اوقات میں زمین کے نیچے بنی ہوئی ٹینکی میں مٹی کا تیل ڈالا جاتا تھا اور رات میں انتظامیہ کے لوگ اسے روشن کر نے کا کام کرتے تھے، جس سے کراچی کی بیشتر سڑکیں روشن رہنے لگیں اور لوگوں کو رات کے اوقات میں بھی سفر کے دوران کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آتی تھی۔ شہر میں بیشتر سڑکیں تعمیرکیے جانے کے بعد سر چارلیس نیپئر کے ہی دور میں کراچی کو اندرون شہر سے ملانے کے لئے ایک کچی سڑک کو کراچی سے کوٹری تک کر دیا پھر اس سڑک کو 1852 میں سیہون تک جا پہنچایا، جس سے لوگوں کواندرون سندھ تک سفری سہولیات میسر آگئیں۔

ریلوے ٹریک بچھانے کا کام 1855 میں لندن میں قائم ہونے والی کمپنی جوکہ سندھ ریلوے کمپنی کہلاتی تھی ،نے انجام دیا ، اسی سال دسمبر میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور سندھ ریلوے کمپنی نے کراچی سے کوٹری تک ریلوے لائن بچھانے کا کام مکمل کیا،اس کے بعد کراچی سے کوٹری تک ٹرینیں چلنے لگیں ،جن سے بیرون ملک سے لایا جانے والا سامان کوٹری تک جانے لگا ،جہاں سے کشتیاں اس ساما ن کو کشتیوں میں لاد کر حیدر آباد پہنچاتے تھے۔ نومبر 1879 میں حیدر آباد سے ملتان تک ٹرینیں چلنے لگیں۔ 1887 میں کوٹری اور کوئٹہ کے درمیان بھی ٹرینیں چلائی گئیں۔سٹی اسٹیشن جس کے ایک طرف حبیب بینک پلازہ جبکہ دوسری اولڈ کوئنس روڈ ہے، میں چار پلیٹ فارم اور چار ٹریک ہوا کرتے تھےآج بھی ہیں اسے قدیم ترین اسٹیشن کا اعزاز حاصل ہے۔ آج اس اسٹیشن سے مال گاڑیوں کے علاوہ ہزارہ ایکسپریس، بولان ایکسپریس، ذکریہ ایکسپریس، فرید ایکسپریس اور خو شحال خاں خٹک ایکسپریس لاہور اور پشاور جاتی ہیں، جبکہ صبح سے رات گئے تک لگ بھگ تمام مال گاڑیاں یہاں سے ہی آپریٹ ہوتی ہیں۔

سٹی اسٹیشن گوکہ اب پہلے کی طرح فعال نہیں ہے مگر کیونکہ یہاں انگریزوں کے دور میں ہی ڈویژنل آفس قائم ہوا تھا اور ڈویژنل سپریٹنڈینٹ اسی دفتر میں بیٹھتے ہیں۔سٹی اسٹیشن اور وہاں موجود ڈی ایس آفس قدیم ترین عمارتوں میں شمار ہوتے ہیں۔ قدیم پتھروں سے بنی یہ عمارت قابل دید ہے، جبکہ ڈی ایس آفس میں لگائی جانے والی قدیم ترین گرل والی لفٹ وہ واحد قدیم ترین لفٹ ہے جو چیخ چیخ کر اپنے شاندار داستان بیاں کرر ہی ہے۔ یہ اسٹیشن میلوں رقبے پر پھیلا ہوا ہے اس کے ٹریک کے ارد گرد قدیم ترین گودام زیر استعمال ہے اور ملک بھر سے آنے والے سازوسامان کو ان گوداموں میں انتہائی حفاظت کے ساتھ رکھا جاتا ہے، جبکہ ایک اکاؤنٹ آفس، گارڈ روم جوکہ پتھروں سے بنے ہوئے ہیں آج بھی اپنی داستاں بیان کر تے نظر آتے ہیں۔ تمام ریلوے اسٹیشن انگریز راج میں ہی قائم ہوئے۔ 

تازہ ترین