• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر میں نرسیں شب و روز خدمت کے جذبے سے سرشار معالجین کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔ معالج ادویات کی تشخیص کر کے چلا جاتا ہے مگر نرسیں مریضوں کو ڈرپ لگانے اور دیگر ٹیسٹ کے لئے24گھنٹے متحرک رہتی ہیں۔ نرس سے ذرا سی غفلت ہو جائے تو عتاب کانشانہ بھی وہی بنتی ہے، حالانکہ اس کے بغیر 24 گھنٹے خدمت کا تصور ہی محال ہے۔ جسمانی و ذہنی مریضوں کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے نرسوں کی ذمہ داریاں دُہری ہو گئی ہیں۔ ایک طرف وہ بلا رنگ و نسل مریضوں کی خدمت کے لئے ہمہ وقت حاضر رہتی ہیں، دوسری جانب انہیں مریضوں کے اعصابی رویوں کا شکار بھی ہونا پڑتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں اوسطاً چالیس مریضوں پر ایک نرس تعینات ہوتی ہے۔ پاکستان میں میڈیکل تعلیم کے ساتھ نرسنگ کی تعلیم میں بھی کئی دشواریاں ہیں۔ پاکستان کے نرسنگ اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں ڈپلوما کورس سےلے کر ایم ایس سی تک تعلیم و تدریس کی سہولتیں مہیا کر رہی ہیں۔

نرسنگ ایجوکیشن کی صورتحال

ہرچند کہ پاکستان نرسنگ کونسل کے تحت کئی ڈپلوما اپرنٹس شپ پروگرام اور ماسٹرز ڈگریاں دستیاب ہیں لیکن ملک میں نرسوں کی قلت آج بھی موجود ہے۔ بیشتر اسپتالوں میں نرسنگ کے شعبے میں مرد اور خواتین دونوں ہی خدمات سرانجام دیتے ہیں، جو تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے ذوق و شوق سے مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر سیکھتے ہیں۔ 2013ء میں جرنل آف پائنیرنگ میڈیکل سائنسز کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ’نرس پیشنٹ‘ کی شرح50مریضوں پر ایک نرس ہے جب کہ پاکستان نرسنگ کونسل کی جانب سے یہ شرح10مریضوں پر ایک نرس اور نازک امراض میں ایک مریض پر 2نرسیں مقرر ہے۔ اس وقت صوبہ سندھ نرسوں کی شدید قلت کا شکار ہے جب کہ خیبر پختونخوا میں یہ تعداد زیادہ ہے۔ پاکستان میں رجسٹرڈ162نرسنگ کالجوں سے طلبا کی بہت کم تعداد فارغ التحصیل ہوتی ہے۔ ملک کے رجسٹرڈ نرسنگ کالجوں میں دی جانے والی تعلیم کا موازنہ کیا جائے تو صورتحال اتنی تاریک نہیں جتنی تصور کی جاتی ہے۔ جنرل نرسری، پیوپل مڈوائفری اور نرس وائفری میں ڈپلوما کورس کے ساتھ ،پوسٹ آر این ،بی ایس این اور نرسنگ میںبی ایس سی / ایم ایس سی/ڈاکٹریٹ کی اسناد اور کئی دیگر اسپیشل خدمات میں تربیت حاصل کی جاسکتی ہے۔

نرسنگ بطور کیریئر

پاکستان میں نرسنگ کی تعلیم اور کیریئر کے حوالے سے عام طور پرلوگوں کو زیادہ شعور نہیں ہے۔ کیریئر کے حوالے سے نرسنگ سروس اسٹرکچر (جے پی ایم سی) کا ملاحظہ کریں تو آپ کوچیف نرسنگ سپرنٹنڈنٹ، ڈپٹی سی این ایس، نرسنگ سپرنٹنڈنٹ، اسسٹنٹ ایس این، نرسنگ انسٹرکٹر، ہیڈ نرس اور اسٹاف نرس/ابچارج نرس کی اسامیاں نظر آئیں گی۔ نرسنگ مینجمنٹ اسٹرکچر دیکھیں تو یہاں آپ کو انتظامی سطح پر چیف نرسنگ آفیسر، ڈائریکٹر نرسنگ، نرسنگ منیجر/سپروائزر وغیرہ جیسے عہدے ملیں گے۔ اس لیے پریکٹس میں رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے نرسوں کو اپنی صلاحیتوں کا خود ادراک کرکے راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا اور حقیقی معنوں میں اپنی صلاحیتوں کو ثابت کرنا ہوگا۔

نرسنگ کا مقام

ملک میں عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ نرسنگ ایک عزت مند پیشہ نہیں، اسی وجہ سے نرسوں کی قلت کا سامنا ہے۔ اس پیشے کو پسماندہ لوگوں کے لئے مخصوص مانا جاتا ہے۔ نرسنگ کی تعلیم میں مردوں اور خواتین کے مابین بھی واضح فرق دکھائی دیتا ہے۔ سنگل جینڈر کورسز میں ڈپلوما کو مقبولیت حاصل ہے، جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کا تناسب 50-50ہے۔ نرسنگ کو کامیاب کیریئر کے طور پر بھی نہیں لیا جاتا۔ سرکاری اور نجی اداروں میں بہت بڑی تفریق بھی اس معاملے کو گمبھیر بنا رہی ہے۔ پرائیوٹ اسکول اور اسپتال اپنے میل، فیمیل نرس اسٹاف کو اعلیٰ تعلیم و تربیت کے ساتھ خوشگوار ماحول مہیا کرتے ہوئے اچھی تنخواہ دیتے ہیں جب کہ سرکاری سطح پر تعلیم اور ماحول میں واضح فرق موجود ہے۔ ماہرین تعلیم و طب کا ماننا ہے کہ سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت اور اقربا پروری نیز کرپشن کی وجہ سے یہ شعبہ ابتر صورتحال سے دوچار ہے۔

نرسوں کی کمی ایک عالمی مسئلہ

اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ نرسوں کی قلت صرف ہمارے ہاں ہے، تو ایسا نہیں ہے۔ دنیابھر میں میڈیکل کا یہ شعبہ زوال کا شکار ہے۔ اب کوئی فلورنس ٹائٹینگل مشکل ہی سے پیدا ہوگی۔ تاہم عالمی ادارۂ صحت کے ملینیم اہداف میں فلپائن جیسے ملک کی کامیابیاں قابل تقلید ہیں، جس نے امریکا، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک میں نرسنگ کے شعبے میں اپنے عوام کو روزگار کے وسیع مواقع مہیا کئے ہیں۔ پاکستان بھی اس ماڈل کو اپنا کر نہ صرف ملک میں نرسوں کی کمی کو دور کرسکتا ہے بلکہ گلوبل نرسنگ میں بھی باعزت مقام پا سکتا ہے۔

نرسنگ کو باوقار بنانے کیلئے تجاویز

کسی بھی معالج کا مددگار ہاتھ ہمیشہ میل، فیمیل نرس ہی ہوتے ہیں، وہ ان کے لئے سہولتوں کا سامان پیدا کرتے ہوئے اپنے شب و روز ایک کردیتے ہیں۔ نرس ایک مسیحا ہے، میڈیا کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے عوام الناس کو یہ بتانا ہو گا کہ اگر دیکھ بھال کرنے والا موجود نہ ہو تو مریض زندگی کی جانب کیسے آئے گا، اس لئے اپنی زندگی کے رکھوالوں کی عزت کرنا ہمارا تہذیبی اثاثہ ہونا چاہئے۔ نرسنگ اخلاقیات کے لئے شارٹ کورسز اور سیمینارز کا اہتمام کیا جائے۔ عوام کو یہ باور کرانا چاہئے کہ نرس آپ کی بیٹی اور بیٹا ہے، ان کی قدراور حوصلہ افزائی کریں۔ اپنے ثقافتی و لسانی تعصب کو بالائے طاق رکھ کر احترام انسانیت کو فروغ دینا ہو گا۔ یاد رکھیے دنیا کی باوقار اقوام اپنے عوام کی تعلیم و صحت کا خاص خیال رکھتی ہیں۔ دوسری جانب معالج کو بھی اپنی مسیحائی کا سبق پھر سے یاد کرنا ہو گا۔

تازہ ترین